غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہیں مگر کتنے لوگ ہیں، خود کو جو فکر و تدبر پہ آمادہ کر پاتے ہیں۔ زیاں بہت ہے، دنیا میں زیاں بہت۔ اقبالؔ نے کہا تھا: ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہ ء گل یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد؟ ساڑھے تین سال طالبان کی قید میں رہنے والے ٹیموتھی ویکس اب جبرائیل عمر کہلاتے ہیں۔ ان کی خودنوشت شائع ہونے والی ہے،دنیا بھر میں بہت سے لوگ جس کے منتظر ہیں۔ ان کی کہانی بی بی سی نے چھاپی ہے، غور کرنے والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ طالبان سے متاثر ہو کر وہ مسلمان نہیں ہوئے، جو پیہم انہیں تشدد کا نشانہ بناتے رہے بلکہ قرآنِ کریم کے مطالعے سے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جبرائیل افغانستان واپس جانے کے آرزومند ہیں تاکہ خواتین کو تعلیم دے سکیں۔ کابل کی امریکی یونیورسٹی میں وہ انگریزی کے استاد تھے۔ آسٹریلیا کے مشہور سابق سپن باؤلر شین وارن کے شہر وگہ وگہ میں پیدا ہونے والے جبرائیل جولائی 2016ء میں افغانستان پہنچے تھے۔افغان افسروں کے لیے انہیں انگریزی نصاب مرتب کرنا تھا۔ ایک ماہ بعد 9اگست کو طالبان نے ایک ساتھی سمیت انہیں اغوا کر لیا،یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے۔ اس آدمی کا نام کیون کنگ تھا۔۔ ان دونوں کی بازیابی کے لیے امریکی افواج نے ملک کا کونا کونا چھان مارا۔ ایک دو بار تو وہ ان کے ٹھکانوں تک بھی آپہنچے مگر ناکام رہے۔ کارروائی سے کچھ دیر قبل یا عین موقع پر مغوی نئے ٹھکانوں پر منتقل کر دیے جاتے۔ افغانستان پہنچنے سے پہلے جبرائیل افغانستان کے بارے میں اتنا ہی جانتے تھے، جتنا ان کی دادی نے ڈرائنگ روم کی دیوار پہ آویزاں افغانی قالین پہ نقش بادشاہوں کی کہانیاں سنا کر انہیں بتایا تھا۔ کیمبرج یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ اور وہیں سے تدریس کا آغاز کرنے والے۔ جبرائیل کے مطابق ان کے اندازِ فکر میں تبدیلی کا آغاز تب ہوا، جب طالبان کی قید میں وہ ایک مہینہ گزار چکے تھے۔ بی بی سی کو اپنے تحریری انٹرویو میں انہوں نے لکھا ’’ایک دن جہاں میں قید تھا، اس گھر کے باہر سے بچوں کے کھیلنے کودنے اور ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں۔ مجھے ان بچوں کے مستقبل کی فکر لاحق ہو گئی کہ ان بیچاروں کے پاس اچھی زندگی اور بہتر مستقبل کے لیے کیا امکانات ہیں۔ اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ زندگی نے وفا کی تو میں دوبارہ افغانستان واپس لوٹ کر آؤں گا اور ان بچوں کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق جو بھی بن پایا، ضرور کروں گا۔‘‘ ’’اب جب میں آزاد ہو گیا ہوں تو میرا ارادہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ مل کر بچوں خصوصاً لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم کے لیے کام کروں گا۔‘‘یہ ایک مسلمان کے احساسات ہیں، خیر خواہی جس کی سرشت میں ہوتی ہے۔ یہ کہنا البتہ مشکل ہے کہ مقدس طالبان انہیں اجازت مرحمت فرمائیں گے یا نہیں۔ زیادہ سے زیادہ شاید وہ یہی کر سکتے ہیں کہ ان خواتین کے لیے نصاب مرتب کر دیں۔ براہِ راست پڑھانے کی اجازت تو شاید انہیں کبھی نہ ملے۔ وہ کہتے ہیں ’’میری خوش قسمتی ہے کہ اغوا کی اس برائی میں مجھے اچھائی کی ایک کرن نظر آئی۔ اب میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ میں سو فیصد پرعزم ہوں کہ اپنے افغان بہن بھائیوں کی مدد کروں۔‘‘ ’’مجھے ان طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو میں اسلام کو ایک حقیقت کے طور پر نہ جان پاتا۔ میری افغانستان واپسی اور لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے لیے کام موجودہ افغان طالبان حکومت کی اجازت سے مشروط ہے۔ مجھے افغانستان کی اماراتِ اسلامی کی سینئر قیادت پر پورا یقین ہے کیونکہ میں اپنی آزادی کے بعد سے ان سے مذاکرات کے عمل میں مسلسل شامل رہا ہوں۔ مجھے گزشتہ سال کے آغاز میں امریکہ اور طالبان کے مابین قطر میں معاہدے پر دستخط کے موقع پر دوہا آنے کی دعوت دی گئی تھی۔‘‘ وہ بتاتے ہیں: طالبان کی قید میں ا ن کے قیام کا دورانیہ ہفتوں سے مہینوں اور مہینوں سے برسوں تک پھیلتا چلا گیا۔ آسٹریلیا کی حکومت تاوان ادا کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ اکثر انہیں زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا کہ بھاگ نہ سکیں۔ طالبان امریکی فوج کے ہاتھوں پہنچنے والے کسی بھی نقصان کا بدلہ ان پر تشدد سے لیتے۔ خصوصاً جب طالبان جنگجوؤں کے مارے جانے کی خبر آتی تو۔ وہ زنجیروں میں بندھے رہتے۔ انہیں فرش صاف کرنا ہوتا اور وہ ٹھنڈے پانی سے طالبان کے کپڑے دھوتے۔ اچھی طرح سے نہ دھلتے تو اس کا خمیازہ بھی تشدد ہوتا۔ کھانے کو اتنا کم دیا جاتا کہ بس جسم و جاں کا رشتہ قائم رہے۔ امریکی دھاوا بولتے تو ایک سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا۔ کیون کی عمر زیادہ تھی، وزن بہت زیادہ اور سماعت کمزور۔ امریکی ہیلی کاپٹر ہمارے سروں پہ پہنچتے اور ہمیں ایک سے دوسری جگہ منتقل کیاجاتا تو طالبان سرگوشیوں میں مجھے جلد نکلنے کا حکم دیتے۔ میں یہ حکم پروفیسر کیون کے کان میں کہتا تو وہ سن نہ پاتے۔ معاملہ بگڑنے لگتا تو طالبان مجھ پہ ٹوٹ پڑتے۔ دو سال کے بعد طالبان کے رویے میں تبدیلی آئی۔وہ جبرائیل اور کیون کو اچھی خوراک دینے لگے اور ورزش کا موقع بھی۔شاید طالبان کو ہمارے بدلے اپنے ساتھیوں کی رہائی کی امید پیدا ہو چلی تھی۔ آخر کا ر اہم طالبان کمانڈروہ انس حقانی اور خلیل حقانی کے بدلے میں رہا کر دیے گئے۔‘‘ ان لوگوں سے جبرائیل کی ملاقات رہائی کے بعد ہوئی۔’’اس وقت جب مجھے دوہا میں امریکہ طالبان مذاکرات میں لے جایا گیا۔‘‘ ٹیموتھی ویکس جبرائیل عمر کیسے بنے؟ ’’دورانِ حراست قرآنی تفسیر اور بعض دوسری اسلامی کتابیں پڑھنے کے بعد۔ جبر و تشدد کا سلسلہ کچھ کم ہوا تو طالبان سے کتابیں مانگیں۔ اردو بازار کراچی میں چھپنے والی کچھ کتابیں اور انگریزی زبان میں قرآن کی تفسیر انہیں دے دی گئی۔ ’’یہ کتابیں اور قرآن پڑھنے کے بعد آہستہ آہستہ میں اسلام کی طرف راغب ہونے لگا۔ آخر کار 5مئی 2018ء کو اسلام قبول کر لیا۔ وضو اور نماز کی پریکٹس شروع کر دی۔‘‘وہ کہتے ہیں ’’میرے قبولِ اسلام کا طالبان کو پتہ چلا تو حیران کن طور پر خوش ہونے کی بجائے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ ان سے پہلے برطانوی خاتون صحافی ایون ریڈ لی بھی ایسا کر چکی ہیں۔ اس محترم کم گو خاتون سے عمران خان کی موجودگی میں ایک طویل ملاقات ہوئی، جب عافیہ صدیقی کو رہا کرانے کی مہم میں وہ جتی تھیں۔ عمران خاں مجھے سگریٹ چھوڑنے پہ لیکچر دیتے رہے۔ تنگ آکر ریڈلی سے کہا: اس سے پوچھو، دن بھر میں چار سگریٹ زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں یا پیپسی کے تین گلاس۔ قبولِ اسلام کے بعد جبرائیل آسٹریلیا پہنچے تو ان پر تھوکا گیا، ان کا مذاق اڑایا گیا، انہیں سٹاک ہوم سینڈرم کا شکار بتایا گیا۔ وہ لوگ جو خود پرظلم کرنے والوں کے عقائد قبول کر لیتے ہیں۔ غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہیں مگر کتنے لوگ ہیں، خود کو جو فکر و تدبر پہ آمادہ کر پاتے ہیں۔ زیاں بہت ہے، دنیا میں زیاں بہت۔ اقبالؔ نے کہا تھا: ٹہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمہ ء گل یہی ہے فصلِ بہاری، یہی ہے بادِ مراد؟