سچ پوچھیںتو سانحہ ساہیوال پہ آواز اٹھانے کا حق صرف اس کو ہے جس نے اس سے قبل رینجرز کے ہاتھوں نہتے سرفراز کے دل چیر دینے والے قتل پہ آواز اٹھائی۔ایم کیو ایم کی نشاۃ ثانیہ پہ برپابارہ مئی کی بے گوروکفن لاشوں کا نوحہ لکھا۔بلدیہ فیکٹری کی سوختہ لاشوں پہ چیخ اٹھا۔نقیب اللہ پہ ہی نہیں راو انوار کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل ہونے والے ہر نوجوان پہ رویا۔سانحہ ماڈل ٹاون پہ چلا اٹھا۔خروٹ آباد میں چوکی کے سامنے آسمان کی سمت انگلی اٹھائے دم توڑتی حاملہ چیچن عورت پہ آنسو بہائے۔لال مسجد سانحے پہ اشکبار ہوا۔اے پی ایس کے معصوم شہیدوںکا ہی نہیں چینگئی کے ان تراسی معصوموں کا مرثیہ لکھا جووضو کرتے، قران پاک پڑھتے اندھی بمباری کا نشانہ بنے۔اگر آپ بارہ مئی کو مصلحتاً خاموش رہے کہ ایم کیو ایم کو ایک کمانڈو کی مکمل حمایت حاصل تھی جو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں تھا ،سانحہ ماڈل ٹاون پہ گونگے کا گڑ کھائے بیٹھے رہے کہ اس سے آپ کی سیاسی وابستگی مجروح ہوتی تھی اور اس کے طفیل آپ کو ریلوے وغیرہ میں اعلی سی پوسٹ ملی ہوئی تھی اور آج سانحہ ساہیوال پہ آپ اس نوآموز حکومت کے لتے محض اس لئے لے رہے ہیں کہ وہ آپ کو پسند نہیں ہے تو نرم ترین الفاظ میں آپ منافق ہیں۔اسی طرح اگر میں اس سانحے پہ صرف اس لئے خاموش رہوں کہ یہ میری پسندیدہ حکومت کے زیر سایہ وقوع پذیر ہوا ہے تو میں ظالم ہوں۔مجھے اس سانحے پہ رونے والی ہر آنکھ عزیز ہے لیکن اسے ٹسوے بہانے کا کوئی حق نہیں جو ہر ایسے واقعہ پہ مصلحتاً چپ رہا۔ایوان میں جھاگ اڑاتے شہباز شریف کو تو بالکل نہیں جن کی سرپرستی میں گیارہ گھنٹے ماڈل ٹاون میدان جنگ بنا رہا اور ایف آئی آر آرمی چیف کی مداخلت پہ درج ہوئی۔انسداد دہشتگردی عدالت میں جب منہاج القران کے مدعی جواد حامد نے بیان ریکارڈ کروانا شروع کیا تو کمرہ عدالت میں سناٹا چھا گیا۔مخالف وکلا بار بار ان کا کان چیک کرتے رہے کہ کہیں کسی آلے کے ذریعے انہیں بیان رٹوایا تو نہیں جارہا۔یہ ایسا خوفناک بیان تھا جس کے بعد کسی جے آئی ٹی کی ضرورت نہیں تھی جیسا کہ آج گواہوں کے بیانات اور وڈیو ریکارڈنگ کی موجودگی میں اس کی ضرورت نہیں۔جس وقت یہ سانحہ رونما ہوا نون لیگ کے کاسہ لیس ایک مقامی صحافی نے، جنہوں نے اسی بنیا د پہ اعلی سرکاری عہدہ حاصل کیا، فیس بک پہ استہزایہ پوسٹ لگائی جبکہ اس وقت تک آٹھ لاشیں گر چکی تھیں۔موصوف کے ہم نوا انہیں ہلا شیری دیتے اورحکومت کی بربریت کو برمحل قرار دیتے رہے کہ ان کی نظر میں دہشت گردی کا یہی علاج تھا۔ جلد ہی انہیں احساس ہوگیا کہ یہ ظالمانہ روش انہیں مہنگی پڑ سکتی ہے تو پوسٹ ڈیلیٹ کردی گئی۔پنجاب پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے آلودہ کرنے والے شریف جنہوں نے عشروں اسی پولیس کے ذریعے مخالفین کو لگام ڈالے رکھی آج پارلیمان میں نم آلود آنکھیں پونچھتے عمران خان کے استعفی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہنسی نہیں آتی،الٹی آتی ہے۔یہ کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔جعلی پولیس مقابلے انہوں نے ایجاد نہیں کئے لیکن اس فن کو عروج پہ ضرور پہنچایا۔ مجھے فیصل آباد کے شہید ڈی ایس پی کے بھائی کے آنسو نہیں بھولتے جس کے ہیرو بھائی نے سیاسی مخالفوں کو جعلی پولیس مقابلے میں ٹھکانے لگانے کے حکم کی بجا آوری نہیں کی اور جوانی میں مارا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے کھاتے میں ایسے بیسیوں قتل موجود تھے۔آصف زرداری سانحہ ساہیوال پہ آنسو بہاتے خود کو بھی کیسے پہچان سکتے ہیں جن کا بہادر بچہ رائو انوار مبینہ طور پر بلاول ہاوس میں روپوش رہا۔ ایم کیو ایم کے سینکڑو ں کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث ذیشان کاظمی کے سرپرستوں نے اس وقت اس کے سر سے ہاتھ اٹھایا جب وہ ان کے ہی منہ کو آنے لگا۔آصف زرادری کے برادر نسبتی مرتضی بھٹو کا لہو ان کی اپنی بہن کے دور اقتدار میں بہا اور تیرہ سا ل عدالتوں میں رلتا رہا۔نامزد ملزمان میں سے ایک انسپکٹر حق نواز سیال نے پراسرار حالات میں خودکشی کرلی،دوسرا انسپکٹر ذیشان کاظمی علی سنارا کے ہاتھوںمارا گیا اور یہ قتل بھی ایم کیو ایم کی کھونٹی سے ٹانگ دیا گیا جہاں پہلے ہی ڈھیروں گندے کپڑے ٹنگے ہوئے تھے۔خود علی سناراکو مار دیا گیا اور باقی تمام ملزمان نہ صرف بری ہوگئے بلکہ دوران مقدمہ ان کی ترقیاں بھی ہوتی رہیں۔یہ غالبا پہلا کیس تھا جس کی چار ایف آئی آر درج ہوئی تھیں اور ایک سو دو گواہ موجود تھے۔انصاف کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ دس سال میں صرف بتیس گواہوں کے بیان ریکارڈ ہوئے تھے۔اس دوران چار جج تبدیل ہوئے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پہ بننے والے تحقیقاتی ٹریبونل کے سربراہ جسٹس ناصر اسلم زاہد کا کہنا تھا کہ اگر جج تبدیل نہ ہوتے تو مقدمے کا فیصلہ ڈیڑھ برس میں ممکن تھا اور یہ کہ جس ملک میں مرتضی بھٹو کو انصاف نہیں مل سکتا وہاں عام آدمی کو کیا انصاف ملے گا۔برادر نسبتی کے خون سے نصف بہتر کے خون تک کوئی حساب بے باق نہ ہوسکا جبکہ اس دوران موصوف نے صدارت انجوائے کی اور ان کی پارٹی نے پانچ سال حکومت لیکن یہ ماورائے عدالت قتل انصاف کا منتظر ہی رہا۔جب کراچی میں ماورائے عدالت قتل ہوتے رہے تو سوال اٹھانے والوں نے ڈرتے ڈرتے سوال اٹھائے۔ جواب ملا کہ دہشت گردی کا کوئی علاج نہیں۔کون کیس بنائے گا اور کون گواہی دے گا۔بات سمجھ بھی آتی تھی لیکن لاشیں گننا مشکل ہو گیا تھا۔کراچی میں امن لاشوں کی قیمت پہ آیا۔ماورائے عدالت قتل کے نتیجے میں ملنے والی لاشیں اور جوابی کارروائی میں جاں بحق ہونے والے پولیس والوں کی لاشیں۔ پھانسی تو صر ف صولت مرزا کو ہوئی۔شاہد حامد کا خون رنگ لایا۔بلدیہ فیکٹری اور طاہر پلازہ کی سوختہ لاشوں تک پہنچتے پہنچتے انصاف ہانپنے لگا۔ عنان اقتدار تھامے مملکت خدادا دپہ باری باری سواری گانٹھنے والی جماعتوں کے سربراہ سانحہ ساہیوال پہ اشک آلود آنکھوں سے سو ال کرنے کا حق رکھتے اگر ان کے دوراقتدار میں یہی پولیس غیر سیاسی ، پروفیشنل اور موثر ہوچکی ہوتی ۔لیکن ہوا کچھ یوں ہے کہ یہ پولیس جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنی رہی ہے جس سے مخالفوں کو ہنکانے اور انہیں اوقات یاد دلانے کا کام حسب منشا و توفیق ان ہی لوگوں نے کیا ہے جو آج اس نوآموز حکومت پہ گلا پھاڑ کر برس پڑے ہیں۔ ان سیاسی بازیگروں کو یہ حق کس نے دیا۔ سوال کرنے اور آواز اٹھانے کا حق تو ان بائیس کروڑ لوگوںکو حاصل ہے جو ان شریفوں ، زرداریوں اور مشرفوں کے دور اقتدار میں کبھی دہشت گرد کہہ کر ڈرون حملوں میں ماردیے گئے،کبھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے، کبھی ماورائے عدالت قتل ہوتے رہے اور کبھی یونہی کسی خوش انداز کی تفنن طبع کے لئے تختہ مشق بن گئے یا پھر انہیں جو ہر مصلحت ومنافقت سے دامن بچا کر ان سب کا نوحہ لکھتے رہے۔کسی جابر، منافق،مصلحت کیش خودغرض کو ہرگز نہیں جو اپنا جرم چھپانے کے لئے مگرمچھ کے آنسو بہارہا ہے۔