جاوید ہمارے دفتر کا ڈرائیور ہے،راولپنڈی میں پیر ودھائی کے پاس کسی کچی آبادی جیسے علاقے میں دو کمروں کے مکان میں اپنے چار بچوں،دکھوں کی ماری بیوی او رافلاس زدہ ماحول میں رہتا ہے۔ اس کا مدقوق چہرہ ، پچکے گال ، دھنسی ہوئی آنکھیں اورجھکے کاندھے اسے بنی ریاست کی ’’خوشحالی ‘‘ کی چلتی پھرتی تصویر بتاتے ہیں۔ا پنی پریشانیوں مشکلات کے باوجود جاوید وقت پردفتر پہنچتا ہے، چھٹی کے وقت اکثردفتر کے سامنے کھڑا ملتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ جاوید وقت پر چھٹی کرکے گھر کیوں نہیں جاتا، دفتر کے سامنے کھڑا کیوں ہوجاتا ہے؟مجھے اس سوال کا جواب کل اس وقت ملا جب جاوید نے مجھ سے لفٹ مانگی،اس نے لجاجت سے کہا ’’سر مجھے بھی ساتھ لے جائیں گے ؟‘‘ ’’ہاں ،ہاں کیوں نہیں ،آجاؤ لیکن تم تو پیر ودھائی کی طرف نہیں رہتے ؟ میں نے جاوید سے پوچھا ،اس نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ سر میں وہیں رہتا ہوں چھوٹا سا مکان کرائے پر لے رکھا ہے زندگی کے دن کاٹ رہا ہوں۔ ’’یار ! سب اسی امید پر اچھے دن کاٹ رہے ہیں کہ اچھے دن آئیں گے ‘‘میری بات پر جاوید نے تیزی سے کہاسر! جب تک مہنگائی کا عذاب ہمارے سروں پر بیٹھا ہے اچھے دن کیسے آسکتے ہیں ،اس نے تو ہمارا بیڑہ غرق کر دیا ہے ‘‘ میں نے مسکرا کر موڑ مڑتے ہوئے کہا’’یار !تمہیں تو یہ سب زہر لگے گا ہی تم نوازشریف کے پرستار جو ہو ‘‘میری بات پروہ کہنے لگا ’’سر جی ! نوازشریف میری پھپھی کا بیٹا تو نہیں ہے مجھے گزشتہ دور اس لئے اچھا لگتا ہے کہ اس کے دور میں ہم غریب عزت سے گزر بسر کر لیتے تھے سفید پوشی کا بھرم رہ جاتا تھا،یہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے ، اس دور میں گھی ایک سو اسی روپے کلو تھا ،اچھا والا دوسو دس کا ملتا تھا، آج ساڑھے تین سو روپے کا مل ر ہا ہے ،آٹے کا دس کلو کا تھیلا پانچ سو روپے میں لیتا تھا، آج ساڑھے سات سو کا مل رہا ہے، چینی کی قیمت ڈبل ہوگئی ہے ،پچپن ساٹھ روپے کی آتی تھی، آج ایک سو دس کی ہے، غریب دال سبزیاں ہی کھاتا ہے، کوئی بھی ہانڈی پکالیں، تین سو روپوں سے کم کی نہیں پڑتی اس حکومت نے تو ہمیں مار دیا ہے ‘‘۔ جاوید بتا نے لگا کہ اس کا بیٹا ایک نیوز چینل میں کیمرا مین تھا، چار چار مہینے تنخواہ نہیں ملتی تھی، ادھر ادھر سے پیسے پکڑ کر دفتر جاتا تھا بیگار کاٹ رہا تھا، تنگ آکر نوکری چھوڑدی سارا وزن مجھ پر آگیا ،بیس ہزار روپے تنخواہ میں بارہ ہزار تو کرائے کے نکل جاتے ہیں، پیچھے آٹھ ہزار میں بجلی گیس کے بل اور راشن کیسے پورا ہوسکتا ہے یہ میں جانتا ہوں اور میرا رب جانتا ہے۔ جاوید نے بتایا کہ اس پر تین لاکھ روپے کا قرضہ چڑھ چکا ہے ،پتہ نہیں کیسے اترے گا مجھے تو لگتا ہے میں ہی قبر میں اتر جاؤں گا یہ نہیں اترنے کا‘‘۔ میں نے جاوید کو حوصلہ دیا کہاکہ ایسی ناامیدی کی باتیں نہ کرے، یہ وقت بھی گزر جائے گا،میری بات پر جاوید نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا سر ! میں تو اٹھتے بیٹھتے حکومت کو بددعائیں دیتا ہوں ،ہمت جواب دے گئی ہے جوان بیٹی گھر پر ہے، اسکے ہاتھ پیلے کرنے ہیں اور یہاں روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔جاویدنے بتایا کہ کوئی دال میں پانی ڈال کر لمبا شوربا کرتا ہوگا، میری گھر والی سبزی میںگلاس بھر بھر کر پانی کے ڈالتی ہے ،میں چھٹی کے بعد دفتر کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہوں اور لفٹ لے لے کر گھر جاتا ہوںکہ کرایہ بچ جائے پیر ودھائی کی طرف کی کبھی کبھار ہی لفٹ ملتی ہے۔ عموما آئی نائن یا آئی ٹین تک جانے والے ساتھ بٹھالیتے ہیں ،پیچھے چار پانچ کلومیٹر کا سفر بچتا ہے وہ میں پیدل کر لیتا ہوں ،جاوید نے جلے بھنے انداز میں کہا کہ اس سے تو وہ وقت اچھا تھا،کم از کم دو وقت کی روٹی تو مل جاتی تھی۔ یہ ایک جاوید کے دل کی بھڑاس نہیں ہراس شخص کے جذبات کی ترجمانی ہے جو آج اسلامی جمہوریہ پاکستا ن میں رہ کر حق حلال سے کھانے کمانے کی کوشش کررہاہے ،مجھے یاد ہے کہ تین برس پہلے میرے گھر میں ماہانہ ساڑھے چار ہزار روپے ادویات آتی تھیں، اب آٹھ ہزار روپے کی آتی ہیں ،پہلے مہینے بھر کاخشک راشن دس سے بارہ ہزار روپوں میں آتا تھا اب سولہ سے سترہ ہزار روپوں میں آتا ہے اور اس میں آٹا، گوشت، انڈے، سبزیاں، دودھ وغیرہ شامل نہیں ،ا س ماہ میں نے بہت احتیاط کی اور بجلی کے یونٹس کو تین سو کا ہندسہ نہیں ٹاپنے دیا کہ تین سو یونٹس کے بعد بجلی کا نرخ بڑھ جاتا ہے۔ اس احتیاط کے نتیجے میں 297یونٹس بجلی خرچ ہوئی البتہ بل پانچ ہزار کے لگ بھگ آیا جبکہ تین برس پہلے اتنے یونٹس کا بل تقریبا تین ہزار روپے آتا تھا۔ سچ میں مہنگائی کسی بھیانک عفریت کی طرح عوام سے چمٹی ہوئی ہے، ایک ہفتے نیپرا بجلی کے نرخ بڑھانے کا اعلان کرتی ہے اور سبب جانے کس مہینے کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کا بتایا جاتا ہے تو دوسرے ہی ہفتے پٹرول کی قیمت اس ڈھٹائی کے ساتھ بڑھادی جاتی ہے کہ متعلقہ ادارے نے تو پانچ روپے لٹر بڑھانے کی سفارش کی تھی، لیکن حاتم کی قبر پر دو لتیاں جھاڑتے ہوئے چار روپے بڑھائے جارہے ہیںاس پر حکومتی وزراء کی ،بے شرمی ملاحظہ کیجئے کہ خطے کے ممالک سے تقابل کر رہے ہیں، جیسے کہہ رہے ہوں کہ ہماری قدرکرو ،ملنے کو نہیں نایاب ہیں ہم ،دنیا میں سب سے سستا پٹرول ہم دے رہے ہیں ۔۔۔علی امین گنڈاپور صاحب وزیر باتدبیرتو دور کی کوڑی لائے کہ کیا ہوا مہنگائی ہے، قوم و وطن کی خاطر دس لقمے کم کھا لئے جائیں ۔۔۔ اس قبیل اور اس نسل کی دانشوری پر گنڈاپور صاحب یقینا صدارتی تمغہ ء عقل و خرد کے مستحق قرار پاتے ہیں کہ جناب نے مہنگائی کا مسئلہ ہی حل کردیا ۔جناب کپتان صاحب کی کابینہ میں ایسے ایسے نگینے ہوں تو حبیب جالب کا یہ مصرع کیسے یاد نہ آئے۔ خاک میں مل گئے نگینے لوگ