"92"کے "نور ِقرآ ن "کی لائیو ٹرانسمیشن میں ایک کالر نے سوال پوچھا لیا کہ ـ"ریاست مدینہ "کی بات تو ہوتی ہے لیکن کیا"مکہ کی شہری ریاست "کابھی کہیں کوئی ذکرملتا ہے ---؟کیا یہاں بھی کوئی حکومتی نظم ونسق اور قانون کی عملداری تھی ---؟سوال اپنی جگہ صائب تھا ۔ رمضان المبارک 8ہجری میں فتح مکہ کا عظیم معرکہ سَرہوا، اور یہ خطہ بھی "ریاست مدینہ " کی عملداری میںعملاً شامل ہوگیا، نبی اکرم ﷺ نے فتح مکہ کے بعد پندرہ روز یہاں قیا م فرمایا ۔ عتاب بن اُسید ،کو مکہ کا گورنر بنایااور فرمایا ،"میں نے اللہ کے خاص بندوں پر تمہیں والی مقرر کیا ہے ۔ "فتح مکہ کے بعد اسلام کے لیے فتح ونصرت کے دروازے کُھل گئے ، اس لیے کہ کعبۃ اللہ کے سبب، مکہ کو جزیر ہ نما عرب میں بڑی ممتاز حیثیت حاصل تھی ۔یہی وہ بابرکت قریہ اور خطہ تھا، جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی تعمیر کے لیے پسند فرمایا ، یہ عرب کی ایک ایسی بنجر اور ویران بستی تھی ، جسے قرآن نے ’’بوادٍ غَیْر ذِی ذَرْعٍ‘‘ کہا ،یعنی ایسی اجاڑ اور سنسان جگہ جہاں نہ پانی تھا اور نہ سبزہ ---جس کے پہاڑ بھی کالے اور روئیدگی سے محروم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ،اپنے اکلوتے اور شیر خوار بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام او ر ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو ، اس جگہ پر چھوڑا، جہاں اب حرم کعبہ ہے ، ایک مشک پانی اور چند کھجوریں ان کی گذر بسر کا سامان تھا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام واپس اپنے مسکن فلسطین کی طرف جانے لگے ، تو حضرت ہاجرہ نے پوچھا کہ آپ ہمیں اس ویرانے میں کس کے سپرد کرکے جارہے ہیں …؟ آپ ؑ نے آسما ن کی طرف منہ کیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ کے …… اس موقع پر حضرت ہاجرہ ؑ کاجواب نہایت ایمان افروز تھا، فرمایا: ’’پھر وہ ہمیں ضائع نہیں ہونے دے گا۔‘‘ پانی ختم ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل کی ایڑیوں سے ’’زمزم‘‘ کا ایسا چشمہ جاری کیا ،جس سے رہتی دنیا تک لوگ سیر اب ہوتے رہیں گے ۔پانی زندگی کے بنیادی عناصر میں سے ایک ہے ،عرب میںپانی کی ویسے بھی قلّت تھی ،لہٰذاایسے ہی چشموں کے گردبستیاں بنتی اور آبادیاں قائم ہو تیں ،اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ،اسی مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ’’بیت اللہ ‘‘کی تعمیرکی اور ’’اذن فی الناس بالحج‘‘ کے تحت لوگوں کو حج کی دعوت دی ،اور پھر مکہ کا سموپولیٹن۔ "Cosmopolitan"یعنی عالمی شہری خصوصیات کا حامل شہر بن گیا ۔مکۃ المکرمہ اور جریزۃ العرب کے لوگ……خود کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے اور اس نسبت پر فخر محسوس کرتے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد سرزمین عرب پر تقریباً تین ہزار سال تک کوئی نبی مبعوث نہ ہوا، وحی کا سلسلہ منقطع رہا ، اس عرصہ کو ’’زمانہ فترت‘‘ کہا جاتا ہے ۔اس زمانے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین جسے ’’دین حنیف‘‘ کہا جاتا ،کی بہت سے عبادتیں باقی رہیں ،وہ لوگ اپنے مُردوں کو غسل دیتے ، کفن پہناتے ، ان کی نمازِ جنازہ پڑھتے ،قبروں میں دفن کرتے ، حج اور عمرہ کااہتمام ہوتا، لیکن اس میں نئی نئی شرطیں بھی عائد ہوگی ،جن میں بہت سی لغو روایات بھی شامل تھیں ۔9ہجری کو پہلا اسلامی حج اور پھر 10ہجری کو حجۃ الوداع کے موقع پر حج سے غیر شرعی رسومات کا خاتمہ ہوا۔ نبی اکرم ﷺ کے داد احضرت عبدالمطلب کے پَردادا ’’ قُصی‘‘وہ اوّلین ہستی ہیں، جنہوں نے مکہ کو ایک ’’سٹی سٹیٹ‘‘ کے طور پر منظم کرکے قریش کی حکومت کو مستحکم کیا ،اور اس کے پانچ بڑے محکمے قائم کئے، جن میں:i۔ ’’حجابہ‘‘ یعنی کعبے کے جملہ امور کا ذمّہ دار ،بیت اللہ کا نگران اور کنجی بردار ۔ii۔’’رفادہ‘‘ ایام حج میں ،حاجیوں کی خدمت ، خاطر وغیرہ کا ذمّہ دار ، یہ منصب عبد مناف کے بعد حضرت ہاشم کوعطا ہوا ،iii۔ ’’سقایہ‘‘ یعنی حجاج کے لیے پانی کے ذخائر،محفوظ کرنا اور پانی پلانے کا اہتمام کرنا ،یہ ذمہ داری حضرت عبدالمطلب کے بعد حضرت ابوطالب اور حضرت عباس کو ملی ۔iv۔’’ندوہ‘‘ :آج کی اصطلاح میں اسے پارلیمنٹ ہائوس کہہ سکتے ہیں ۔یہ کعبہ سے متصل عمارت تھی ،جس میں پیش آمدہ سیاسی ،عمرانی اور معاشی مسائل پر بحث ہوتی ،40سال کی عمر سے پہلے اس کا کوئی ممبر نہ ہوسکتا۔ابو جہل اور حضرت عمر فاروق ؓ دو ایسی مثالیں ہیں ،جن کو ان کی عمر میں رعایت دیکر ، قبل از وقت ممبر شب دی گئی ۔v۔’’اللوا‘‘"Brigade" یعنی وزارتِ دفاع ،یہ محکمہ بنو عبد شمس کے پاس تھا ،جو امیہ سے حرب اور ابو سفیان کے پاس آیا۔ مکہ ایک خود مختار شہری ریاست تھی ، جس کا رقبہ تو چند مربع میل سے زائد نہ تھا ، لیکن اس کے اطراف کا وہ حصہ جہاں اس کا مؤثر تسلط تھا ، اسے حرم کہا جاتا،جو تقریباً سوا سو مربع میل پر محیط تھا ،خاندان قریش کو اس خطے میں مذہبی اورمعاشرتی سیادت اور سرداری حاصل تھی ، یہا ںکی معیشت کا 90فیصد انحصار تجارت پرتھا ،جس کے لیے قریشوں نے اہل مکہ کے تجارتی قافلوں کے لیے شام اور روم سمیت بڑی بڑی مملکتوں سے "ٹریڈ پرمٹ"حاصل کر رکھے تھے ،جس کے سبب ان کے تجارتی کارواں محفوظ بھی تھے اور ٹیکس سے مستثنیٰ بھی۔ کعبہ کی تولیت کے سبب دنیا میں ان کو اعزاز واکرام میسر تھا ، بنو ہاشم کعبہ کی نگرانی اور حاجیوں کی خدمت کا بڑا اہتمام کرتے ،ذی الحجہ کا چاند نظر آنے پر مکہ کے سردار اوربنوہاشم کے سرخیل حضرت ہاشم، حرم میں آکر ، کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرماتے : ’’ اے گروہ قریش! تم عرب کے سردار ہو۔تمہارے چہرے بڑے حسین ہیں ۔تم زیرک اور دانش مند ہو ۔اے گروہ قریش! تم اللہ تعالیٰ کے گھر کے پڑوسی ہو۔اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا متولی ہونے کی عزت عطا فرمائی ہے اور اس کا ہمسایہ بننے کی خصوصیت سے نوازا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کرنے والے اور اس کا ادب واحترام کرنے والے ابھی آئیں گے اور وہ اس کے مہمان ہوں گے ،اوراللہ تعالیٰ کے مہمانوں کی عزت وتکریم کرنے کے تم زیادہ حق دار ہو۔ پس تم اس کے مہمانوں اوراس کے گھر کے زائرین کی عزت کرو۔ اس گھر کے رب کی قسم ! اگر میرے پاس اتنا سرمایہ ہوتا تو میں خود ہی یہ سارا بوجھ اٹھاتا ۔ میں اپنے پاکیزہ اور حلال مال سے اس مقصد کے لیے کچھ حصہ نکالوں گا۔ ایسا مال جس کے حاصل کرنے میں نہ قطع رحمی کی گئی ہے اور نہ ـظلم روا رکھا گیا ہے اور نہ اس میں کچھ حرام داخل ہو۔ میں تم سے یہ التماس کرتا ہوں کہ جو چاہے اس نیک مقصد کے لیے مالی تعاون کرے ، کوئی آدمی ایسا مال نہ دے جوپاکیزہ نہ ہو، جس کے حصول میں کسی کے ساتھ ظلم کیا گیا ہو اور کسی سے زبردستی چھینا گیا ہو۔‘‘ اہل مکہ حجاج کی خدمت کے حوالے سے حضرت ہاشم کی دعوت کو بسر وچشم قبول کرتے او ر بڑھ چڑھ کرمالی تعاون کرتے ۔ یہ سارا سرمایہ" دارالندوہ" میں جمع ہوتا اور بوقت ضرورت استعمال کیا جاتا، بالخصوص حجاج کے کھانے وغیرہ کے انتظامات اسی فنڈ سے کئے جاتے ۔ طلوع اسلام ،عہدِ رسالت مآ ب ﷺ ، خلفائے راشدین حتی کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں بھی حجاج کی ضیافت کا یہ اہتمام اسی طرح جاری رہا۔ ٭٭٭٭٭