’’ججز کے خلاف ریفرنسز ٹارگٹ کلنگ ہیں‘‘۔ ۔ ۔ واہ وا! ’’ حکومت جمہوریت پسند ججوں کو فارغ کرنا چاہتی ہے۔‘‘سبحان اللہ! اپریل 2018ء میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بر طرفی اور پھر جولائی 2018ء کے بعد زرداریوں کے جلسوں، ریلیوں ،اخباری بیانوں اور اسکرینوں پر ’’عدلیہ ‘‘ کے خلاف موشگافیوں کو اگر ترتیب دیا جائے تو فائلوں کے انبار چھتوں کیا،آسمان کو چھولیں۔مگر ایک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دوسرے جسٹس آغا کے خلاف حکومت نے دو ریفرنسز کیا دائر کئے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ساری بریگیڈ ’’عدلیہ‘‘ کی سربلندی اور تحفظ کے لئے آکھڑی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ اچھا نہیں لگ رہا مگر معذرت کے ساتھ اپوزیشن کی دونوں مین اسٹریم جماعتوں کی قیادت کے بیانوں پر ’’مگر مچھ‘‘ کے آنسو کے علاوہ کوئی دوسرا محاورہ یاد نہیں آرہا۔پہلے بھی لکھتا رہاہوں کہ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں ،خاص طور پر تین دہائی سے حکومت کرنے والی ن لیگ اور پیپلز پارٹی یقین کی حد تک اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ عوام کی یادداشت بڑی کمزور اور غریب ہوتی ہے۔ایک حد تک درست بھی ہے کہ شاعرِ عوام حبیب جالبؔ نے اسی لئے یہ شعر لکھا تھا کہ: لوگ اپنے قاتلوں کے ہیں عشاق میری جاں مگر ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ایک بات بھول بیٹھی ہے کہ ۔ ۔ ۔ سیاستداں ،مورخ یعنی تاریخ نویس نہیںہوتا۔ان کا ماضی میں کہا ،لکھا تاریخ میں محفوظ ہوجا تا ہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں خود عدلیہ جیسے مقدس ادارے ،قابل احترام معزز جج صاحبان نے بازاری زبا ن میں اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا ’’کھلواڑ‘‘کیا۔اس کی تو اپنی ایک الگ تاریخ ہے ہی مگر،ہماری سویلین ،فوجی قیادت نے کس طرح اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے کیسے کیسے حملے اورہتھکنڈے استعمال کئے ۔ ۔ ۔ اس کی تفصیل میں جایا جائے تو حیرت سے دانتوں تلے انگلیاں لہو لہان ہوجائیں۔اس سے بھی زیادہ بدقسمتی یہ ہے کہ آج جو دو معزز جج صاحبان کے حق میںمحض تحریک انصاف کی حکومت کی دشمنی میں سارے ملک کی باریں،تلواریں سونت کے میدان میں آکھڑی ہوئیں۔ ۔ ۔ تو کیا یہ اپنے کالے کوٹ کے بٹن کھول کر گریبانوں میں جھانکیں گی کہ خوداُن کا اُس وقت کیا کردار رہا ۔۔ ۔رہا چوہدری افتخار کی بحالی میں باروں اور بینچوں کا کردارتو یہ ایک علیحد ہ موضوع ہے کہ اس تحریک کے سارے سرخیل بشمول ہمارے چوہدری اعتزاز احسن ،سپریم کورٹ کے سابق صدر علی احمد کرد،منیر ملک،رشید رضوی دونوں کان پکڑ کر اس تحریک میں اپنے کردار پر تو بہ تلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی خودسری اورانا پرستی اپنی جگہ ،مگر یہ خود ساختہ تحریک تھی جس کے beneficiariesن لیگ اور پیپلز پارٹی تھیں جنہیں اس چوہدری کورٹس بحالی تحریک کے نتیجے میں ہی پانچ ،پانچ سالہ باری لگانے کا موقع ملا۔۔ ۔ یہ محض دو ججز صاحبان کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے پر جس میں انہیں صفائی اور جرح کرنے کا پورا موقع بھی دیا جارہا ہے ،ن لیگ اور پیپلز پارٹی بریگیڈ اور باروں کی آہ و زاریاں مجھے 90کی دہائی میںلے جارہی ہیں۔جب دونوں قومی جماعتوں نے میرٹ کا گلا گھونٹتے ہوئے ججز صاحبان کی تذلیل تو کی ہی ۔ ۔ ۔ مگر شریفوں کی لیگ بہت معذرت کے ساتھ کہ یہ لفظ ایسا غیر پارلیمانی نہ رہا کہ’’بدمعاشی ‘‘ کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے سپریم کورٹ کی ہی باقاعدہ منصوبہ بندی سے ’’اینٹ سے اینٹ‘‘ بجادی۔پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں جس طرح عدلیہ کو اپنے شکنجے میں جکڑنا چاہا اور پھر’’ججز کیس‘‘کے با وجود سندھ سے تعلق رکھنے والے محترم جسٹس سجاد علی شاہ کو میرٹ کا گلا گھونٹ کر چیف جسٹس آف پاکستان کے اعلیٰ عہدے پر فائز کیا۔ ۔۔ در اصل یہ آغاز تھابینچوں کے معزز جج صاحبان کی ایک دوسرے کے خلاف دراز دستیوں بلکہ دست و گریباں ہونے کا۔ اور یہ وطن عزیز کی تو بدقسمتی تھی ہی مگر سب سے بڑا المیہ یہ ہوا کہ عدلیہ بھی پارٹیوں میں تقسیم ہوگئی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے اس جملے نے بڑی شہرت پائی کہ ’’لاہور کے وزیراعظم کے لئے ایک فیصلہ ہوتا ہے تو لاڑکانہ کے وزیر اعظم کے لئے دوسرا‘‘۔یہ براہ راست حملہ تھا ملک کی سب سے عدالت سپریم کورٹ کا اور پھر بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے اس بات کا اعتراف بھی کیا۔یوں جب محترمہ دوسری بار برسر اقتدار آئیں تو انہوں نے اس کا بدلہ یوں لیا کہ ججز کیس کے فیصلے باوجود سینیارٹی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے لیاری کے ہمارے محترم سید سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنایا۔یہ اور بات ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ دوسری بار محترمہ بے نظیر بھٹو سے ناراض ہوئی تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ بی بی بے نظیر کی حکومت کو گرانے میں اسٹیبلمشنٹ کے ساتھ کھڑے تھے۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد میاں نواز شریف دوسری بار بڑے دھوم دھڑکے سے آئے ۔دوتہائی اکثریت کے زعم میں انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جب تک اقتدار کے تینوں ستون جاتی امراء کی غلامی میں نہیں آتے ، اسلام آباد کا اقتدار کبھی ان کے لئے مستقل اور مستحکم نہ ہوسکے گا۔مگر ہمارے محترم میاں نواز شریف کی یہ خام خیالی تھی کہ واقعی دو تہائی اکثریت کے ساتھ وہ عوام کے محبوب رہنما بن چکے ہیں اور اب ن لیگ کے اندر ق لیگ بننے کی گنجائش نہیں۔ زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا آج کیا ،اُس وقت بھی اقتدار کی اکھاڑ پچھاڑ میں سب سے بنیادی کردار ہی حاوی تھا۔کیا صدر،کیا وزیر اعظم ،کیا چیف جسٹس۔ ۔ ۔ یوں میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم تو بن گئے ۔ان کا خیال تھا کہ صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ اتنی کمزور بیساکھیوں پر کھڑے ہیں کہ وہ کسی صورت ان کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے۔ (جاری ہے)