پاکستانی سیاست اس وقت سے بدمزگی کا شکار ہے جب سے حکومت اور حزب اختلاف متوازی پٹڑی پر چل رہی ہیں۔ وہ سیاسی استحکام جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور میں نظر آتا تھا ، قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ میثاقی پارٹیوں نے سیاسی بھائی چارے کی آڑ میں حزب اختلاف کا تصور ہوا میں اڑا دیا تھا، کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے پر نہ صرف اٹھارویں ترمیم پاس کر الی تھی بلکہ مقامی حکومتوں اور احتسابی عمل کو بھی منجمد کر دیا تھا۔ وقت نے پلٹا کھایا ہے تو یہ پارٹیاں پارلیمان سے نکل کر سڑکوں پر پہنچ چکی ہیں۔ اگر اپنی حکومت نہیں ہے تو پھر کسی اور کی کیوں؟۔ تخت یا تختہ کا کھیل ملکی سیاست کو کس سمت میں لے جائیگا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔سیاسی ناچاقی کا وقت اور اس کی شدت کو عالمی اور علاقائی سیاست کے تناظر میں دیکھیں تو اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اگر سیاسی پارٹیوں کی جڑیں عوام میں ہوتیں تو انکا طرز عمل یقیناًکچھ اور ہوتا۔ اٹھارویں ترمیم کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے وہ تو پورے نہیں ہوئے لیکن وفاق یقینی طور پر کمزور ہوگیا ہے۔ صوبائی خود مختاری کا کچھ اور ہی مطلب لے لیا گیا ہے۔ وسائل نچلی سطح پر منتقل ہوئے ہیں اور نہ ہی ایسا طریقہ کار وضح ہو سکا ہے کہ صوبوں کو منتقل ہونے والے وسائل کی پوچھ گچھ ہوسکے۔ اس حوالے سے با ت ہی گوارہ نہیں۔ کورونا وائرس صرف جان لیوا بیماری ہی نہیں بلکہ اس سے نمٹنے کے تقاضوں نے رہی سہی معیشت کے کس بل بھی نکال دیے ہیں۔ صحت اور تعلیم پر ایک دہائی ہوئی مجموعی قومی آمدن کا تین فیصد سے بھی کم خرچ ہورہا تھا، حالات بگڑ ے ہیں تو حکمرانوں کے ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں کہ اضافی خرچہ کہا ں سے لائیں۔ حالات یہ ہیں کہ عوام الناس کے پاس نہ صرف مزید ٹیکس دینے کی سکت نہیں بلکہ الٹا انہیں، اور نہیں تو، ٹیکسوں کی مد میں ریلیف چاہیے، اشیائے ضروریہ پر سے ہی حکومت اپنی آمدنی کا انحصار کم کر لے تو بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کم ہونے کا بڑا فائدہ مہنگائی میں کمی ہوگی لیکن یہ تب ہی ممکن ہوسکے گا جب اس ملک کی اشرافیہ انکم ٹیکس دے، حصہ بقدر جسہ اس سے وصول ہوگا تب ہی عوام جمہوریت کے معنوں سے روشناس ہوگی۔ مگر ایسا ہو تو کیسے؟ ملک بحران کی کیفیت میں ہے تو ہماری اشرافیہ کی موقع پرستی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ منتخب حکومت اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی، پارلیمان میں بیٹھنا اسے پسند نہیں ہے، ڈائیلاگ کے راستے خود ہی بند کردیے ہیں۔ دس سال جمہوریت کے نام پر اقتدار کے مزے لوٹے ہیں لیکن حساب دینا اسے گوارا نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ احتجاج کے راستے پر چل نکلی ہے۔ تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ حکومت استعفی دے۔ کوئی ایجنڈا نہیں ، کوئی لائحہ عمل نہیں کہ بالفرض انتخابات میں اسے کامیابی مل بھی جائے تو یہ اقتدار میں آکر آخر کون سا تیر مار لے گی۔ احتساب کا عمل کیسا ہوگا، ہوگا بھی یا نہیں، عوام کو بھاری ٹیکسوں سے نجات کیسے ملے گی اور ان سے لیے گئے محصولات انہیں پر خرچ ہونگے یا بدستور اشرافیہ کی مراعات کی نظر ہونگے۔ اگر انتخابات کے نتائج اس کے حق میں نہ گئے تو کیا یہ نئی حکومت کو تسلیم کرلے گی؟ یوں پاکستان جمہوری تحریک گندم ، چینی اور پٹرول کے بحرانوں کی سیریز کا حصہ بن گئی ہے۔ اس ساری بحرانی تحریک سے ’حقیقت پسند‘ تجزیہ نگاروں کو بہت مواد ملا ہے۔ ایک طاقت ور لابی کو چھیڑنے کے معنی اور مطالب شد و مد سے واضح کیے جارہے ہیں۔ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ یا تو وزیر اعظم زمینی حقائق سے یکسر نابلد ہیں یا پھر ان کی ڈوری کوئی اور ہلا رہا ہے کہ وہ سمجھوتے کی بات نہیں کر رہے۔ یہ اور بات کہ اپنی لاکھ حقیقت پسندی کے باوجود حقیقت پسند ماہرین لفظ ’ اور‘ کی وضاحت نہیں کرپاتے۔ کیسے اور کس طرح کے سوالات کو گول کر جاتے ہیں۔ آپ زیادہ اصرار کریں تو آنکھ دباکر کہیں گے کہ بس سمجھ جائیں، آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ سیاست کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ اقتدار میں آتے ہی عمران خان نے چوری پر سمجھوتہ نہ کرنے کی بات کی تو اس تجزیاتی ٹولے نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ یا تو آپ احتساب کریں یا پھر حکومت چلالیں۔ جس حکومت کے پاس عددی اکثریت چند ووٹوں سے زیادہ نہ ہو بھلا وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے آئین سازی کیسے کرے گی۔ تباہ حال معیشت اور دہشت گردی سرپر اور سیاسی ایجنڈا وہ کہ ’امیروں سے لیکر غریبوں کو دینے ‘کی بات ہو تو سیاسی وسیع تر قومی مفاد کے لیے مفاہمت لازم ہے۔ ایک نیا این آرو او نہ سہی ، گڑے مردے اکھاڑنے کا فائدہ حکومت کو نہیں کسی’ اور‘ کو ہی ہوگا۔ سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور عمران خان کو بھی ایسا کرنے پڑے گا۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی ملک کو ایک ناکام دہائی دینے کے بعد ایک سمجھوتے (میثاق جمہوریت) کے ذریعے ہی قریب آئے تھے۔ آمریت کو نہ صرف اپنا بوریا بستر لپیٹنا پڑا بلکہ ملک کو پورے دس سال کا سیاسی استحکام بھی ملا۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ’اٹ کتے‘ کا بیر سے نہ تو ملک کو فائدہ ہوگا اور نہ ہی عوام کو، وغیرہ وغیرہ۔ ہم ’حقیقت پسند‘ تجزیہ نگاروں کے نہ توعلم کو چیلنج کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی پیشگوئیوں کی حقانیت پر کوئی فتوی دینا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جن باتوں پر انکا ایمان اور دھیان ہے انکا تعلق قرون وسطیٰ سے ہے۔ طاقت کے توازن پر یقین رکھتے ہیں ، جنگیں، فتوحات اور آقا ،غلام کی اصطلاحوں میں انکا دماغ الجھا رہتا ہے۔ چور ی کو سیاست کا حصہ سمجھتے ہیں نہ کہ ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ، احتساب کو سنجیدہ نہیں لیتے چہ جائیکہ ایک ایسی سیاسی پارٹی کو تسلیم کرلیں جو احتساب کے نام پر اقتدار میں آئی ہو۔