بس کچھ دنوں کا وقفہ پڑا تھا درمیان میں کہ کراچی سے امل اور اقصیٰ کے مرنے کی خبریں پے درپے آئیں۔ حادثے کے سیاق و سباق میں تھوڑی بہت تبدیلی نظر انداز کر دیں تو دونوں کے مرنے کی وجہ ایک ہی ہے۔ دونوں کا قاتل بھی ایک ہی ہے۔ اور دونوں کے والدین کے لیے دکھ کا صحرا بھی ایک ہی جتنا طویل ہے! اقصیٰ اور امل کا کراچی جیسے کاسمو پولیٹن شہر میں اندھی گولی کا نشانہ بننا اور پھر زندگی ہار جانا اس پورے نظام کی شکست ہے۔ یہ نظام جو اقصیٰ اور امل کے بڑوں نے گزشتہ 70سالوں میں بڑی محنت سے بنایا اور اس کو اس نہج پر پہنچایا کہ یہاں صرف طاقتور جی سکے۔ دولت مند سانس لے سکے۔ جس کے پاس لاٹھی ہو وہی بھینس کو ہانک سکے۔ اقصیٰ اور امل بیٹی! تم ہمیں معاف کر دینا کہ تم دونوں اس بے حس‘ بھیانک معاشرے میں پیدا ہوئیں جہاں اندھی گولیاں شہر کی معصوم ہنستی کھیلتی بیٹیوں کو آکر لگتی ہیں اور یہ آن کی آن میں لہو میں نہلا دیتی ہیں۔ اگرچہ سفاکانہ قتل دن دیہاڑے ہوتا ہے مگر پھر بھی ہمیں اقصیٰ اور امل کا قاتل نہ کہیں دکھائی دیتا ہے نہ پکڑائی دیتا ہے۔مرنے کے وقت اقصیٰ کی عمر چھ سال تھی اور امل دس برس کی تھی۔ اتنی کچی عمروں میں بھلا کوئی خبر ہوتی ہے کہ ان کے اردگرد کیسا سفاک معاشرہ پھیلا ہے جہاں آئین اور قانون کتابوں تک محدود ہے۔ جہاں اندھی گولیاں کبھی بھی کسی بھی وقت ننھے معصوم بچوں سے ان کی زندگی چھین سکتی ہیں وہ نوخیز بچیاں تھیں‘ کم سن اور بے خبر۔ ان کے تو والدین کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ محفوظ ماحول کے حصار میں بھی ان کی بیٹیاں قتل ہو سکتی ہیں۔ اس لیے کہ جب اقصیٰ کو گولی لگی تو وہ اپنے سکول میں تھی۔ سکول بچوں کا دوسرا گھر ہوتا ہے۔ جہاں والدین اپنے بچوں کو علم حاصل کرنے بھیجتے ہیں گولیاں کھانے اور مرنے کے لیے نہیں۔ لیکن چھ سالہ اقصیٰ اس روز اپنے سکول میں تھی جب کہیں سے ایک گولی اڑتی ہوئی آئی اور اس کے نرم وجود کے آرپار ہو گئی۔ لمحہ بھر میں اقصیٰ لہولہان ہو گئی تھی۔ اس کے والدین کو اطلاع دی گئی۔ ذرا سوچیں کسی بھی والدین کے لیے یہ اطلاع کس قدر غیر متوقع ہو گی کہ انہیں سکول سے فون آئے کہ ان کے بچے کو گولی لگ گئی ہے۔ سکول ہے یا کوئی مقتل۔! دو روز تک ننھی اقصیٰ انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں موت سے لڑتی رہی کہ مجھے ابھی جینا ہے۔ لیکن بالآخر وہ موت سے شکست کھا گئی اور چھ برس کی عمر میں موت کی وادی میں اتر گئی امل جو دس سال کی تھی اسے جب عروس البلاد کی مصروف شاہراہ پر اندھی گولی لگی تو وہ اپنے مما‘ بابا اور چھوٹی بہن کے ساتھ گاڑی میں موجود تھی۔واقعے کے مطابق پٹرولنگ پر تعینات پولیس آفیسرز نے گن پوائنٹ پر لوگوں کو لوٹتے ڈاکوئوں پر جوابی کارروائی میں گولی چلائی تھی جو گاڑی میں اپنے والدین کے ساتھ بیٹھی ہوئی امل کو لگ گئی۔ اس ناگہانی صورت میں اس کے والدین اسے قریبی ہسپتال لے گئے۔ لیکن انہوں نے امل کی بگڑتی ہوئی حالت کے پیش نظر اسے بڑے ہسپتال میں ریفر کر دیا۔ لہولہان بچی کو وقت پر پہلے تو فرسٹ ایڈ نہ ملی پھر ہسپتال والوں نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایمبولینس اور طبی عملہ دینے سے انکار کر دیا۔ اور اسی تگ و دو میں امل نے اپنی زندگی کی سانسیں پوری کیں اور اپنی ماں کے ہاتھوں میں دم توڑ گئی! صحت مند‘ ہنستی کھیلتی بیٹی‘ امن کے دنوں اس طرح سرِ راہ جاتے جاتے گولی کا نشانہ بنے اور سسکتی ہوئی لمحوں میں دم توڑ دے تو اس کے والدین پر کیا قیامت گزرتی ہو گی۔ میں اور آپ شاید اس کا تصور نہ کر سکیں۔ امل اور اقصیٰ کے والدین جو اس دکھ سے گزرے وہی اس کی تپش جانتے ہیں۔ کراچی پہ کیا افتاد پڑی ہے کہ اس شہر کی بیٹیاں اس طرح مرنے لگی ہیں۔ مجھے بار بار آئر لینڈ کے شاعر ڈبلیو بی یٹیس کی ایک نظم کا عنوان یاد آتا ہے۔ ''A prayer for my daughter'' اس نظم کا عنوان ہی دل کو پگھلانے کے لیے کافی ہے۔تھر کے بچے بھی کیسے بچے ہیں۔ انہیں پھولوں جگنوئوں ‘ کھلونوں‘ چاکلیٹس اور کتاب‘ بستے‘ پلے لینڈز‘ برگرز اور اس طرح کے کسی بھی استعارے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ تھر کے بچے تو بس قحط کی تصویریں ہیں۔زرد‘سوکھے مریل جسم‘ بنجر آنکھیں‘ ان آنکھوں میں حسرت کی داستانیں رقم ہیں ان کے پیلے زرد چہروں پر بھوک ناچتی ہے۔ موت کو ان سے خدا واسطے کا بیر ہے جو انہیں جینے نہیں دیتے۔ یوں تھر میں بچے بہت آسانی سے روز مرتے ہیں اور مرتے چلے جاتے ہیں۔ خبریں آتی ہیں۔ پچاس بچے مر گئے‘ ڈیڑھ سو بچے مر گئے۔ چار سو بچے مر گئے۔ تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ انسانیت گھٹتی جاتی ہے۔ بچے نہ ہوئے کوئی مکھی مچھر ہو گئے۔ مر مر کر ڈھیر ہو رہے ہیں مگر سندھ کی بے حس حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی! سندھ میں تو برسوں سے بے حس ٹولے کی حکومت ہے‘ وفاق کی حکومت کی بھی تو کچھ ذمہ داری بنتی ہے۔ اہل اقتدار اور اہل اختیار کے ٹولے میں کوئی اہل درد۔ کوئی اہل دل تو اس عظیم انسانی المیے پر تڑپ اٹھتا۔؟تھر کے اس المیے پر جئے بھٹو کا نعرہ لگانے والی حکومت کی بے حسی کا تو خیر جواب ہی نہیں۔ سن 2014ء میں جب تھر میں بچوں کے مرنے کی تواتر سے خبریں آ رہی تھیں تو سندھ حکومت سندھی ورثے کو محفوظ کرنے کے نام پر میلوں ٹھیلوں کے انعقاد میں مصروف تھی۔ اس مد میں کروڑوں روپیہ خرچ کرنے والی حکومت تھر میں گندم کی بوریاں بروقت پہنچانے میں ناکام رہی تھی۔ یہ بھی خبریں آئی تھیں کہ گندم گوداموں میں پڑی پڑی خراب ہو چکی ہے۔ اس سلین زدہ گندم کو تھریوں میں تقسیم کر کے فائلوں کا پیٹ بھرا گیا۔ انسانوں کا پیٹ بھرنے سے زیادہ فائلوں کا پیٹ بھرنا ضروری تھا۔ کتنے سال گزر گئے۔ ہر برس اسی طرح تھر میں افتاد پڑتی ہے اور تھری بچے درختوں پر لگے زرد پتوں کی طرح جھڑ جھڑ کر مرنے لگتے ہیں۔ کیسی نحوست اور بے برکتی ہے اس زمین پر جہاں فرشتوں جیسے بچے ایسے مرتے ہوں۔ جہاں مائوں کی گودیاں خالی اور آنکھیں آنسوئوں سے بھری رہتی ہوں۔ کالم کا آغاز شہر کراچی کی اقصیٰ اور امل کی ناگہانی موت سے ہوا تھا اور بات پہنچی اس بدقسمت بستی تک جہاں زندگی کو آج بھی موت بیماری اور قحط نے جکڑ رکھا ہے۔ جہاں بچے مجھی مچھر کی طرح ہر وقت مرتے رہتے ہیں اور اہل اقتدار و اختیار کے دل میں اس المیے پر دراڑ نہیں پڑتی!