جانے کس نحس گھڑی میں نے اس کالم کا نام شہر آشوب تجویز کیا تھا کہ آج تک رونے دھونے ہی میں وقت کٹ رہا ہے۔ تاہم جو حالات اب ہیں‘ ان کا کبھی تصور تک نہیں کیا تھا‘ یہ خیال بھی نہ آیا تھا کہ اتنی بڑی خلق خدا اناج کے دانے دانے کو ترسے گی۔ یہ جو اعداد و شماربتائے جاتے ہیں کہ دو کروڑ مزید پاکستانی غربت کی لکیر سے آگئے ہیں تو اپنے اردگرد کے حالات اور ماحول ہی سے اس کا یقین آ جاتا ہے۔ ایسے میں جب وزیر مشیر قسم کے بقراط منہ پھاڑ کر جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کسی نے کہا بے ساختہ اس نمک پاشی پر بددعائیں دینے کو جی چاہتا ہے۔ روپے کی قدر روز گرتی جا رہی ہے۔ ہمارے بقراط کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں مہنگائی ہے‘ اس لیے ہمارے ہاں بھی ہے۔ بار بار تجزیے ہوتے ہیں کہ پٹرول اب بھی ہمارے ہاں علاقے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں سستا ہے۔ کوئی یہ بتا دے خطے میں ڈالر ہمارے مقابلے میں کیا بھائو بکتا ہے۔ ہندوستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا تو چھوڑیئے افغانستان میں کرنسی کی قیمت ہم سے بہتر تھی۔ ابھی کسی نے اعداد و شمار دیئے ہیں کہ پچھلے ایک دو ماہ میں روپیہ ہمارے ہاں ڈالر کے مقابلے میں 12 فیصد سستا ہوا ۔ گزشتہ تین برسوں میں روپے کی جو بے قدری ہوئی اس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کہا گیا کہ اسحاق ڈار نے ڈالر کو مصنوعی طور پر کم قیمت رکھا تھا۔ اس سے ہماری برآمدات نہیں بڑھ رہی تھیں۔ تم نے سستا کردیا اب کتنی بڑھی ہیں۔ دو ایک ارب جو بجلی کا مسئلہ حل ہونے کے بعد ویسے بھی فطری طور پر بڑھتی۔ میں دوسرے حالات‘ عناصر نہیں گنوا رہا۔ دوسری طرف ہماری امپورٹ بڑھ گئیں جو اب ڈالر کی گرائی کی وجہ سے ہمیں مہنگی پڑ رہی ہیں۔ ہم نے امپورٹ کم کر کے اپنی شرح نمو کو کم کیا تھا۔ 5.8 فیصد کی شرح نمو کو اب سات فیصد سے اوپر ہونا تھا۔ یہ اس وقت پاکستانی دعوے کے مطابق گزشتہ برس 3.7 فیصد تھی اور اس سال اسے 4 فیصد سے اوپر ہونا تھا جبکہ عالمی اندازے بتاتے ہیں کہ اس سال یہ 2.9 فیصد ہو گی اور جس سال اس حکومت کا سایہ ہمارے سروں سے اٹھے گا تو اس سال 3.3 فیصد ہوگی۔ ایسے میں ہماری حکومت بتاتی ہے کہ ہمیں اب تیل‘ خوردنی تیل‘ گندم‘ چینی‘ دالیں سب باہر سے منگوانا پڑتی ہیں گویا تو ڈالر مہنگا کرنے سے ہماری برآمدات تو بڑھی نہیں مگر درآمدات کے بل میں اضافہ ہو گیا۔ ہم نے کیا کمایا؟ ترقی کی رفتار یعنی شرح نمو کم کردی۔ جس نے بے روزگاری میںاضافہ کیا۔ پہلے دیہاتوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی ہوتی تھی۔ اب گھروں میں کام کرنے والی عورتیں بتاتی ہیں کہ وہ واپس دیہات جا رہی ہیں۔ اس لیے کہ انہیں تو تھوڑا بہت کام مل جاتا ہے مگر ان کے مرد بے کار بیٹھے ہیں۔ ان کے لیے شہروں میں کوئی جاب نہیں۔ گھرجائیں گے تو بھوک پیاس میں گزارا کرلیں گے۔ یہاں تو گھروں کے کرائے اور بجلی کے بل بھی نہیں دیئے جاتے‘ بچوں کی تعلیم کی تو بات نہ کرو۔ ہم نے ڈالر مہنگا کر کے تباہی مچادی۔ اس وقت ہر چیز باہر سے منگوا رہے ہیں۔ ہم نے بھڑک ماری تھی کہ ہم نے تجارتی خسارہ کم کر دیا ہے‘ پرانی حکومت بہت چھوڑ کر گئی تھی۔ اس سال یہ خسارہ اتنی سختیوں اور مشکلوں کے باوجود 20 ارب ڈالر ہونے کا اندازہ تھا۔ اب آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ اس خسارے کو تقریباً نصف کرو یعنی ترقی کی رفتار کو بالکل روک دو۔ باہر سے تیل اور گیس بھی کم منگوائو اور خام مال بھی۔ اناج‘ چینی‘ دالیں ان کی تو بات ہی نہ کرو۔ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔ اس سے گزشتہ حکومت کیا بری تھی۔ اس نے اگر امپورٹ اور ایکسپورٹ میں فرق زیادہ کیا تھا تو ملک کو ترقی کی راہ پر تو ڈالا تھا۔ ملک میں انرجی اور لاجسٹک کے مسائل حل کئے‘ اب ملک ٹیک آف کرنے کو تھا کہ یہ لوگ آ گئے جنہوں نے آتے ہی ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ ایسی مہنگائی نہ دیکھی نہ سنی۔ ایسی غربت جس کا کوئی انت نہیں اور بیروزگاری ایسی کہ لوگ اپنے کام کی جگہوں سے بھاگ کر آبائی پناہ گاہوں میں جا رہے ہیں اور اس حکومت کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ مجھے اس پوری ٹیم میں ایک آدمی ایسا نظر نہیں آتا جو سلیقے کی بات کر رہا ہو۔ ہمارا سارا معاشی ٹبر امریکہ کے پائوں پڑنے گیا ہوا ہے۔مشیرخزانہ‘ سیکرٹری خزانہ‘ گورنر سٹیٹ بینک۔ ہم روز پٹرول، بجلی اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھاتے جا رہے ہیں اور ادھر سے ڈومور کا مطالبہ آتا جارہا ہے۔ اب کہتے ہیں نئے ٹیکس لگائو۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں مزید بڑھائو۔ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ یہی لوگ اگر بیجنگ جا کر یبٹھ جاتے اور ساتھ اپنے کسی سیانے بندے کو لے جاتے تو حالات مختلف ہوتے۔ شاید صرف آرمی چیف کی ضرورت پڑتی یا اپنی اس ایجنسی کے سربراہ کی جس کا تقرر اب تک نہیں ہوا کیونکہ اس حکومت نے چین کو بہت دھوکا دیا ہے۔ اب جبکہ کہا جارہا ہے کہ ریاست کی سطح پر یہ طے ہو گیا ہے یا طے ہو جائے گا کہ ہمارا سٹریٹجک پارٹنر اب چین ہے کیونکہ امریکہ نے اب کھل کھلا کر بھارت سے اپنے ایسے تعلقات کا اعلان کردیا ہے وہاں پائوں پڑنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ مگر کیا یہ حکومت ایسا کر پائے گی یا چین ان پر اعتبار کرے گا۔ آخر پاک چین تعلقات میں کھنڈت ڈالنے کا کام اسی حکومت ہی نے تو کیا ہے۔ سی پیک کو روک دیا‘ ہر سرکاری طوطا ایک ہی رٹ لگاتا تھا کہ اس میں کرپشن ہوئی ہے‘ ابھی جنگلے منصوبے لگائے گئے ہیں‘ اب ایم ایل ون کا منصوبہ کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ چینی فیکٹری نے قرض بھی منظور کر رکھا ہے۔ اب کیا اس لیے جاری نہیں ہورہا کہ چین کو پاکستان کی اس حکومت پر اعتماد نہیں یا پھر آئی ایم ایف کے صاف کہہ دیا ہے کہ آپ اتنا بڑا قرضہ نہیں لے سکتے۔ جب یہ حکومت آئی تھی تو دونوں آپشن کھلے تھے‘ آئی ایم ایف یا سی پیک۔ اس حکومت نے پہلے آپشن کو اختیار کیا۔ اب ایک ہی آپشن ہے اور وہ ہے سی پیک مگر کیا اس آپشن کو استعمال کرنا موجودہ حکومت کی استطاعت میں ہے۔ میں نے کہا اب ریاست کی سٹریٹجک حکمت عملی بدل رہی ہے۔ اس لیے کہا تھا کہ چین جاتے ہوئے فوج کے سربراہ اور اس کے اداروں کی ضرورت پڑے۔ مزید کیا کہوں۔ اتنا کہے دیتا ہوں اس حکومت کے بس میں اس وقت کچھ نہیں ہے۔