اسلام آباد(سہیل اقبال بھٹی)پاور ڈویژن نے مہنگی بجلی اور گردشی قرضے کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے جامع پلان وفاقی کابینہ میں پیش کردیا جسکے تحت سی پیک پاور پلانٹس کا 435ارب روپے پرنسپل قرضہ کی فوری ادائیگی کی بجائے آئندہ 13سال میں ادئیگی کی سفارش کردی گئی۔ وفاقی حکومت 11آئی پی پیز کو450ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ کی بجائے 150سے 200ارب روپے یکمشت ادا کرکے خریدلے ۔ 5ہزار500میگاواٹ کے پاورپلانٹس درآمدی کوئلے کی بجائے تھرکول پرمنتقل کرنے سمیت کئی اقدامات کی سفارش کی گئی۔ تمام ترحکومتی اقدامات کے باوجود گردشی قرضہ جون تک 2ہزار587ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔وفاقی کابینہ نے عوام پر کم سے کم بجلی ٹیرف کا بوجھ ڈالنے کی ہدایت کی ہے ۔ وفاقی کابینہ نے وزیر خزانہ اور معاون خصوصی پاور وپٹرولیم کو باہمی مشاورت کے بعد دوہفتوں میں حتمی رپورت جمع کروانے کی ہدایت کردی ۔92نیوز کوموصول دستاویز کے مطابق فرنس آئل سے چلنے والے 11آئی پی پیز غیر فعال ہیں ،ان آئی پی پیز کی پیداواری صلاحیت 3300میگاواٹ ہے ۔ان آئی پی پیز کو صلاحیت کے مقابلے میں صرف 5فیصد چلایا جارہا ہے ، پلانٹس کو کیپسٹی چارجز کی مد میں سالانہ 60ارب روپے ادا کئے جارہے ہیں۔ ان آئی پی پیز کے ممکنہ حل کے حوالے سے تجاویز کے مطابق تیل سے چلنے والے آئی پی پیز کو پی آئی بی اور سکوک کے ذریعے ڈسکاؤنٹ قیمت(150ارب،200ارب) پر جلد خاتمے یا آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت بقیہ 7سال کیلئے مجموعی کیپسٹی چارجز کی مد میں 450ارب روپے ادا کرنیکی تجویز دی گئی جس کے نتیجے میں صارفین کے ٹیرف سے 60پیسے فی یونٹ ٹیرف کم کرنے میں مدد ملے گی۔نئی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو شامل کرنے کیلئے ہوا اور سورج کی روشنی سے چلنے والی آئی پی پیز کی ہائبرڈ ماڈل کے تحت نیلامی کی جائے گی۔کوئلے سے چلنے والے اضافی پاور پلانٹ تعمیر نہیں کیے جائیں گے ، پہلے سے منظور شدہ اور زیر تعمیر 5500میگاواٹ د رآمد ی آئی پی پیز اور جامشورو1کو موجودہ تھر بلاک 1اور2کے کوئلے پر منتقل کیا جائے گا جسکے تحت صارفین کے ٹیرف میں ممکنہ کمی کی جا سکے گی، اس اقدام سے کوئلہ کی قیمت 50سے 60ڈالر فی ٹن سے کم ہو 30ڈالر فی ٹن ہوگی۔کوئلے کی قیمت کے فارمولے میں تبدیلی کیلئے حکومت سندھ کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں گے ۔ ڈسکوز کے انتظامات کیلئے تین آپشن زیر غور ہیں جس میں ڈسکوز کا موجودہ نظام چلنے ،نجی مینجمنٹ کنٹریکٹ اور پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت ڈسکوز کو صوبوں کے سپرد کرنے کے آپشن پر غور جاری ہے ۔وزیر اعظم کی جانب سے گزشتہ دور میں سائیوال میں کوئلے سے چلنے والے پلانٹ کی تنصیب کی توجیح پر سوال اٹھایاگیا کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے ملک میں بجلی کی طلب میں اضافہ کیوں ظاہر کیا گیاجس پر مشیر پٹرولیم کی جانب سے جواب دیا گیا کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے مالی فوائد کیلئے زیادہ سے زیادہ پاور پلانٹس کی تنصیب کی اجازت دی گئی۔ کابینہ رکن کی جانب سے کابینہ کو آگاہ کیا گیا کہ چینی سولرپینل تیارکرنیوالی کمپنیاں مقررہ سولر پینل کی خریداری کی شرط پر پاکستان میں منتقل ہونے کو تیار ہیں۔رکن کی جانب سے بلوچستان میں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کے حوالے سے چینی پیشکش قبول کرنے کی تجویز دی گئی۔وزیر خزانہ کی جانب سے گردشی قرضہ کے مینجمنٹ پلان پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا گیا۔وزیر خزانہ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ٹیرف میں مزید اضافے سے بجلی کی طلب میں کمی واقع ہوسکتی ہے جسکے باعث گردشی قرضے پر مزید منفی اثرات پڑنے کا اندیشہ ہے ۔