آنے والے دن کا منظر واضح۔چڑھتے سورج کی طرح۔ 22کروڑ انسانوں کا مستقبل مگر مخدوش ‘ تاریک تر۔پاکستانی سیاستدانوں نے 73 برسوں میں دو کام نہیں ہونے دیئے۔ایک‘عوام کے دکھ برابر رکھے تاکہ وہ ہمیشہ مسیحا کی تلاش میں سرگرداں رہیں۔دوسرا‘ قوم کو دیانتدار ‘ محبِ وطن اور قابل قیادت سے محروم رکھا۔قوم کو مخلص قیادت میسر ہوتی،توآج ہم مسلم امہ کی قیادت کر رہے ہوتے۔یہاں ہر سیاستدان نے پہلے اپنی ذات کا سوچا‘ اس قدر قرض لیا کہ ملک کو غیروں کے سامنے گروی رکھ دیا۔دوسرا ہر مشکل میں قومیت پرستی کو ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کیا۔سندھ ہائوس میں پی ٹی آئی کارکنوں کے احتجاج کو، سندھ پر حملہ قرار دینا، سوائے قوم پرستی کے کچھ نہیں۔معاشی حالات خراب سے خراب تر ۔حالیہ سیاسی افراتفری کے بعد آئی ایم ایف بھی پیچھے ہٹنے لگا ۔حکومت قائم رہی تو بھی معیشت ڈانواں ڈول‘ اگر ختم ہوتی ہے تو حالات مزیدگھمبیر۔ بجٹ سر پر، ٹیکس کس کس چیز پر لگانا؟عوام کو کیسے ریلیف دینا؟کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ آنے والے چار مہینوں میں چار حکومتیں بننی ہیں۔ اس دوران سیاستدانوں کی تجوریاں بھریں گی۔عوام کے ہاتھ پہلے ہی کچھ نہ تھا، مستقبل تو مزید مخدوش ہے۔ اپوزیشن جماعتیں مل کر حکومت بنا لیں،کیا وہ نظام چلا پائیں گی؟سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔آج بھی عمران خاں کی سٹریٹ پاور سب سے زیادہ۔چاروں صوبوں میں نمائندگی۔ اپوزیشن جماعتوں میںپی پی صرف اندرونِ سندھ، (ن) لیگ پنجاب،اے این پی خیبر پی کے چند اضلاع تک محدود۔جے یو آئی کی چند علاقوں میں تنظیم سازی مضبوط ہے۔عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکلنے کے بعد،عمران خاں پر ہوش کے بجائے انتقام غالب ہو گا۔ ہڑتالوں سے معیشت جام۔ غریب کی زندگی مصائب سے مزید دو چار ہو گی ۔ عرب بہار کسی کو یاد ہے ؟تیونس سے لیبیا،مصر سے یمن تک ،کیا کچھ ہوا۔ہمارے ہاں تو اس سے بھی برے حالات ہیں ۔لیبیا اور یمن بدترین خانہ جنگی کے شکار ۔ مصر میںجمہوریت لپیٹ دی گئی۔ عزیز لکھنوی نے کہا تھا: ہجر کی رات کاٹنے والے کیا کرے گا اگر سحر نہ ہوئی مہنگائی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ،دوسری جانب غریب کی قوتِ خرید ختم ۔ ان حالات میں اپوزیشن کیا کرے گی۔ کسی کے پاس بھی الہ دین کا چراغ نہیں کہ وہ راتوں رات مسائل حل کر دے۔ لہٰذا مستقبل کی تصویر بھیانک ہے ۔ عظیم دانشور نے کہا تھا:دوسروں کے سہارے کھڑا ہونے والی حکومتیں ،دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی کا حال سب کے سامنے ہے۔گھر سے بغاوت اور اتحادیوں کے شکوے سننے پڑ رہے ہیں۔عمران خاں نے اگر اپنے دیرینہ کارکنوں کو ٹکٹیں دی ہوتیں تو آج حالات مختلف ہوتے۔گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بار بار کہا :اگر ان کی بنائی گئی فہرست کے مطابق ٹکٹیں تقسیم کی جاتیں تو آج پنجاب سمیت مرکز میں بھی دو تہائی اکثریت ہوتی۔کیا کہیں ،ذات میں گم افراد کسی کی بات کو ترجیع نہیں دیتے ۔یہی وجہ ہے ،برق رفتار تبدیلی نے نو آزموزوئوں کی توندیں تو بھر دیں مگر وہ جو ہر نہ دے پائے جس سے کامل سیاستدان بنتے ہیں۔ ہر اچھے آدمی کے گرد ایک ہالہ ہوتا ہے۔اس کے نزدیک ہو جائیں تو دل خودبخود منور ہو جاتا ہے۔عمران خاں نے اسلاموفوبیا پر جو آوازبلند کی ،اس نے خوشی سے نہال کر دیا۔ جنرل اسمبلی نے 15 مارچ کو’’ اسلاموفوبیا‘‘ یعنی اسلاموفوبیا مخالف عالمی دن منانے کی پاکستان کی طرف سے پیش کردہ قرارداد منظور کر لی۔ او آئی سی کے 57 رکن ممالک کے علاوہ چین اور روس سمیت آٹھ دیگر ملکوں نے بھی قرارداد کی تائید کی ۔ اسلامو فوبیا ایک حقیقت، اراکین جنرل اسمبلی نے بھی نشان دہی کی کہ رجحان بڑھتا جارہا ، ازالہ ضروری۔ اس کے نتائج نفرت انگیز تقریر، تفریق اور مسلمانوں کے خلاف جرائم ہیں۔مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور عقائد کے خلاف ہے ۔اسی بنا پر اسلامی دنیا میں شدید تکلیف محسوس کی جاتی ہے۔ 2005 میں اقوام متحدہ کے کچھ ارکان نے مسلم دنیا اور مغرب کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے الائنس آف سویلائزیشن کی بنیاد رکھی ،جو امریکا میں 11/9 کے دہشت گرد حملوں کے بعد تیزی سے بڑھ گئی تھی۔اس اتحاد کے بنیادی مقاصد میں سے ایک تمام ثقافتوں، روایات اور مذہبی عقائد کے لیے باہمی احترام کو آگے بڑھانا اور خاص طور پر مغرب اور اسلام کے درمیان تقسیم اور تلخی کو ختم کرنے کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم کے طور پر کام کرنا تھا۔ 15 مارچ کے دن کی وجہ تسمیہ۔ نیوزی لینڈ میں کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملہ ہے۔جس میں 51 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ کیا آنے والا کوئی وزیر اعظم اس قدر نامور ہو گا کہ وہ فی البدیہہ تقریر کے علاوہ مسلم امہ کی قیادت کر سکے۔ اپوزیشن کی موجودہ قیادت میں تو کوئی نہیں ۔سب روشن خیال ہیں ،سوائے مولانا فضل الرحمن کے ۔ میاں صاحب نے کہا تھا : وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں ہم بھی وہی کھاتے ہیں لہذا ہم بھائی بھائی ہیں ۔ روشن خیال فکر ہونی چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کریں۔لیکن اپنی بنیاد نہ چھوڑیں۔ اس وقت عالمی سطح پر عدم برداشت، امتیازی سلوک، نسل پرستی، منفی دقیانوسی تصورات، اور مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر افراد کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھا جا رہاہے ۔لیکن ہم تمام مذاہب اور عقائد کے باہمی احترام، بھائی چارے اور پرامن روایات کو فروغ دینے پر زور دیتے ہیں۔ آج کی دنیا کا سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ جہاں اس نے لوگوں کے درمیان فاصلے مٹادیے ہیں ایک دوسرے سے رابطے اور انحصار کا ذریعے بنا ہے، وہیں اس قربت نے معاشروں میں تقسیم اور اختلافات کو بھی جنم دیا ۔ آج بھی تہذیبوں کے تصادم کی گونج سنائی دیتی ہے، جس کے سبب اسلامی دنیا میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔اگر عمران خاں اسلامو فوبیا کے خلاف نہ کھڑا ہوتا تو آج کئی ممالک میں مسلمان اپنی شناخت چھپا رہے ہوتے ۔عدم اعتماد کی تحریک میں عمران خاں کا یہ بڑا کارنامہ میڈیا کی زینت نہیں بنا۔جس طرح بننے کا حق تھا ۔لیکن یاد رکھیں !بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ہمارے خمیرمیں ہمیشہ معجزے کی تمنا ہوتی ہے ،جو ہمیں سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔حکمران اور اپوزیشن کسی معجزے اور کرامت کو چھوڑ کر یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ ملک کے ساتھ ہیں یا اقتدار کے ساتھ۔