منگل 15 مارچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی ہے جس میں 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ یہ اس دن کی نشان دہی ہے جب تین سال قبل نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک مسلح شخص نے دو مساجد میں گھس کر 51 افراد کو ہلاک اور 40 کو زخمی کر دیا تھا۔ یہ دن اسلامو فوبیا سے نمٹنے کی ضرورت کی سالانہ یاد دہانی کے طور پر منایا جائے گا۔ یہ قرارداد پاکستان نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے پیش کی تھی۔ توقع کے مطابق او آئی سی کے 57 ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔ چین اور روس سمیت آٹھ دیگر ممالک نے بھی اس قرارداد کی حمایت کی۔ تاہم بھارت، فرانس اور یورپی یونین کے نمائندوں نے قرارداد پر تحفظات کا اظہار کیا۔ قرارداد کے متن کے مطابق، جنرل اسمبلی نے، دیگر چیزوں کے علاوہ، "اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے 15 مارچ کو عالمی دن کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور انسانی حقوق کے احترام، مذاہب اور عقائد کے تنوع کی بنیاد پر تمام سطحوں پر رواداری اور امن کے کلچر کے فروغ کے لیے عالمی مکالمے کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو مضبوط کرنے پر زور دیا ہے۔ یہ قرارداد اَفراد اور کسی بھی مخصوص طبقہ کے خلاف ان کے مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر تشدد کی تمام کارروائیوں اور ان کی عبادت گاہوں کے خلاف ہونے والی ایسی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اور مقدس مقامات، اور ان پر ہونے والے تمام حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے جو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ قرارداد میں "متعدد مذہبی اور دیگر کمیونٹیز کے افراد کے خلاف کیے گئے امتیازی سلوک، عدم برداشت اور تشدد کے واقعات میں مجموعی طور پر اضافہ" کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اِس تناظر میں قرارداد ایک سنگِ میل ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ عالمی برادری نفرت انگیز تقاریر کو برداشت نہیں کرے گی۔ یہ سماجی شمولیت اور امن کے کلچر کے قیام کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ اِسلامو فوبیا اور اِسلامو فوبیا سے منسلک منفی رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی دن منانے کا عہد ایک اہم طریقہ ہے۔ اتفاق رائے سے اس قرارداد کی منظوری سے امتیازی سلوک کے باوجود امن کے کلچر کو فروغ دینے میں مدد ملے گی۔ یہ قرارداد اسلامو فوبیا کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے حوالے سے خدشات کو ظاہر کرتی ہے اور نسل پرستی کے بغیر معاشرے کے قیام کے لیے ایک گفتگو کے ارادے کو ظاہر کرتی ہے جس سے امن کو فروغ دینے والے بین الاقوامی مکالمے کی تشکیل میں بھی مدد ملے گی۔ یہ قرارداد اِس سمت کی جانب ایک آگے کا قدم ہے اور غلط سوچ کو درست کرتی ہے۔ یہ اِس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ اِسلام کو جوڑنے کے رجحان کا خاتمہ کرنا اِنتہائی ضروری ہے۔ اسلامو فوبیا 9/11 کے بعد شروع ہوا خاص طور پر جب اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اسلام کو دہشت گردی سے تشبیہ دی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو "صلیبی جنگیں" قرار دیا۔ اگرچہ، بعد میں یہ تصحیح کی گئی کہ امریکی صدر کے بیان خاص طور پر "صلیبی جنگوں" کی اصطلاح کے استعمال کا غلط مفہوم لیا گیا ہے۔ پاکستان عالمی فورمز پر اسلامو فوبیا کے مسئلے کو بھرپور طریقے سے اٹھاتا رہا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں 27 ستمبر 2019 کو نیویارک میں جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس سے اپنے 45 منٹ کے تاریخی خطاب میں اِس مسئلے کو سب سے پہلے اٹھایا اور دنیا کی توجہ مبذول کروائی کہ "اسلامو فوبیا تقسیم پیدا کر رہا ہے؛ حجاب ایک ہتھیار بنتا جا رہا ہے۔ عورت کپڑے اتار سکتی ہے لیکن زیادہ کپڑے نہیں پہن سکتی۔" انہوں نے ’بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی‘ کی اصطلاح کے استعمال پر سوال اٹھایا اور کہا کہ صرف ایک اسلام ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی توجہ اور اس سے نمٹنے کی کوششوں کا بارہا مطالبہ کیا تھا۔ یہ پاکستان کے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلم دنیا کا ایک ٹی وی چینل شروع کرنے کی تجویز پیش کی۔ اِسلاموفوبیا کے اِیشو کی حساسیت کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے میں خصوصی طور پر نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملوں کے بعد تمام اِسلامی ممالک بالخصوص پاکستان، ترکی اور ملائشیا کے ساتھ ساتھ 2019 میں مکہ مکرمہ میں شروع کی گئی اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے ایک بین الاقوامی دن کی ضرورت کے بارے میں برسوں کی بحث و مباحثہ کی کوششیں قابلِ ذکر ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اقوام متحدہ میںہندوستان کے نمائندے ٹی ایس تریمورتی نے شکایت کی کہ قرارداد میں دیگر مذاہب کے علاوہ ہندو مخالف فوبیا کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان جہاں مسلم دشمنی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور یہ سب کچھ ریاست کی طرف سے منظور شدہ ہے کیونکہ آر ایس ایس کے عناصر کو مسلمانوں کو ان کے عقیدے اور عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنانے کی مکمل آزادی اور جگہ دی جارہی ہے جبکہ سیاسی طور پر بی جے پی کے ساتھ جڑے دائیں بازو کے ہندوستانی نوجوان صرف شک کی بنیاد پر مسلمانوں کی جان اور املاک کو نقصان پہنچانے پر بھی ہندوستانی حکومت جان بوجھ کر قانونی کاروائی نہیں کرتی۔ تاہم یہ بھی وقت کا تقاضا ہے کہ کسی بھی مذہب یا عقیدے کی علامتوں پر حملہ کرنے سے گریز کیا جائے کیونکہ تمام مذاہب اور عقائد کا احترام فرض ہے اور بقائے باہمی ضروری ہے۔ اب اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنائے جو اس نے اِتفاق رائے سے منظور کی ہے۔ پاکستان سمیت 57 رکنی او آئی سی کے لیے یہ بھی ایک چیلنج ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد پر اِس کی حقیقی روح کے مطابق عمل درآمد کو یقینی بنوایئں۔