حکومت پر جہاں تنقید ہونی چاہیے وہاں اس کے اچھے کاموں بلکہ کارناموں کو سراہنا بھی ضروری ہے تو یہ چند سطریں درمدح حکومت بر تقاضائے انصاف سمجھیے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس سال سموگ بہت کم ہو گی ۔ یعنی ہو گی تو ضرور لیکن شدت نہیں ہو گی اور اس کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔ وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ سموگ کارخانوں کے دھوئیں سے اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ فوگ سے مل جاتا ہے۔ آدھا دھواں بھارتی کارخانوں سے آتا ہے اور وہ تو آئے گا‘ آدھا جو پاکستانی کارخانوں کی چمنیاں اگلتی ہیں‘ وہ نہیں آئے گا کیونکہ اس وقت چمنیوں سے دھواں نہیں‘ صاف ستھری آکسیجن خارج ہو رہی ہے چنانچہ سموگ اس بار آدھی ہو گی اور آدھی سموگ تو ہم بھگت ہی لیں گے۔ بڑی آسانی سے۔ یہ سطریں نوٹ فرما لیجیے اور آئندہ سے یہ مت کہیے کہ ہم حکومت کے اچھے کارناموں کی تعریف نہیں کرتے۔ ٭٭٭٭٭ دو تین چینلز پر پی ٹی آئی کے فارن فنڈز کا کیس زیر بحث تھا۔ کہا جا رہا تھا کہ خاں صاحب سمیت پوری پارٹی اس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ بڑے خطرناک انکشافات ہوں گے‘ بہت سے وعدوں پر جو کہ ایمانداری وغیرہ سے متعلق ہیں۔ ناقابل ذکر قسم کی دھول جم جائے گی۔ یہاںناقابل ذکر سے مراد یہ ہے کہ جس کا ذکر کرنا مناسب نہ ہو القصہ منی لانڈرنگ سمیت چاٹ کے سارے مسالے موجود ہیں۔ افسوس کہ ان پروگرام والوں نے ہمارا بیپر نہیں لیا۔ ورنہ ہم بتاتے کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ یہ کیس ٹھپ ہو جائے گا کیونکہ ٹھپ نہ ہوا تو نظام ہستی جو زرکثیرکے نتیجے میں قائم ہوا ہے بکھر جائے گا اور ہم ایک محاورہ بھی سناتے کہ: خان ہے تو جہان ہے چنانچہ جہان کو بچانے کے لئے خان کی حفاظت از بس لازم ہے۔ فکر نہ کیجیے خان کو کچھ ہو گا نہ پی ٹی آئی کو۔ ٭٭٭٭٭ آئے روز دلچسپ خبریں آتی رہتی ہیں۔ اب تو اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اخبارات کو روز ان کے لئے آدھا صفحہ دینا پڑتا ہے۔ لیکن کچھ تو بہت ہی عجیب ازحد غریب ہوا کرتی ہیں۔ مثلاً ملاحظہ کیجئے کل کے اخبارات میں وہ خبر جس میں بتایا گیا ہے کہ ایک پولیس ایجنسی نے حکومت کو رپورٹ دی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ذمہ دار بیورو کریسی ہے۔ ہمارے ملک کی بیورو کریسی بہت سی خرابیوں اورکی ذمہ دار ہے لیکن یہ مہنگائی والی’’نیکی‘‘ کا سہرا اس کے سر سجانا بہت ہی عجیب‘ غایت درجہ غریب نہیں لگتا؟ غور فرمائیے‘ بجلی کے نرخ حکومت نے بڑھائے اور بے پناہ بڑھائے جس کے نتیجے میں مہنگائی ہوئی لیکن رپورٹ کہتی ہے مہنگائی بیورو کریسی نے کی۔ گیس کے نرخ حکومت نے بڑھائے۔ تیل کے نرخ حکومت نے بڑھائے چینی کی قیمت حکومت نے بڑھائی۔ ڈالر سو سے ایک ساٹھ کا حکومت نے کیا۔ شرح سود حکومت نے ’’مہلک‘‘ حد تک بڑھا دی (اس لئے کہ اتنی شرح سود پر کون کاروباری قرضہ لے سکتا ہے) کاروبار حکومت نے ٹھپ کئے، صنعتوں کا پہیہ حکومت نے جام کیا،وزیر اعظم ہائوس میں سادگی پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ کیا، گورنر ہائوسز اور وزرائے اعلیٰ ہائوسز کے اخراجات اور فنڈ حکومت نے بڑھائے، پروٹوکول کے خرچے حکومت نے بڑھائے وزیروں مشیروں معاونوں ترجمانوں کی فوج ظفر موج سرار نے کھڑی کی‘ ان کی تنخواہوں میں ڈبل ٹرپل اضافے اس نے کئے اور نہ جانے کیا کیا کچھ اس نے کیا لیکن رپورٹ کہتی ہے مہنگائی میں اضافہ بیورو کریسی نے کیا۔ بہت ہی عجیب رپورٹ نہیں؟ کیوں نہ اسے عجائب گھر میں رکھ دیا جائے۔ ٭٭٭٭٭ وہ جو کہتے ہیں کہ خان جو کہتا ہے ‘ کر دکھاتا ہے سچ ہی کہتے ہیں۔ دیکھ لیجیے۔ ابھی تین دن پہلے اعلان کیا کہ کشمیر پر جہاد کریں گے۔ اس سرخی کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ عمل بھی ہو گیا۔ بھارت نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی۔ حکومت نے ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی۔ بھارتی سفارت کار کو دفتر خارجہ بلایا اور اس سے اس خلاف ورزی پر شدید احتجاج کیا۔ یہی نہیں‘ایک سخت قسم کا احتجاجی مراسلہ بھی اس کے ہاتھ تھما دیا۔ ٭٭٭٭٭ سٹیٹ بنک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر نے نوید سنائی ہے کہ مہنگائی کم ہونے والی ہے۔ لیکن کب؟ انہوں نے تاریخ نہیں دی۔ ایشیائی بنک کی رپورٹ البتہ کچھ اور بتا رہی ہے کہتی ہے اگلے برس پاکستان ایشیا کے تین مہنگے ترین ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ یعنی مہنگائی عروج پر ہو گی نیز کہا ہے کہ شرح ترقی ایشیا بھر میں سب سے کم پاکستان ہی کی ہو گی۔ کہیں ایسا تو نہیں‘ڈپٹی گورنر نے شرح ترقی کو مہنگائی سمجھ لیا ہو جو یقینا کم ہو رہی ہے اور مزید ہونے والی ہے؟ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ حکومت نے تاریخی اور تاریخ ساز ریونیو شارٹ فال کے پیش نظر ٹیکس اہداف میں 52ارب روپے کی کمی کر دی۔ اچھاہے‘ یہ کہنے کا امکان بڑھ گیا کہ ہم نے ہدف پورا کر لیا۔ سارے اہداف اسی طرح ’’ری سیٹ‘‘ کرتے جائیں‘ پورے کرنے میں یقینی آسانی ہو جائے گی۔ بجلی کے بل دو دن میں تین بار بڑھے اور کل اضافہ اڑھائی روپے سے بھی زیادہ کا ہوا یوں ایک تاریخ اور بن گئی۔ امید ہے‘ شارٹ فال کچھ تو شارٹ ہو گا۔