میں تہی دست ہوں اور بارہا یہ سوچتا ہوں اس طرح لوگ کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں میری تمنا ہی نہیں مجھ پہ فرض بھی تھا اللہ کے گھر کی زیارت کر کے ذہن و دل کو آسودگی سے ہمکنار کیا جائے ویسے تو بلاوے اور قبولیت کی بات ہے مگر دنیا کے جھمیلے اور روز مرہ کے کام کاج اور پھر سب سے بڑھ کر شیطان اس فریضہ حج کی طرف سے غافل رکھتا ہے کہ یہ کر لو اور وہ کر لو۔ پھر اسی یہ اور وہ میں بندہ اگلے جہان سدھار جاتا ہے۔ بس اللہ توفیق دے دے آرزو کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ میں نے تو اسی دن سے ہلکا پھلکا محسوس کرنا شروع کر دیا تھا جب حج کے لیے نام نکل آیا۔ پھر تیزی سے دن گزرنے لگے اور وہ گھڑی آن پہنچی کہ ہم لاہور سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے اور چار گھنٹے بعد اس سرزمین پر مسجدِ نبوی کے مینار دیکھے۔ یہ تذکرہ مجھے اس لیے کرنا پڑا کہ میں ابھی ابھی نیچے لائونج سے اٹھ کر آ رہا ہوں جہاں سے ہمارے وہ حاجی مدینہ کے لیے روانہ ہو رہے ہیں جو سیدھے جدہ اترے تھے اور پہلے مکہ آئے تھے۔ آہستہ آہستہ حاجی صاحبان واپس وطن کو بھی سدھار رہے ہیں اور جن کو بھی مدینہ میں چالیس نمازیں پڑھنی ہیں پھر آقاؐ کو سلام کرنا ہے وہ وہاں جا رہے ہیں اور وہاں سے وہ اپنے اپنے وطن جائیں گے۔ میں نیچے جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور عازمین مدینہ کو دیکھنے لگا کہ وہ مدینہ کی فضائوں میں جا رہے ہیں چونکہ اکثر حاجیوں سے شناسائی ہو چکی ہے کہ مسجد اور کھانے پر ملاقات رہتی، حتیٰ کہ لفٹ میں بھی۔ ایک ماہ سے اوپر کی رفاقت نے کچھ نہ کچھ رنگ تو دکھایا کہ سب ایک دوسرے کے لیے اچھا محسوس کرنے لگے، میں انہیں جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور میری آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ کچھ مجھ سے ملنے میری طرف آئے اور کہا دعا کرنا ہم آقاؐ کے دربار جا رہے ہیں۔ میں انہیں کہتا کہ میرا بھی کام کرنا ’’آقاؐ سے اک غلام کا کہہ دینا بس سلام‘‘ ہائے ہائے یاد آیا کہ خالد احمد نے حضور کے قصیدے کا مطلع کیا خوب کہا تھا! کس رخ کروں قصیدۂ شاہِ زمن تمام تشبیب ہی میں ہو گئی تابِ سخن تمام عزیزیہ میں گہما گہمی بھی کم ہوتی جا رہی ہے اشیائے ضرورت کے سٹالز وغیرہ بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہاں قرآن پاک بھی ملتے ہیں اصل میں یہ وہ نسخے ہیں جن کا رسم الخط اردو والا ہے یعنی جو ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں، عربی رسم الخط والا قرآن جو اکثر حرم مدینہ اور حرم مکہ میں ہے عام بندے کے لیے پڑھنا مشکل ہے۔ لہٰذا حاجی صاحبان اردو رسم الخط والے قرآن پاک خریدتے ہیں اور حرم میں اور قمامی مسجد میں صدقہ جاریہ کے طور پر رکھ دیتے ہیں۔ ان کی طباعث اور جلد بندی بہت اعلیٰ ہے۔ جائے نماز بھی یہاں اعلیٰ سے اعلیٰ اقسام کے ہیں باقی کچھ چھوٹے چھوٹے جائے نماز ترکی کے بنے ہوئے ہیں جو دیوار پر لٹکائے جا سکتے ہیں۔ الیکٹرانک کا سامان یہاں پاکستان سے مہنگا ہے۔ ایک ایک ریال اور دو دو ریال کی اشیاء بھی سیاہ فاموں نے زمین پر لگائی ہوئی ہیں۔ معلوم نہیں کہ جب حاجی چلے جائیں گے تو یہاں کیا عالم ہو گا کہ یہ عمارتیں تو حج کے لیے ہیں اور پھر خالی ہو جائیں گی۔ میرا دھیان یہاں کے کبوتروں کی طرف گیا کہ جو ان عمارتوں کے کونوں پر خاصی تعداد میں دانہ چگ رہے ہوتے ہیں۔ حاجی انہیں باجرہ ڈالتے رہتے ہیں جو تھیلوں کی صورت میں ملتا ہے اور اگر آپ دکان سے لیں تو 5ریال کلو گرام کے حساب سے ملتا ہے۔ یہ کبوتر بلا مبالغہ ہزاروں کی تعداد میں صرف عزیزیہ میں ہیں۔ باہر ہم پارک میں گئے تو وہاں بھی ایک بڑی تعداد ان جنگلی کبوتروں کی نظر آتی ہے۔ لگتا ہے وہ اس سیٹ اپ کا باقاعدہ ایک حصہ ہیں۔ اس بات کا خیال مجھے اس لیے آیا کہ حتیٰ کہ قیام کے دوران کچھ لوگوں کو کسی ضروری کام سے عزیزیہ آنا پڑا تو انہوں نے بتایا کہ کبوتروں کی جگہ چٹیل پڑی تھی یعنی باجرہ یا دانہ کچھ بھی نہ تھا۔ سب کے سب تو منیٰ چلے گئے تھے۔ انہوں نے وہاں باجرہ کا پیکٹ پھینکا تو دیکھتے ہی دیکھتے کبوتر ادھر اترے اور ایک لمحے میں دانہ چٹ کر گئے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب حاجی اپنے اپنے وطن کو لوٹ جاتے ہیں تو یہ علاقہ خالی ہو جاتا ہے تو اس دوران ان ہزاروں لاکھوں کبوتروں کو دانہ کون فراہم کرتا ہے۔ یہ باتیں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ اللہ مہربان کے صدقے جائیے کہ وہ اپنی مخلوق کو غیب سے دیتا ہے۔ کبوتر تو کبوتر، یہاں کے رہنے والے جو ڈیڑھ دو ماہ کے لیے حج سیزن لگاتے ہیں اور پورے سال کی روٹی روزی کما لیتے ہیں۔ یہاں بہت تعداد میں ’’اجرہ‘‘ یعنی ٹیکسیاں نظر آتی ہیں اور یہ اچھی گاڑیاں ہیں۔ زیادہ تر سفید رنگ کی۔ بہت بڑی گاڑیاں یعنی پرائیویٹ نوعیت کی ٹیکسیاں ہیں۔ بسیں بھی دستیاب ہیں۔ علی الصبح عزیزیہ کے بازاروں میں بھی ’’مسجد عائشہ‘‘ کی آوازیں لگ رہی ہوتی ہیں۔ بس ایک رونق ہے کہ لگی ہوئی ہے ہر کوئی نیکیاں سمیٹنے میں لگا ہوا ہے۔ بعض تو ایسے بھی ہیں کہ دن میں کئی کئی طواف کر لیتے ہیں۔ ہمارے قاری احمد صاحب نے ایک پٹھان کا بتایا جس نے ایک دن میں 20طواف کیے وہ گیارہ بارہ گھنٹے تک طواف کرتا رہا۔ مولانا کے بقول یہ ورلڈ ریکارڈ ہو گا۔ اسے فیس بک پر لگانا چاہیے۔ واقعتاً ان دنوں ہم جیسے ایک طواف کے بعد ہانپنے لگتے کہ رش اور دھمک پیل کے باعث کپڑے پسینے سے نچڑنے لگتے ہیں۔ بات تو صحت اور طاقت کی ہے پھر توفیق کی بات بھی ہے۔ میں نے بھرے مجمع میں ایک معزور شخص کو دیکھا کہ اس کی دونوں ٹانگوں میں سریا تھا اور بیٹھ کر طواف کر رہا تھا۔ پہلے ایک ٹانگ کو گھسیٹ کر آگے لے جاتا اور پھر دوسری ٹانگ کو آگے لے جاتا اور گھسیٹ کر آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ سبحان اللہ، اللہ اکبر کیسے کیسے مناظر طواف کے دوران دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کچھ حاجیوں پر پانی کے فوارے چھوڑتے ہیں۔ کتنا ایمان افروز منظر ہوتا ہے۔ کچھ باتیں دلچسپ بھی سامنے آتی ہیں۔ جس روز ہم منیٰ سے واپس اپنی رہائش میں آئے تو ایک حاجی صاحب لابی میں بیٹھے زور شور سے پاکستان اپنی بیوی سے بات کر رہے تھے کہ وہ گھر میں بیٹھے بٹھائے حاجن ہو گئی ہے۔ میں نے اس کی سمجھداری پر اسے داد دی کہ وہ اپنی بیوی کو ساتھ لے کر نہیں آیا اور خود حج کر کے اس پر احسان جتا رہا ہے کہ وہ اس کی بیوی ہونے کے ناتے حاجن بن گئی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حج بیوی کے ساتھ ہی اچھا لگتا ہے ساری عمر کا ساتھ اور اس میں یہ لمحے بہت یادگار ہوتے ہیں۔ طواف کے دوران سیاہ فام بعض اوقات مجمع کو چیرتے ہوئے حجر اسود کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ ایک خلقت ہے کہ ساحل پہ پڑی ہے آ کر اک سمندر نے خزانے کو اچھالا ہے میاں سعد حجت ہے مری بات یہ عظمت اس کی اس نے در سے تو کسی کو نہیں ٹالا ہے میاں