پاکستان میں کوویڈ 19( کورونا بیماری ) کا آغاز ہوتے ہی حکومت ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کرنے جیسا اقدام کرنے پر مجبور ہوگئی تاکہ طلباء و طالبات کو کورونا سے بچایا جائے اور اس بیماری کے پھیلاوکو روکا جا سکے۔ تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ بڑے غوروخوض کے بعد کیا گیا تھا۔ بلا شبہ سماجی دوری پیدا کرنے میں تعلیمی اداروں کی بندش ایک لحاظ سے عالمی سطح پر تسلیم شدہ اقدام ہے تاہم پوری قوم کو اس کی بڑی قیمت چکانا پڑی ہے۔ خاص طور پر ایسے غریب طلباء کی پڑھائی زیادہ متاثر ہوئی ہے جو دور دراز علاقوں میں ہونے کے باعث آن لائن تعلیم تک رسائی نہ کرسکے۔ مزید برآں کم اور اوسط آمدنی والے ہزاروں نجی سکولوں کی بقاء کو خطرہ تھا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ لاکھوںاساتذہ اور تعلیمی ماہرین کے روز گار بھی خطرہ سے دوچار تھے۔ نجی تعلیمی ادارے ملکی آبادی کے لیے تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے خلاء کو پر کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔اللہ کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان بھر میں کورونا بیماری کا زور خاطر خواہ حد تک ٹوٹ چکا ہے۔ حکومت بجا طور پر سمجھتی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے بچوں ، اساتذہ اور علمی ماہرین کی سکولوں ، کالجوںاور یونیورسٹیوں میں واپسی پرغور کریں۔ تعلیمی سلسلے میں محفوظ طور پر واپسی کے لیے ہمیں بڑی احتیاط سے منصوبہ بندی کرنا ہوگی اور ہمیںطلباء و کمیونٹی کے تعاون سے حکومتی لائحہ عمل پر مشترکہ عمل درآمد کی ضرورت ہوگی۔ تازہ ترین سائنسی شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹی عمر کے طلباء طالبات کو بالغوں کی نسبت کوویڈ19کے سنگین نتائج کا کم خطرہ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 20سال سے کم عمر بچوں کو انفیکشن لاحق ہونے کا امکان 20سال سے زائد عمر کے بالغوں کی نسبت نصف ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بچے انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں بیماری کی شدید علامات پیدا ہونے کا امکان کم اور دوسروں سے بیماری انفیکشن لاحق ہونے کا خطرہ 42فیصد کم ہوتا ہے جبکہ 18سال یا اس سے کم عمر کے نابالغ بچوں میں کوویڈ 19-وائرس 7فیصد سے بھی کم ہے۔اسی کٹیگری میں کوویڈ 19-سے ہونے والی ہلاکتیں 0.1فیصد سے بھی کم ہیں۔ تاہم ان میں بیماری شدت اختیار کرجانے کی مثالیں بھی بہت کم ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان کے تعلیمی اداروں میں 50ملین سے زائد کم عمر نوجوان ہیں جو کہ تین لاکھ سے زائد سکولوںمیں زیر تعلیم ہیں اور ان میں20ملین اساتذہ پڑھاتے ہیں۔ شخصی لحاظ سے سکولوں اور تعلیمی اداروں کا رول بڑا اہم ہے کیونکہ یہ سماجی اور جذباتی نشو و نما میں معاون ہیں جس سے تعلیمی اداروں میں سہولیات اور سیکھنے کا ماحول بنتا ہے جہاں نوجوان جسمانی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ ایسے میں ان تعلیمی اداروں میں آن لائن پڑھائی جیسی متبادل حکمت عملی کو نہیں اپنایا جاسکتا اور پڑھائی کا یہ اہم موقع دوبار نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ سکولوں کوطویل عرصہ سے بند رکھنا تشویش کا باعث ہے اور اس کا معاشرے کے ساتھ ساتھ افراد پر انفرادی طور پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ اس ضمن میں مغربی افریقہ میں ایبول وائرس کے پھیلنے کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں پر پرائمری جماعتوں کے طلباء سکولوں سے باہر ہوگئے اور وباء کے 6سال بعد بھی طلباء کو دوبارہ سکولوں میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ مزید برآں 6ماہ یا اس سے زائد عرصے تک سکولوں کی بندش سے تعلیمی شعبہ کی معاشیات متاثر ہوتی ہے جبکہ ہزاروں سستے سکول دیوالیہ ہوجانے کے خطرہ سے دوچار ہیں۔ اس کے علاوہ سکولوں میں داخلہ اور رسائی میں اونچ نیچ سے عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ طلباء خصوصاً طالبات 6 ماہ سے سکولوں میں نہیں جاسکیں جس کے باعث ان کے تعلیمی سلسلہ کے منقطع ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ تعلیمی اداروں کو مرحلہ وار کھولا جائے گا۔ پہلے ہمیں سکول جانے کی عمر والے بچوں سے آغاز کرنا ہوگا پھر طلباء وطالبات کو ہفتہ بھر کے مختلف دنوں میں شفٹوں کی صورت میں سکولوں میں لانا ہوگااور حالیہ تازہ ترین سائنسی اصولوں کے مطابق احتیاطی تدابیر اپنانا ہوںگی۔ جبکہ کلاسوں کا سائز بھی کم کرنا ہوگا۔ یعنی کلاس روم کے سائز کے مطابق طلباء کی تعداد کم کرنا ہوگی۔ ایسے تمام ممالک جنہوںنے تعلیمی ادارے دوبارہ کھولے ہیں وہاں وائرس انفیکشن کی موثر روک تھام کے لیے ہر ممکن اقدامات کو یقینی بنانا لازمی ہے اور ظاہر ہے کہ پاکستان کو بھی یہی کچھ کرنا ہوگا۔ تعلیمی ادارے کھلنے سے کوویڈ 19کے کیسز دوبارہ رونما ہونے کا امکان ہوسکتا ہے کیونکہ تعلیمی اداروں میں تین طرح کا منفرد ماحول ہوتا ہے جن میں اساتذہ، عملہ اورطلباء ہوتے ہیں جن سے وائرس کے پھیلاو کی صورتحال ہو سکتی ہے اور خدا نخواستہ وائرس کے دوبارہ پھیلاوکے باعث متاثرہ مقامی علاقہ میں تعلیمی اداروں کوپھر سے بند کرنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اگر چہ بچوں کو انفیکشن لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے تاہم اس کے باوجود بھی سکول جانے والے بچوں کو معمر اور بزرگ افراد کے ساتھ قریبی میل جول سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ معمر اور بزرگ افراد دیرینہ امراض میں مبتلا ہوتے ہیں جبکہ ان کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہوتا ہے جس کی وجہ سے انہیں کوویڈ 19وائرس کی شدید انفیکشن کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کی منتقلی اور پھیلاو کے خطرہ میں کمی لانے کے لیے حکومت نے اہم رہنماء اصول تجویز کردیئے ہیں جن میں مختلف عمر کے بچوں کے لیے تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھولنا اور بچوں پر اس کے اثرات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لینا، تعلیمی اداروں کے انفراسٹرکچر (تعمیراتی ڈھانچہ ، عملہ کی تربیت خاص طور پر ہاتھ دھونے کے لیے صابن اور صاف پانی کی فراہمی ، صاف ستھرے ٹائیلٹس اور ہینڈ سینیٹائزر کی سہولت کی فراہمی ، ڈیسکوں اور نشستوں کے درمیان 6فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے سماجی فاصلے کو یقینی بنانا ، کپڑے سے بنے ایسے فیس ماسک کا استعمال جن کو دھو کر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہو ، سکول ٹرانسپورٹ اورگراونڈز میں خصوصا ً وقفہ کے دوران رش سے اجتناب اور منتشر رہنے کو ترجیح دینا ، سکولوں میں ہونے والی صبح کی اسمبلی کو معطل رکھنا شامل ہیں۔اس کے علاوہ وائرس کی صورتحال کی مانیٹرنگ اور فوری فیصلہ سازی کے لیے ایک تناسب سے طلباء اور اساتذہ کے کورونا وائرس ٹیسٹ کرنا ہونگے تاکہ طلباء اور تعلیمی اداروں کو وائرس سے بچاو کو یقینی بنایا جاسکے۔ بچوں کی فلاح و بہبود و تحفظ اورانہیں بیماری سے بچانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جس کو صرف اساتذہ اور حکومت پر ہی نہیں چھوڑا جاسکتا بلکہ اس ضمن میں والدین اور اساتذہ کو اپنا اہم اور کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ مذکورہ بالا اقدامات کے عملی نفاذ کو یقینی بنایا جاسکے۔ والدین اپنے بچوں کو ہاتھ بار بار دھونے ، سماجی فاصلہ رکھنے اور فیس ماسک استعمال کرنے کی مسلسل آگاہی دیتے رہیں۔ والدین کو سکول انتظامیہ اور عملہ سے تعاون کرنا ہوگا اور کوویڈ 19 کی روک تھام کے لیے سکول پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔ ہمیں اس حقیقت کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہوگا کہ خطرہ ابھی تک موجود ہے۔ جسے والدین ، اساتذہ اور سکول انتظامیہ حکومتی راہنما اصولوں پرموثر عمل کرکے ٹال سکتے ہیں تاکہ تعلیمی اداروں میں جلد از جلد ایسا محفوظ ماحول پیدا ہوجائے جہاں ہمارے بچے وائرس سے بلا خوف وخطر تعلیم جاری رکھ سکیں۔ معاشرے کے تمام شعبے ، انفرادی سے لے کر اجتماعی اور حکومتی ادارے مل کر کوششیں کریں گے تو انشاء اللہ بہت جلد کوویڈ 19 پر قابو پا لیں گے۔