پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے اعلان سے صوبے کے طول وعرض میں سیاست کا ایک نیا دور شروع ہوگیا ہے۔ اس سیاست کا مقصد جاگیریں اور جائیدادیں بنانا اور انکا تحفظ نہیں بلکہ یہ بنیادی حقوق کی جدوجہد ہے۔ لوگ تعلیم، صحت اور صاف پانی چاہتے ہیں اور بھوک ،بیماری سے نجات۔ ایسی معاشی ترقی چاہتے ہیں جو نہ صرف انکی زندگی میں آسودگی لائے بلکہ آنیوالی نسلیں بھی اس کا فائدہ اٹھائیں۔ جمہوریت کیا ہے، کیوں ہے، ریاست اور ادارے کیوں ضروری ہیں، یہ سوال انکے لیے تب تک بے معنی ہیں جب تک یہ جمہوریت انکی بنیادی ضروریات زندگی پوری نہ کرے۔ حکومتیں لاکھ غذائی اجناس کی ملک میں وافر موجودگی کا ڈھنڈورا پیٹتی رہیں ، اربوں روپے ڈیموں کی تعمیر خرچ کریں یا کیمیائی کھاد اور بیج کی فراہمی پر سبسڈی دیں، معاملہ یہی رہے گا کہ کیا لوگوں کے پاس اتنی قوت خرید ہے کہ وہ آٹا لے سکیں یا اگر ہے بھی تو کیا وہ تسلی رکھیں کہ یہ خالص بھی ہے یا نہیں۔مرکزیت کا خاتمہ اور اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی ہی ملک میں جمہوریت کی سند ہے۔ حقوق کی فراہمی کا معاملہ زیادہ دیر تک نہیں ٹالا جاسکتا کیونکہ اس فرض کی ادائیگی ہی میں ریاست کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا ہی کہہ لیں مقامی حکومتوں کا نظام اس صدی کے آغاز میں ہی پاکستان میں نافذ ہوگیا تھا، غربت اور بیماری کے گھن چکر میں پھنسے عوام کے لیے نیگ شگون تھا ، پورے دس سال نا فذ بھی رہا لیکن اس نظام اور اس طرز سیاست کی مخالف طاقتوں کو موقع ملا تو اسے مٹی میں ہی ملا ڈالا۔ جانے کیو ں جمہوریت کے تقدس پر مرمٹنے والی پارٹیاں بنیادی حقوق کی فراہمی میں کلیدی کردار کے حامل اس نظام میں بہتری لانے کی بجائے اس کے خاتمے پر ہی تل گئیں۔ سیاسی پارٹیوں کے اس عوام دشمن رویے سے ملک کو پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا بہت بڑا موقع ہی ضائع نہیں ہوا بلکہ اس نظام کو پہلے مفلوج اور پھر اپاہج کرکے آئین کی روح بھی زخمی کر دی گئی جو صوبوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ مرکز سے لیے گئے اختیا رات اور وسائل(صوبائی خود مختاری) سیاسی، معاشی اور انتظامی طور پر خود مختار اور منتخب مقامی حکومتوں کو منتقل کریں گے۔ نہ ہی صوبائی فنانس کمیشن بن سکے اور نہ ہی کوئی ڈھنگ کا نظام آسکا کہ صوبوں میں یکساں اور مساوی ترقی کا عمل شروع ہوسکے۔ مقامی حکومتوں کے انتخاب کا پہلا مرحلہ دسمبر میں طے پائے گا۔ دیہی (موضع) اور شہری (قصبہ ) کونسلوں کے ارکان کا چناو غیر جماعتی بنیادوں پر ہوگا۔ منتخب ارکان کی تعداد کا تعین آبادی کے لحاظ سے ہوگا، سب سے زیادہ ووٹ لینے والا چئیر مین ہوگا۔ فیصلے کمیونٹی کی سطح پر ہونگے، سرکاری فنڈ بھی ملیں گے اور اجتماعی مفاد میں ٹیکس بھی لگائے جاسکیں گے۔ حلقوں میں موجود بنیادی ضروریات (تعلیم ، صحت ، صفائی ، پانی) کی فراہمی کے سلسلے میں قائم سرکاری محکموں کی کارکردگی کی جانچ پڑتال ہوسکے گی اور معاملہ ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ ہوگا۔ قدرتی وسائل کے تحفظ اور انکی ترقی کے لیے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ مقامی حکومتیں اپنی علاقائی حدود میں جھگڑوں اور تنازعوں کو نمٹانے میں بھر پور کردار ادا کریں گی اور امن وامان کے قیام میں مدد گار ثابت ہونگی۔ تحصیل اور ضلع کی سطح کے انتخابات دوسرے مرحلے میں پارٹی سطح پر ہونگے لیکن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر۔ یعنی ووٹ نمائندے کی بجائے پارٹی کو پڑیں گے۔ چئیرمینوں کا انتخاب براہ راست ہوگا۔ یوں سیاسی پارٹیوں سے عوام کے ساتھ رابطے میں بہتری آئیگی۔ مجموعی طور پر ان پر دباو بڑھے گا کہ وہ چند خاندانوں کے مفاد کی بجائے اجتماعی مفاد میں قانون سازی کریں۔ جہاں تک وفاق کا معاملہ ہے ، اس کا دائرہ کار دفاع، کرنسی، تجارت، مواصلات تک محدود ہو گا۔ صوبے ہوں گے لیکن زیادہ تر معاملات مقامی سطح پر ہی حل ہوجائیں گے۔ پنجاب نے مقامی حکومتوں کے لیے ، فی الحال، بجٹ کا تیس فیصد مختص کیا ہے۔ یہ معاملہ ابھی کھلنا ہے کہ جب بنیادی خدمات کی فراہمی ضلع ، قصبہ اور شہر کی سطح پر ہوجائیگی تو باقی ستر فیصد بجٹ کس مد میں خرچ کیا جائیگا۔ افسر شاہی کو چلانے کیلئے یا پھر اشرافیہ کو رشوت دینے کے لیے۔ صوبائی سطح پر کونسے ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد ہوگا اور آیا ان کے ثمرات عام لوگوں تک بھی پہنچ پائیں گے یا نہیں۔ یہ سوالات اٹھیں گے ، حقیقی سیاست کی داغ بیل ڈلی ہے تو جواب بھی وقت کے ساتھ ساتھ ڈھونڈھ لیے جائیں گے۔ جہاں تک حکومت کے عزم کا تعلق ہے تو اس نے نہ صرف مقامی حکومتوں کے قانون کو آئین کی روح کے مطابق ڈھالا ہے بلکہ انتخابات کی راہ بھی ہموار کردی ہے۔ سپریم کورٹ صوبوں کو تیسری سطح کے نظام حکومت کے نفاذ کا پہلے ہی کہہ چکی ہے اور اس نے یہ معاملہ بنیادی حقوق سے جوڑا ہے۔یعنی یہ نظام ملک میں جمہوریت کی ساکھ کو مضبوط کر نے ، ملک میں پالیسی سازی کے عمل کو جمہوری رویوں کے تابع کرنے پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کی تکمیل کا راستہ ہموار کرنے کے لیے ضروری ہے۔ ملک میں تیسری سطح کے نظام حکومت کا نفاذ، حقیقی سیاست کا نقظہ آغاز بھی ہے۔ وسائل اور اختیارات کا ارتکاز اپنی بقا کے لیے بہت سے افسانے ، بیانیے اور نظریات تخلیق کرتا ہے جس سے لوگوں میں فکری اور سماجی انتشار پھیلتا ہے۔ غربت، بدحالی اور انتشار ، یاسیت، بے راہ روی اور تشدد کو پروان چڑھاتے ہیں۔ مرکزیت کے خاتمے اور نچلی سطح پر اختیارات اور وسائل کی منتقلی سے لوگوں کو بنیادی حقوق ملتے ہی ہیں توقوم پرستی اور فرقہ واریت کی دکانیں بھی بند ہوجاتی ہیں۔وفاق نے مرکزیت کے خاتمے کا فیصلہ اٹھارویں ترمیم کے ساتھ ہی کردیا تھا، صوبوں نے کوتاہی کی تو اسکا نتیجہ بھی انہوں نے دیکھ لیا۔ کورونا ، ٹڈی دل اور پھر سیلاب آئے تو عوام اور صوبائی مراکز میں چھپے حکمرانوں کے درمیان خلیج دنیا کے سامنے آگئی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں مقامی حکومتیں مفلوج جبکہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی نجی شعبہ کی حوالے رہی، شہر اور قصبے گندگی کے انبار تلے ڈوبے، صاف پانی کی فراہمی خواب ہی رہی۔ اب جب پانی سر سے گزرگیا ہے اور عوام کی فلاح وبہبود کے نام پر لیے گئے پیسے کے حساب کا وقت آگیا ہے ، روایتی الزام تراشیوں ،بہانے بازیوں اور گیدڑ بھبکیوں سے نہ تو احتساب کے عمل کو متاثر کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مقامی حکومت کے قیام سے متعلق آئینی تقاضوں کو۔