ہم شکی مزاج قوم ہیں۔ ہم ایسے تھے نہیں‘ ہمیں ایسا بنا دیا گیا ہے۔ چنانچہ اب ہم ہر قومی معاملے کو یہاں تک کہ اپنی تاریخ کو‘ اپنے ہیروز کو‘ ان کی زندگی اور موت اور دیگر واقعات و سانحات کو بھی شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سادہ سے معاملات میں بھی پرسراریت پیدا کردیتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ فریضہ عوام نہیں وہ افراد ادا کرتے ہیں جن کا شمار خواص میں ہوتا ہے اور جو محققین اور مؤرخین کہلاتے ہیں۔ ہمارے محبوب قائداعظم ہی کی زندگی کے وقت آخر کے واقعات کو لیجئے۔ کیسی کیسی کہانیاں اس بارے میں گھڑی گئی ہیں۔ کتابوں میں واقعات کو کیسے کیسے پراسرار رنگ میں رنگ دیا گیا۔ ان ہی واقعات کو جوڑ جاڑ کر اب نئے محققین اپنی تحقیق کا جادو جگا رہے ہیں۔ فیس بک‘ یو ٹیوب اور واٹس اپ پر ایسی تحریریں گشت کر کے ہمارے لاعلم لوگوں کو خصوصاً نوجوانوں کے ذہنوں کو متاثر کر رہی ہیں۔ وہ ایسی تحریروں کو پڑھ کے کیا سوچتے ہوں گے کہ ہم کیسی قوم ہیں جو اپنے سب سے بڑے محسن کی قدر نہ کرسکے۔ ان کے خلاف بھی سازش سے باز نہ آئے۔ کوئی اینکر صاحب ادھر ادھر سے پرانے اخبارات کے تراشے جمع کر کے قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں یہ انکشاف فرما دیتے ہیں کہ انہیں قتل کیا گیا تھا۔ حقیقت کا حال تو خدا ہی کو معلوم ہوگا۔ ہمارا سوال صرف اتنا ہے کہ ان انکشافات اور ایسے مباحث کا فائدہ؟ کیا قائداعظم کی پوری زندگی میں سیکھنے سکھانے کا فقط یہی پہلو رہ گیا ہے کہ ان کا آخری وقت کیسا گزرا؟ وہ جدوجہد وہ بے پناہ محنت و عزم‘ و جاں سپاری اور ایثار و قربانی جو نحیف و نزار جسم والے قائد نے اپنی قوم کے لیے کیا اور جو کچھ نصیحتیں اور اقوال اپنے پیچھے اپنی قوم کے لیے چھوڑ کر گئے‘ ان سب کو بھول بھلاکراب ہمارے پاس غوروفکر کے لیے بس یہی رہ گیا ہے کہ ان کی ایمبولینس ایئرپورٹ سے جاتے ہوئے رستے میں کیوں اور کیسے خراب ہو گئی‘ اس سازش میں کس کا ہاتھ تھا؟ یا قائد جب زیارت میں بیمار تھے تو کون کون ان کی عیادت کے لیے آیا اور قائد نے ان آنے والوں کے بارے میں فاطمہ جناح سے کیسے مایوس کن الفاظ کہے۔ یہ سب من گھڑت باتیں جنہیں میں نقل کرنا بھی پسند نہیں کرتا‘ آج کل نئے میڈیا پر گشت کر رہی ہیں۔ میرے پاس نہایت مضبوط دلائل ہیں جن سے میں ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرسکتا ہوں۔ مثلاً میں بتا سکتا ہوں کہ یہ واقعات جن کتابوں سے اخذ کئے گئے ہیں‘ وہ غیر مستند ہیں۔ مثلاً محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ ہی کو لیجئے جس میں اس طرح کے دو ایک واقعے کا تذکرہ ہے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ قائداعظم لیاقت علی خان سے خوش نہیں تھے اور عیادت کے لیے آنے والے لیاقت علیخان خدانخواستہ یہ دیکھنے کے لیے آئے تھے کہ قائد اور کتنے دن زندہ رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’مائی برادر‘‘ فاطمہ جناح نے خود نہیں لکھی تھی۔ جب ہیکٹر بولائتھو سے سرکاری سرپرستی میں قائداعظم کی سوانح عمری لکھوائی گئی تو اس میں بہت سے حقائق درج ہونے سے رہ گئے۔ فاطمہ جناح کو خیال ہوا کہ انہیں اپنے بھائی اور قوم کے محسن کی ایک مستند سوانح عمری لکھوانی چاہیے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے انہوں نے جی الانہ کا تعاون حاصل کیا۔ فاطمہ جناح بتاتی جاتی تھیں اور الانہ صاحب نوٹس لیتے جاتے تھے۔ لیکن یہ سلسلہ آگے نہ چل سکا۔ چار ابواب کے بعد ہی نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور یوں یہ سوانح عمری نامکمل ہی رہی۔ بعد میں جی الانہ نے قائداعظم کی سوانح عمری لکھی تو اس میں انہوں نے بہت سی ان معلومات کو بھی درج کردیا جو قائد کی ابتدائی زندگی کے بارے میں فاطمہ جناح نے انہیں لکھائی تھیں۔ ’’مائی برادر‘‘ کے چاروں ابواب کتابی شکل میں تب شائع ہوئے جب فاطمہ جناح کو دنیا سے گزرے ہوئے کم از کم پندرہ بیس سال بیت چکے تھے۔ گویا ’’مائی برادر‘‘ میں جو کچھ چھپا‘ اس کی منظوری اور سند فاطمہ جناح نے نہیں دی۔ کیونکہ اپنی حیات میں انہوں نے اس کتاب کو چھپوانا پسند ہی نہیں کیا۔ کیوں پسند نہیں کیا؟ سوانح عمری لکھوانے کا سلسلہ کیوں منقطع ہوگیا؟ اس پر کسی محقق نے غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔ لیاقت علی خان کے بارے میں ’’مائی برادر‘‘ میں جو کچھ لکھا گیا اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ فاطمہ جناح ان سے سخت ناراض اور بدظن تھیں جبکہ حقائق اس کی تردید کرتے ہیں۔ قائداعظم کی وفات کے بعد ان کی جائیداد اور ترکے کے لیے جو ٹرسٹ بنا لیاقت علی خان آخر وقت تک اس کے ٹرسٹی رہے۔ اگر فاطمہ جناح لیاقت علی خان سے ناراض یا بدظن ہوتیں تو کیا وہ قائد کے ٹرسٹ کے ٹرسٹی بن سکتے تھے؟ ڈان اخبار کے بانی قائداعظم تھے‘ ان کی وفات کے بعد لیاقت علی اس اخبار کے بھی ٹرسٹی رہے اور ایسا محترمہ جناح کے ایما پر اوران کی رضامندی سے ممکن ہوا تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جی الانہ کی لکھی ہوئی فاطمہ جناح کی کتاب ’’مائی برادر‘‘ میں لیاقت علی خان کے بارے میں قائداعظم کے ناپسندیدہ تاثرات کی حقیقت کیا ہے؟ اس کو جاننے کے لیے ہم نے قائداعظم اور تحریک پاکستان کے محقق جناب خواجہ رضی حیدر سے رابطہ کیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ جی الانہ وزیراعظم لیاقت علی خان سے نالاں و ناراض رہے کیونکہ الانہ صاحب کراچی کا میئر بننا چاہتے تھے۔ لیاقت علی خان نے ان کی خواہش کے برعکس حکیم احسن کو میئر کا امیدوار نامزد کردیا۔ یہ کینہ جی الانہ کے دل سے گیا نہیں۔ چنانچہ ’’مائی برادر‘‘ کے ذریعے انہوں نے لیاقت علی خاں سے اپنا بدلہ لے لیا۔ عجب نہیں کہ فاطمہ جناح نے مسودے کے چار ابواب پڑھ کراپنی بنا پر ان سے سوانح عمری لکھوانے کا ارادہ ترک کردیا ہو۔ میئر والے واقعے کے راوی کراچی کے بلدیاتی امور کے ماہر اور بزرگ مسلم لیگی خلیل غزنوی ہیں جنہیں دنیا سے گئے ہوئے ایک عرصہ ہو چکا ہے۔ قائداعظم اکادمی کے بانی ڈائریکٹر اور عالمی شہرت یافتہ محقق پروفیسر شریف المجاہد ان حقائق سے واقف تھے اسی لیے اکادمی نے جب ’’مائی برادر‘‘ پہلی بار چھاپی تو مذکورہ متنازعہ واقعات اس میں سے حذف کردیئے گئے۔ لیکن ایک پرائیویٹ پبلشر نے جب یہ کتاب شائع کی تو یہ بے بنیاد حقائق منظر عام پر آئے اور ایک سیدھا سادہ سا معاملہ پراسرار رنگ اختیار کرگیا۔ فاطمہ جناح کی زندگی میں قائد کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش کی کتاب ’’قائداعظم کے آخری ایام‘‘ شائع ہوئی جس میں صاف درج ہے کہ لیاقت علی خان‘ قائد کی عیادت کے لیے آئے تو ان کی حالت دیکھ کر نہایت پریشان اور مضطرب ہوئے۔ الٰہی بخش نے لکھا ہے کہ میں ان کی دل سوزی سے بہت متاثر ہوا۔ کیا اس کے بعد بھی ’’مائی برادر‘‘ کے مذکورہ حقائق قابل اعتبار رہ جاتے ہیں؟