ایک اہم پریس کانفرنس کے ذریعے سیاست دانوں سے درخواست کی گئی ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ کچھ سیاسی نابالغ الٹا جلسے جلوسوں میں غیر سنجیدہ تبصرے کر رہے ہیں۔ وطنِ عزیز میں سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن اور اس کے نتیجے میں آنکھ مچولی روزِ اوّل سے جاری ہے۔اس الزام میں وزن ہونے کے باوجود کہ کئی مواقع پر فوجی سربراہوں نے اس عدم توازن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی حدود سے تجاوز کیا،وہیں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اکثر فوجی سربراہوں نے اپنی تعیناتی کے فوراََ بعد سویلین حکومتوںکے ساتھ تعاون کی کوشش کی ۔ تاہم وہ کیا محرکات تھے ، کیا اسباب تھے، دونوں اطراف کیا کمزوریاں تھیں کہ جن کی بنا پر چند ایک استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر، لگ بھگ تمام’ جمہوری‘ ادوار کے دوران اداروںکو سیاسی معاملات میں ملوث، جبکہ چار مواقع پر براہِ راست اقتدار سنبھالنا پڑا۔ محض بچگانہ رومان پرستی کے زیرِ اثر یا قبائلی نفرت سے لبریز ہو کر نہیں،علمی بنیادوں پرجواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی برٹش انڈین آرمی تقسیم ہوئی، تو ایک ساتھ نمو پانے والی دو آزاد ملکوں کی پیشہ ورافواج کچھ ہی عرصے بعد کشمیر کے پہاڑوں پر ایک دوسرے کے سامنے آن کھڑی ہوئیں۔ مشرقی اور مغربی سرحدوں پر منڈلاتے خطرات نے نوزائیدہ مملکت کو مجبور کیا کہ وہ اپنے بے حد محدود وسائل کو پہلی ترجیح میں مسلح افواج کو اپنے قدموںپر کھڑا کرنے کو استعمال میں لائے۔بوجہ ملک کی خارجہ پالیسی میں بھی مسلح افواج کا کردار غیر معمولی اہمیت اختیار کرتا چلا گیا۔ انڈین نیشنل کانگرس کی صورت میں جہاں بھارت کو زیرک و جہاندیدہ رہنمائوں پر مشتمل ایک قدیم سیاسی جماعت دستیاب تھی، تو وہیں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد امور مملکت اُن ٹوڈی سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آ گئے ، جن میں سے بیشتر تحریک پاکستان کے آخری مہینوںمیں مسلم لیگ کا حصہ بنے تھے۔ متروکہ املاک کی تقسیم اور مہاجرین کی آباد کاری میں بدعنوانیاں، خوراک میں ملاوٹ اورذخیرہ اندوزی کے علاوہ امپورٹ لائیسنسوں اور پرمٹوں کی سیاست نے بدعنوانی اور لوٹ مارکے ایک ایسے کلچر کی بنیاد رکھی جس کے ثمرات اب بھی ہماری رگوں میں دوڑتے ہیں۔1958ء میں قومی رہنمائوں کی باہم ریشہ دوانیوں اور اس کے نتیجے میں عوام کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی سے موقع شناس سول اور ملٹری بیورکریسی کے گٹھ جوڑ نے بھر پور فائدہ اٹھایا۔تاہم اس امر کے شواہد موجود ہیں کہ جنرل ایوب کے دل میں بھی سیاسی عزائم روز اول سے موجزن تھے۔ جنرل یحییٰ خان کا جنرل ایوب خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد آئین سے روگردانی کرتے ہوئے اقتدارسنبھالنا اور بعد ازاں اس سے چپکے رہنے کا بھی کوئی جواز تراشنا ممکن نہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا تو نئے آرمی چیف نے فوج کو سیاسی معاملات سے الگ کرتے ہوئے خالصتاَََ عسکریامور پر توجہ مرکوز کرنے کی پہلی بار شعوری کوشش کی۔جنرل گل حسن ایک پیشہ ورسپاہی تھے۔برسوں راولپنڈی میں ایک فوجی میس کے ایک کمرے میں بسر کیے۔ وہیں وفات پائی۔ انہیں کن حالات میں عہدے سے الگ کیا گیا،اس کی مہذب دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کی جانب سے سویلین حکومتوں کو بر طرف کئے جانے کو ناجائز قرار دیئے جانے کے باوجود ہر دو کیپسِ پشت محرکات پر متضاد آراء موجود ہیں۔تاہم مارشل لاء ادوارسے قطع نظر ہم یہ بات یقین سے دہرا سکتے ہیںکہ سویلین دور ِحکومت میں تعینات ہونے والے لگ بھگ ہر عسکری سربراہ نے اپنا عہدہ جمہوری حکومت کا ساتھ دینے اور سیاسی معاملات سے دوری اختیار کرنے کے عزم کے ساتھ سنبھالا۔ کئی سال پہلے جنرل آصف نواز نے بھی فوج کی کمان سنبھالتے ہی ادارے کو سیاسی معاملات سے الگ کرنے کا واضح اعلان کیا تھا۔پہلے ہیروز انہوں نے پاک فوج کے نام اپنا روائتی فرمان امروز (Order of the Day) جاری کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں زیرکمان افسروں اور جوانوں کو بتایا کہ فوج کو سیاسی معاملات میں ہرگز ملوث نہیں ہونا چاہیئے ۔یہ سویلین قیادت کے لئے بھی ایک متعینپیغام تھا۔ ایک طرف حکومت کی کشمیر پالیسی کی مکمل حمایت کی گئی تو دوسری طرفپاک بھارت افواج کے مابین روابط بحال کرتے ہوئے اس اعتراض کا مداوا کیا گیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی میں عسکری اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ ہے۔پاک امریکہ تعلقات کے اس پرآشوب دور میںامریکی فوج سے براہِ راست ادارہ جاتی مراسم بحال کئے گئے۔ اسلامی عسکریت پسندوں کی حمایت سے برات کی پالیسی اختیار کی گئی کہ پاکستان پردہشت گرد ریاست قرار دیئے جانے کے خطرات منڈلا رہے تھے۔ عسکری قیادت کی سیاسی معاملات سے دور ہٹنے اورعالمی معاملات میں سول حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کی شعوری کوشش کے برعکس، وزیراعظم نواز شریف اس وقت صدرمملکت کے پر کاٹنے کی پس پردہ کوششوں میں مصروف تھے۔مخصوص خاندانی پس منظر کی بناء پر نواز شریف سیاست میں بھی ’ لین دین‘ سے معاملات طے کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے’ٹرائیکا‘ میں شامل آرمی چیف کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے’ کام‘ کا آغاز کیا۔ لاہور میں ذاتی رہائش گاہ پروزیرِ اعظم کے والد نے آرمی چیف کو کھانے پر مدعو کیا تو اس موقع پر میاں شریف نے پنجابی میں اپنے دونوں بیٹوں کو جنرل آصف نواز کا ’چھوٹا بھائی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر انہیں دونوں بھائیوں سے کبھی کوئی شکایت ہو تو فوراََ انہیںآگاہ کریں۔ (لگ بھگ یہی الفاظ’اباجی‘ نے جنرل مشرف کو اسی کھانے کی میز پر کہے جب کارگل کے بعد سول اور عسکری قیات میں تنائو عروج پر تھا)۔سینڈ ہرسٹ کے تربیت یافتہ اور خالص فوجی ماحول میں پروان چڑھے، جنرل آصف نواز کے لئے یہ بے تکلفی حیران کر دینے والی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وزیراعظم نے آرمی چیف کو ناشتے کی غیر رسمی ملاقاتوں پر مدعو کرنے کو معمول بنالیا۔تاہم آرمی چیف سے مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے نظر نہ آئے تو وزیراعظم نے آرمی چیف سے بالا بالا دیگر جرنیلوں پر کام شروع کردیا۔ایک موقع پر وزیراعظم نے آرمی چیف سے فوجی افسروں کی ترقی کے معاملات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کچھ ان کے بھی ’بندوں‘ کا خیال رکھیں۔ تاہم اس دوران وزیرِ اعظم کی طرف سے کچھ فوجی افسروں کوبراہِ راست مراعات دینے کی اطلاعات آرمی چیف کو ملیں تو وہ الٹا برہم ہوئے۔خود آرمی چیف کو مری میں وزیراعظم کی طرف سے بیش قیمت کار کی چابی پیش کئے جانے کا واقعہ سب کے علم میںہے۔ سیاست سے لاتعلق رہنے پر مُصر آرمی چیف نے’ٹرائیکا‘ میں سویلین طاقت کے دوستونوں میں سے کسی ایک کی طرف جھکنے سے انکار کیا تو وزیرِ اعظم نے انہیں عہدے سے ہٹانے کے طریقے سوچنا شروع کر دیئے۔اس کی وجہ کئی سالوں بعد انہوں نے ایک انٹرویو میں یہ بتائی کہ آرمی چیف انہیں’ عزت‘ نہیںدیتے تھے۔ شریف خاندان کے خلاف بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور اقربا پروری کی شکایات میں برابر شدت اور اپوزیشن کی طرف سے آرمی چیف پر مداخلت کے لئے دبائو بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ جنوری 1993 میں جنرل آصف نواز اچانک انتقال نہ کر جاتے تو وہ کب تک سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھنے میں کامیاب رہتے۔ جنرل وحید کاکڑنے فوج کی کمان سنبھالی تو سیاسی عدم مداخلت کا عزم دہرایا۔ تاہم اس بعد کے واقعات اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاریخ مگر بار بار دہرایا جانے والا ایک ا لمیہ کھیل ہے جس میں پرانے کرداروں کے صرف چہرے بدلتے ہیں ۔