وزیراعظم مودی نے کپڑوں سے آدمیوں کی شناخت کی بات کہی تھی۔ اب ان کے پارٹی جنرل سکریٹری کیلاش وجئے ورگھیا نے کھانے کے ذریعے شناخت کا خیال پیش کیا ہے۔ کیلاش نے کہا کہ ان کے مکان میں ایک نیا روم تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میں چھ سات ورکرز کے کھانے کی عادت عجیب ہے۔ اس کے بارے میں جانکاری پر معلوم ہوا کہ اس میں بنگلہ دیشی کچھ نہیں ہے! اندور میں روزانہ دو تا تین ٹن ’’پوہا‘‘(دال چاول قسم کا کھانا) کھایا جاتا ہے۔ اس شہر میں پوہا لوگوں کا پسندیدہ ناشتہ ہے۔ 20 روپئے میں آپ پیٹ بھر کر کھاسکتے ہو۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ ورکرز اپنی غربت کی بناء اپنے کھانے میں پوہا ملا کر کھاتے ہیں۔ یہ دیکھ کر کیلاش کو احساس ہوا کہ کہیں وہ بنگلہ دیشی تو نہیں؟ اپریل 2019ء میں ’انڈیا ٹوڈے آج تک‘ کو انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ کھچڑی اور پوہے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ بھی امتزاج کو پسند کرتے ہیں۔ شیلا بھٹ نے 2014ء میں ’ریڈف ڈاٹ کام‘ کیلئے انٹرویو کے دوران دیکھا کہ امیت شاہ ناشتہ میں پوہا کھا رہے تھے۔ جب وزیراعظم اور وزیر داخلہ ناشتہ میں پوہا کھاتے ہیں تو کیلاش جی کو پوہا کھانے والوں کے تعلق سے کچھ بھی عجیب محسوس نہیں کرنا چاہئے۔ پہلے حریفوں کو پاکستانی کہنے کا کھیل جاری تھا، اب غریبوں کو بنگلہ دیشی کہنا شروع کیا گیا ہے۔ بنگلورو میں غریب لوگوں کی بستی کو بنگلہ دیشیوں کے نام پر تباہ کردیا گیا، حالانکہ ان لوگوں کی اکثریت خود کرناٹک کی ہے۔ یہ وہی ہندو۔ مسلم موضوع کا نتیجہ ہے، جو قومی سطح پر بدستور جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں انڈیا کا امیج دنیا بھر میں بگڑ رہا ہے۔ چھ سال کا عرصہ قابل لحاظ ہوتا ہے۔ اب انٹرنیشنل میگزینز کے سرورق تبدیل ہونے لگے ہیں۔ 177 سال قدیم اکانومسٹ میگزین نے جمہوریت کا اشاریہ ترتیب دیا ہے۔ اس اشاریہ میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا نمبر 51 ہے۔ سرورق والے مضمون میں کہا گیا کہ وزیراعظم مودی کا احساس ہے کہ ہندوستان کے ووٹروں کے ایک حصہ کو اتفاق ہے کہ مسلمان غدار ہیں۔ مودی اس طرح ووٹروں کو تیار کررہے ہیں۔ آزادی کے بعد ہندوستان نے ہمیشہ جمہوریت کو درپیش خطرات کو غلط ثابت کیا ہے۔ لیکن جس طرح اس کے سکیولر ڈھانچہ پر دانستہ حملہ ہورہا ہے، سارا سیاسی نظام خطرے میں پڑجانے کا اندیشہ ہے۔ ووٹر کو ضرور یاد رکھنا چاہئے کہ بی جے پی نے ایسے تجربات کئے ہیں جن سے اقلیتوں کو نقصان پہنچا ہے، چاہے وہ شیڈولڈ کاسٹ ہوں یا غیرہندی داں شہری۔ وزیراعظم مودی عدم تشدد کے گاندھی جی کے امیج کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ آخری مرتبہ جب وزیراعظم کی تصویر 23 مئی 2015ء کو اکانومسٹ کے سرورق پر شائع ہوئی تھی، ایسا معلوم ہورہا تھا کہ مسیحا کی آمد ہوئی ہے جو بس ہر چیز درست کرنے والا ہے۔ اب وہی مسیحا کی پارٹی کے انتخابی نشان کنول کو اسی میگزین کے سرورق پر کانٹوں بھرے تار پر دکھایا گیا ہے۔ کیا کشمیر پالیسی اور شہریت ترمیمی قانون نے جمہوریت کے ہندوستان کے امیج کو متزلزل کردیا ہے؟ آخر، کیا وجہ ہے کہ میگزینز جن کے سرورق پر 2014ء میں ’’سمبھاؤنا پرش‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے، اور اب تقسیم اور انتشار کی بات ہورہی ہے۔ دی اکنامسٹ نے اکٹوبر کے شمارہ میں تجزیہ کیا کہ نریندر مودی ہندوستان کی معیشت اور جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے دیگر ملکوں کے اخبارات میں بھی ہندوستان کی جمہوریت کی بقائ￿ کے تعلق سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اگرچہ حکومت ان کو بیرونی میڈیا ہونے کی بنائ￿ نظرانداز کررہی ہے، لیکن اس طرح نظرانداز کرتے رہنے سے کام نہ چلے گا۔ کسی نے نہیں سوچا ہوگا کہ وزیراعظم کو ’ڈیوائیڈر اِن چیف‘ قرار دیتے ہوئے ٹائم میگزین 9 مئی 2019ء شمارہ کے سرورق پر موضوع بنایا جائے گا۔ جرنلسٹ آتش تاثیر کو ہٹا دیا گیا جنھوں نے آرٹیکل لکھا تھا۔ چار سال قبل 7 مئی 2015ء کو اسی میگزین کے کوور پر وزیراعظم مودی کو ناگزیر لیڈر قرار دیا گیا تھا۔ وزیراعظم نے تحریر کیا تھا کہ دنیا کیلئے اہم ہے کہ ہندوستان عالمی طاقت کے طور پر ابھرے۔ وہ خصوصی انٹرویو تھا۔ چار سال بعد اسی میگزین کے سرورق پر وزیراعظم کو سب سے زیادہ انتشار پسند قرار دیا گیا۔ 7 مئی 2015ء کو ٹائم میگزین کے تین جرنلسٹوں نینسی گیبل، عبدالکریم، نکھل کمار نے وزیراعظم مودی سے دو گھنٹے انٹرویو لیا تھا۔ اس انٹرویو کے ساتھ جرنلسٹ نکھل کمار کا ایک آرٹیکل بھی اسی شمارہ میں شائع کیا تھا جو خصوصیت سے وزیراعظم کے بارے میں تھا۔ اس کا عنوان تھا کہ نریندر مودی کس طرح ہندوستان کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ مودی نے کس طرح خود کو اندرون ایک سال عالمی سیاسی اسٹار کے طور پر اْبھارا۔ وہ صرف تین گھنٹے سوتے ہیں۔ یوگا کرتے ہیں۔ سال میں 19 ملکوں کا دورہ کرتے ہیں۔ جرنلسٹ نکھل کمار نے اسے انوکھا انٹرویو قرار دیا تھا۔ وزیراعظم اپنی غربت کے تعلق سے بات کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے تھے۔ اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ اپنی دس ماہ کی میعاد کا تقابل گزشتہ دس سال کی حکومت سے کرسکتے ہیں۔ اگر ٹائم میگزین کی کچھ اہمیت نہ ہوتی بلکہ اس کا کچھ مخصوص ایجنڈا ہوتا تو وزیراعظم 2015ء میں دو گھنٹے کا انٹرویو نہیں دیئے ہوتے۔ نہ صرف یہ کہ انٹرویو کے اگلے روز وزارت امور خارجہ نے پورے انٹرویو کا ہندی ترجمہ اپنی ویب سائٹ پر پیش کیا۔ اب ٹائم میگزین میں ہی تنقید شائع کی جارہی ہے تو جرنلسٹ کو کام سے ہٹایا جارہا ہے۔ یہی حال معیشت کا ہے۔ وزیراعظم کو مغالطہ ہے کہ عالمی معیشت انڈیا کے سبب فروغ پارہی ہے۔ اپریل 2015ء میں جب ریٹنگ ایجنسی ’موڈیز‘ نے ہندوستان کو مستحکم قرار دیا تھا، تب اسے مودی کی ویب سائٹ پر پیش کیا گیا۔ اب وہی موڈیز نے نومبر 2019ء میں انڈیا کی ریٹنگ کو مستحکم سے منفی میں تبدیل کردیا ہے اور جی ڈی پی کی شرح کو 6.2 سے گھٹا کر 5.6 کردیا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ گیتا گوپی ناتھ کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت میں ہندوستان کے سبب سست روی آئی ہے۔ (بشکریہ:سیاست بھارت)