پاکستان سے سعودی عرب میں آئے تو یہاں بھی ایک تبدیلی کا ہم نے سامنا کیا کہ دو انتہائوں پر رہنا پڑا جس کے کہ ہم عادی نہیں تھے ہوٹل کے کمرے ٹھنڈے تھے اور باہر چمکتی اور کڑکتی دھوپ بلکہ سائے میں بھی تپش کا احساس یہاں آ کر صرف عارضی تبدیلی نہیں تھی بلکہ مستقل موسم ہی مختلف تھا یہاں کے لوگ اس میں رہنے کے عادی ہیں کہ ان کی گاڑیاں گھر اور دفاتر ایئر کنڈیشنڈ ہیں ہمارے لئے تو یہ ایک آزمائش ہی تھی کوئی کہاں تک سرد کمروں میں بیٹھا رہے۔ کچھ لوگ تنگ آ کر ہوٹل کی انٹریس پر آن بیٹھتے۔ یہ وہ جگہ شاید سگریٹ نوشوں کے لئے بنائی گئی کہ اندر سگریٹ پینا 50ریال جرمانہ ہے میرا خیال ہے کہ فائیو سٹار ہوٹل سطح کی بلڈنگ ہے سہولت کی ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ حاجی لوگ تو سر کے بال اتروا چکے پھر ان کے لئے ڈھیر سارے حجام کیوں رکھے گئے۔ صفائی ستھرائی کا نظام تو بہت اچھا ہی تھا۔ مسجد میں باقاعدہ جماعت ہوتی ایک وقت میں 6یا 7سو لوگ نماز پڑھتے اور خوش قسمتی سے ایک خوش الحال قاری محمد امجد جو مستند عالم دین بھی ہیں ہمیں میسر آ گئے۔ وہ ہماری فلائٹ پر ہی حج کرنے آئے تھے۔ شروع شروع میں حاجیوں کے درمیان ایک اجنبیت ہی تھی۔ ہم پہلے مدینہ آئے تھے۔ وہاں بھی ایک کمرے میں پانچ بیڈ تھے اپنے روم میٹس سے شناسائی ہوئی تو ہاں سے مکہ کو چلے آئے۔ مدینہ میں نسبتاً بہت اچھا موسم تھا کہ تقریباً سب کی رہائش مسجد نبوی کے قریب تھی۔ جب جی چاہتا ہم مسجد نبوی کا رخ کرتے مکہ میں چونکہ حاجیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور وہ مکہ کے قریب سما نہیں سکتے کہ ویسے عزیزیہ کا علاقہ اس کے لئے مختص ہے۔ لگتا ہے یہاں پر گھڑی تعمیر ہو رہی ہے اب بھی پہاڑوں کو کاٹ کر عمارتیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ بعض جگہ تو عمارتوں کے اوپر آٹھ دس منزلیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ لگتا ہے آمدنی کا ذریعہ ہی ہے۔ دکانیں بھی ڈیڑھ دو ماہ کے لئے حج سیزن پر کھلتی ہیں عزیزیہ میں ایک جہاں آباد ہیں پاکستان کے ہر بڑے شہر کے نام پر کوئی نہ کوئی چیزنظر آتی ہے مگر پاکستانی نسبتاً کمائی پر یقین کرتے ہیں اگر وہ دو ریال کی چائے دیتے ہیں تو قریب ہی ایک غیر ملکی یا سعودی ایک ریال کی چائے دیتا ہے وہاں صبح شام خوانچے بھی لگتے ہیں مگر یہ بڑی گاڑیوں میں آتے ہیں جس میں اشیائے خورو نوش اور استعمال کی چیزیں لگی ہوتی ہیں۔ یہ دکانوں کی نسبتاً ذرا سستی ہیں۔ یہیں یقینا سیر گاہیں بھی ہوں گی ایک تو ہم نے دریافت کی کہ علی الصبح میں اور میرے دوست شیر محمد صبح کی سیر کے لئے باہر ہائی وے کی طرف نکل جاتے جو کہ جدہ سے کوئی قریب ہی ہم نے دیکھا کہ ایک پارک نما شے ہے وہاں پہنچے تو لکھا تھا حدیقہ۔اتنا تو ہمیں پتہ تھا کہ حدیقہ باغ آ گئے ہیں اور داخل ہوئے تو ٹریک نظر آئے اور سیر کا مسئلہ حل ہو گیا وہاں جگہ جگہ لوہے کے بنچ بھی نصب تھے اور بچوں کے لئے جھولے بھی۔ کچھ ایک سائز کی چیزیں بھی دو تین تھیں حاجی وہاں ایک درخت پر پتھر مار رہے تھے ہم قریب پہنچے تو انہوں نے ایک دو کھجوریں بھی تھما دیں۔ تازہ ذائقہ دار کھجوریں۔ دیکھا تو وہاں جگہ جگہ کھجوروں کے درخت نظر آئے مگر یہ گویا تو پارک جہاں کون کھجوریں اتارے گا۔ اگلے روز ہم نے بھی کچھ نشانے لگائے اور کچھ کھجوریں چن لیں مگر پھر ہمیں یہ کام کچھ اچھا نہیں لگا۔ وہاں ہم نے ٹریک کے چکر لگانے شروع کئے۔ ہفتہ کو وہاں آئے تو وہاں ڈس پوزایبل چیزوں کا گند پڑا ہوا تھا اندازہ ہوا کہ یہاں بھی مقامی لوگ یا ملازم اپنے خاندانوں کے ساتھ آتے ہیں کہ تفریح ہو جائے اور کچھ کھانا پینا بھی ہفتہ کی صبح ہم نے ایک منظر دیکھا کہ ڈس پوزایبل چیزوں کے درمیان دو جگہ ہم نے حبشی خواتین برقعوں میں بیٹھی تھیں ان کے بچے بھی ساتھ تھے مگر دو تین عورتیں باقاعدہ شیشہ پی رہی تھیں اور اچھا خاصا دھواں ہوا میں پھینک رہی تھیں۔ یہاں جب میں عمرہ کے لئے آیا تھا تو آصف شفیع نے مجھے کچھ شیشہ گھر دکھائے تھے وہاں خصوصاً یہی خانہ بدوش بیٹھے شیشہ پی رہے تھے اور وہاں ٹی وی پر فٹ بال میچ چل رہا تھا۔ یہاں بھی یقینا شیطانی عمل بھی جاری رہتے ہیں کچھ کو گٹکہ ٹائپ نشے کرتے دیکھا۔ ہوٹلوں کے بند کمروں میں اے سی ہمارے لئے سوہانے روح رہا۔ جیسے کہ ہم سرد قفس کے قیدی ہیں یہ تو بعد میں محمد سعید نے بتایا کہ کمرے کا شیشہ باہر بازار میں کھل جاتا ہے اور پھر انہوں نے شیشہ اٹھایا تو تازہ ہوا اندر آئی۔ یہاں کپڑے دھونے کا بھی بہترین اہتمام تھا، عورتیں کپڑے دھو کر ڈرائر پر خشک کر لیتی۔ یہاں وائی فائی بھی تھا مگر شروع شروع میں تو حرام تھا کہ کبھی چلا ہو ہم نے اندازہ لگایا کہ یہ ہوٹل والے یہاں کی موبائل کمپنیوں سے ملے ہوئے ہیں کیونکہ اتنے بڑے ہوٹل کا وائی فائی تو بہت اچھا ہونا چاہیے تھا۔ اگر یہ وائی فائی کام کرتا تو موبائل کمپنیاں حاجی لوگوں کو کیسے لوٹتیں۔ کمپنیوں نے حاجیوں کو جی بھر کر لوٹا بعض نے تو اس پر دو صد ریال سے بھی زیادہ خرچ کئے۔ ویسے اس مبارک جگہ آ کر موبائل کم ہی استعمال کرنا چاہیے کہ عبادت کے لئے وقت زیادہ میسر آ سکے۔ یہاں مہنگائی تو ہے مگر دکاندار لگی لگا لیتے ہیں۔ مثلاً میں نے پہلے ہی روز ایک چھری خریدی جو پانچ ریال کی تھی مگر دوسرے روز میرے ایک دوست 2ریال میں خریدی۔ باقی کاروبارمیں بھی پاکستان والا بھائو تائو کرتے ہیں۔ ہم اس پر ضرور حیران ہوتے رہے کہ یہ لوگ حج کے سیزن کے بعد کیا کرتے ہونگے اب جب ہمارا بچھڑنا قریب آ گیا ہے تو ہم ایک دوسرے کو پہچاننے بھی لگے ہیں آخر مہینہ سے ہم ایک دوسرے کو لفٹ پر مسجدمیں اور کھانے پر ملتے ہیں۔ لابی میں ملاقات ہوتی رہتی ہے پہلے حاجیوں میں افراتفری تھی۔ مثلاً لفٹ میں کوئی دوسرے فلور سے سوار ہوتا تو اکثر بول اٹھتے جگہ نہیں ہے حالانکہ لفٹ خود بتا دیتی ہے کہ اوور لوڈنگ ہو گئی ہے اب تبدیلی حج کے بہت دن بعد آئی کہ لوگ لفٹ میں دوسروں کے جگہ بنانے لگے ہیں اسی طرح مسجد میں دوسرے مکاتب فکر کے قاری صاحب بھی کچھ نمازیں پڑھا لیتے ہیں۔ ساری باتوں کے باوجود حاجیوں کی باقاعد ٹریننگ ضروری ہے۔ مثلاً ایک حاجی کئی کئی بندوں کا کھانا اکیلا لے جاتا ہے۔ انتظامیہ کو شاید آرڈر ہیں وہ کسی کو نہیں روکتے اس طرح کسی کو خیال نہیں کہ کتنا کھانا لینا ہے تاکہ ضائع نہ ہو ۔یقین کیجئے کہ آدھے سے زیادہ کھانا ضائع ہوتا ہے۔ لوگ قطار میں کھڑے ہونا کسر شان سمجھتے ہیں۔ بسیں وافر ہیں پھر بھی بس پر سوار ہونے کے لئے لیڈیز تک خیال نہیں کیا جاتا دھکم پیل ضرور ہوتی ہے۔