سندھ کی ادبی تاریخ بہت خوبصورت اور بہت کھوئی ہوئی ہے۔ سندھ کا ادب صرف شیخ ایاز یا شاہ لطیف اور سچل سرمست تک محدود نہیں ہے۔ شاہ لطیف سے پہلے ایک بزرگ شاعر’’ عبدالکریم بلڑی وارو‘‘ بھی تھے ۔جنہوں نے لکھا تھا : کاتب لکھے جیسے لام اور الف ملا کر ہم نے ساجن تیسے من میں ہے محسوس کیا مگر اس صوفی فقیر سے قبل بھی سندھ میں بہت خوبصورت شاعروں نے جنم لیا۔ ان شاعروں نے زندگی اور محبت کا حسن بیان کیا۔ ان شاعروں میں ایک شاعرنے لکھا تھا: گوری جس تالاب سے نہا کر نکلتی ہے اس کے لہروں کی خوشبو ختم ہی نہیں ہوتی سندھ کا قدیم ادب صرف مادی اور روحانی عشق کا اظہار نہیں ہے۔ اس ادب میں علم کے ستارے بھی چمکتے ہیں۔ وہ علم کتابی نہیں۔ وہ علم عملی زندگی کی کڑی دھوپ میں کنول کا پھول بن کر تیرتا ہے۔ وہ علم کسان کے پسینے سے موتیوں کی طرح بہتا ہے۔ وہ علم ایک دیہاتی ماں کی لوری میں گنگناتا ہے۔ وہ علم صرف عقل میں اضافہ نہیں کرتا۔ وہ علم ان لوگوں کی غیرت کو بھی تیز کرتا ہے۔ وہ غیرت جس کا دائرہ صرف ذات اور خاندان تک محدود نہیں بلکہ اس کا دائرہ اس پورے وطن کو اپنی آغوش میں سماتا ہے جس میں بہت ساری جھیلیں لہراتی ہیں۔ جس میں بہت ندیاں گاتی ہیں۔ جس میں بہت سارے پہاڑ سربلندی سے کھڑے رہتے ہیں۔ جس میں زندگی کا ہر روپ مسرت کا اظہار کرتا ہے۔ سندھ کے قدیم شاعر کہتے ہیں اس غیرت والے علم کا درجہ حاصل کرنے کے لیے انسان کو لالچ اور ذاتی انا سے بلند ہونا پڑتا ہے۔ اس کے لیے انسان کو اس پرندے جیسا ہونا پڑتا ہے جو ہنس کی طرح گہرائیوں کی گود میں جھولتا ہے۔ وہ کانیرو پرندے کی طرح چھوٹے پانی کو میلا نہیں کرتا۔ ہرانسان کی طرح ہمارے ملک کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے سامنے بھی دو راستے ہیں۔ ایک راستہ وہ جس پر چل رہے ہیں۔ وہ راستہ ذاتی مفاد کا راستہ ہے۔ وہ راستہ اس غم اور غصے کا ہے جو صرف اپنی ذات تک محدود رہتا ہے۔ کاش! میاں نواز شریف کو کوئی سمجھائے کہ وہ جدائی کا راستہ ہے۔ کاش! میاں نواز شریف کو کوئی سمجھائے کہ وہ تنہائی کا راستہ ہے۔ کاش! میاں نواز شریف کو کوئی سمجھائے کہ وہ تباہی کا راستہ ہے۔ میاں نواز شریف جس راستے کے راہی ہے وہ راستہ اس خودکش بمبار جیسا ہے جو اپنے ساتھ پورے نظام کو تباہ و برباد کرنے پر تل جاتا ہے۔ میاں نوازشریف نے جس طرح ملک کے راز فاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اس سے انہیں تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا مگراس سے ایک گندی اور غلط روایت جنم لے گی۔ پھر نہ صرف ایک سابق حکمران بلکہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ بھی اپنے ملک کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو کہاں رکے گا؟ یہ بیانات جو میاں نواز شریف آج دے رہے ہیں اس قسم کا ایک بیان ایک بار صرف ایک بار بے نظیر بھٹو کے ہونٹوں پر بھی آیا تھا۔ اس نے زندگی کے کٹھن موڑ سے گذرتے ہوئے ایک بار کہا تھا ’’ہمارے سینے میں جو راز ہیں کاش وہ راز ہی رہیں‘‘ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں یہ فرق ہے کہ بینظیر بھٹو نے کبھی بھارت کے حق میں گواہی دیکر پاکستان کو کشمکش میں نہیں دھکیلا۔ مگر میاں نواز شریف نے اپنی منتقم طبیعت کا نہ صرف اظہار کیا ہے بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ وقت آنے پر مزید رازوں سے پردہ اٹھائیں گے۔ میاں نواز شریف کو کون سمجھائے راز صرف ایک ملک کے نہیں ہوتے۔ ایک گھر اور ایک خاندان میں بھی راز ہوتے ہیں۔ ان رازوں کو فاش کرنا بہت برا عمل سمجھا جاتا ہے۔ راز صرف ایک قوم کے نہیں ہوتے۔ ایک قبیلے کے بھی ہوتے ہیں مگر اپنے قبیلے کے خلاف بندوق اٹھاکر بغاوت کرنے والا بھی ان رازوں کے چہروں سے پردہ نہیں ہٹاتا۔ وہ راز امانت ہوتے ہیں۔ ان رازوں میں خیانت والا عمل صرف انسان کی فطرت کا پتہ دیتا ہے۔ سیاست صرف حکمرانی کے مزے لینے کا نام نہیں ہے۔ سیاست آزمائش کی صلیب پر صبر کرنا بھی سکھاتی ہے۔ مگر اب وہ سیاست کہا ں ہے؟ وہ سیاست تو ان انسانوں کے ساتھ دفن ہوگئی جو عظیم کردار ادا کرتے ہوئے اس دھرتی کو تنہا کر گئے۔ اس وقت ہماری سیاست ان حالات میں سانس لینے کے لیے مجبور ہے جن حالات کی منظر کشی کرتے ہوئے فیض صاحب نے لکھا تھا: جواں مردی اسی رفعت پہ پہنچی جہاں سے بزدلی نے جست لی تھی یہ زوال ہے۔ جب ہم ماضی پر فخر کرنے کے قابل نہیں رہیں۔ جب ہم ماضی سے سبق حاصل نہ کریں۔ جب ہم ماضی کو دیکھ کر احساس جرم کی ایسی کیفیت محسوس کریںجس میں ہمارے پستول کا رخ اپنی کنپٹی کے بجائے ماضی کا سینہ چھلنی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وقت ہم بھول جاتے ہیں وہ بات جو داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف نے لکھی تھی۔ رسول حمزہ توف نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’میرا داغستان‘‘ میں لکھا تھا کہ’’ اگر تم تاریخ کو گولی ماروگے تو مستقبل تمہیں توپ سے اڑا دے گی‘‘ ہمارے سیاستدانوں کے پاس تاریخ کا تصور تک نہیں۔ وہ عالمی علم کے آسمان میں دانش کے چمکتے اور دمکتے ہوئے ستارے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اس دانائی سے بھی محروم ہیں جو دانائی دھرتی کی دھول سے اٹھتی ہے۔ وہ اپنی انا کے خول میں رہتے ہیں۔ وہ باہر جاتے ہیں جو خودساختہ جلاوطن بن جاتے ہیں اور ملک میں ہوتے ہیں خود ساختہ جیل کے اسیر بن جاتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کے زندان سے کب نکلیں گے؟ ان کی آزادی تب تک ممکن نہیں جب تک وہ اپنے وجود میں پڑی ہوئی انا اور لالچ کی بلٹ پروف جیکٹ نہیں اتارتے۔ یہ بات بھی سندھ کے ایک قدیم شاعر نے کہی تھی کہ: احمق نے اپنے گرد زرہ لپیٹ لی ہے اب اس میں عقل کا تیر کس طرح پیوست ہو؟ یہ علم و دانش کی باتیں صرف ایک دیس اور ایک دھرتی کا اثاثہ نہیں ہے۔ چین کے عظیم مفکر لاؤتزو نے لکھا ہے کہ ’’اگر تم میں سیکھنے کا جذبہ ہے تو پھرتمہیں قابل استاد تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کائنات کا ہر منظر اور ہر مظہر تمہیں علم کے نور سے منور کرسکتاہے‘‘ اس دنیا میں صرف مایوس مناظر نہیں ہیں۔ اس دنیا میں حوصلہ حاصل کرنے کیلئے بہت کچھ ہے۔ اقبال کا ارشاد ہے: کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذار دیکھ اگر میاں نواز شریف ہمت اور حوصلے کے مناظر دیکھنا چاہیں تو صرف ’’الجزیرہ‘‘ چینل کوآن کریں اور دیکھیں کہ فلسطین کے لوگ اپنے وطن کی آزادی کے لیے کس طرح لڑ رہے ہیں۔ کاش! میاں نواز شریف ٹی وی اسکرین کو ہی آئینہ بنائیں اور اس میں اپنا جائزہ لیں۔ ایک طرف وہ صرف چند ماہ کا اقتدار چھن جانے کی وجہ سے ملکی مفادات کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہوگئے ہیں اور دوسری طرف فلسطین کی بے وطن اور بے کفن لاشیں غزہ کی گلیوں میں پڑی ہیں۔ نواز شریف ان سے حوصلہ کیوں نہیں لیتے جو روتے بھی ہیں اور لڑتے بھی نہیں۔ وہ لوگ زندگی کا حسن ہیں جو لوگ کسی مجبوری کو راستے کی رکاوٹ نہیں سمجھتے ۔ فلسطین کے صرف جوان مرد گولیوں کی بوچھاڑ میں کھڑے نہیں ہوتے بلکہ ان کے معذور بھی میدان جنگ میں لڑتے ہیں اور وہ بھی پتھر اٹھا کر دشمن کی طرف پھینکتے ہیں۔ جب قوموں میں یہ جذبہ بیدار ہوتا ہے تب تاریخ تبدیل ہونے کے لیے مجبور ہوجاتی ہے۔ میاں نواز شریف کسی کی بات سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ نہ تو وہ سندھ کے قدیم شعراء کا سمجھ بھرا سنگیت سنتے ہیںاور نہ وہ فلسطین کے لوگوں سے وطن کے ساتھ غیرمشروط وفا کا وعدہ عملی طور پر نبھانے کا منظر دیکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کا کتابوں سے واسطہ کم پڑتا ہے مگر کبھی اتفاق سے وہ فرانس کے عظیم مفکر روسو کی کتاب اپنے ہاتھ میں اٹھائیں اور ان الفاظ کی فال نکالیں کہ ’’وہ دماغ عظیم خیالات کو جنم نہیں دے سکتا جو دماغ صرف اپنے مفاد میں سوچتا ہے‘‘ دنیا کے سارے بڑے دل اور بلند دماغ اس بات کے حق میں گواہی دینگے کہ وطن سے محبت کاروبار کی طرح نہیں کی جاتی۔ اس میں نقصان اور فائدے کے متعلق نہیں سوچا جاتا۔ وطن سے محبت تو ایک غیرمشروط عمل ہے۔ مگر اس غیر مشروطیت کے لیے جس علم کی غیرت درکار ہے ؛ اس علم نے ہمیں اب تک چھوا بھی نہیں ہے۔ نہ معلوم کیوں بار بار اقبال کے شاہین افکار دل و دماغ پر محو پرواز ہو رہے ہیں؟ اقبال نے کیا خوب کہا تھا: لاؤں وہ تنکے کہاں سے آشیانے کے لیے بجلیاں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے لیے یہ افسوس کا مقام ہے کہ حب الوطنی میاں نواز شریف کے دروازے پر مسلسل دستک دے رہی ہے مگر نواز شریف دروازہ کھولنے کو راضی نہیں ہوتے۔