وزیر اعظم عمران خان نے مہنگائی کو حکومت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے‘ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے عوامی حلقے بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی نے مختلف شعبوں میں حکومت کی اچھی کارکردگی کو دھندلا دیا ہے۔وزیر اعظم عوام سے براہ راست رابطے کا کوئی طریقہ جب بھی آزماتے ہیں انہیں مہنگائی میں اضافے کی شکایت تواتر سے کی جاتی ہے۔ایسی شکایات پر وزیر اعظم کا ردعمل ہمدردانہ ہوتا ہے اور ان کی طرف سے یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ حالات بہتر کئے جائیں گے تاہم عوام دشمن عناصر کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ وزیر اعظم کے احکامات کے باوجود بعض اوقات اصلاح احوال ممکن نہیں ہوپاتا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کم از کم خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہے۔وطن عزیز میں ہر سال اس قدر گندم پیدا ہوتی ہے کہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں تک کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔پاکستان بہت سی گندم پیدا کرنے کے باوجود ہر سال آٹے اور گندم کے بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔اس بحران کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی پہلے سے زیادہ مشکل ہو جاتی ہے۔سرکاری محکموں کی ٹیمیں فلور ملز اور نجی گوداموں پر چھاپے مارتی ہیں‘اس سے مزید شکایات سامنے آتی ہیں‘حکومت کی ساکھ خراب ہوتی اور اپوزیشن کو تنقید کا موقع ملتا ہے۔ تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اسے ان کاروباری مافیاز کے عدم تعاون کا سامنا کرنا پڑا جو سابق حکومتوں میں برسر اقتدار شخصیات کے ساتھ مل کر عوام کا استحصال کرتے رہے۔ایسے گروپوں کو وزیراعظم ایک مافیا کانام دیتے ہیں۔گزشتہ برس کورونا وبا کی وجہ سے پوری دنیا میں لاک ڈائون نافذ ہوا تو صنعتی عمل رک گیا‘بڑی چھوٹی ٹرانسپورٹ کا پہیہ تھم گیا۔ہفتوں تک ٹرانسپورٹ اور کارخانے بند رہنے سے تیل کی طلب میں کمی واقع ہوئی۔نوبت یہاں تک آ گئی کہ امریکہ کی تیل کمپنیوں کے پاس آرڈر شدہ تیل کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ رہی۔ تیل کی بین الاقوامی مارکیٹ میں طلب کم ہونے کے اثرات پاکستان میں بھی ظاہر ہوئے۔تیل کی قیمتیں 104روپے فی لیٹر سے کم ہونے لگیں‘ہر معاملے میں طلب و رسد کو قیمتوں کے تعین کی بنیاد قرار دینے والی کمپنیاں اور کاروباری ادارے اس وقت بے حس اور سفاک بن گئے جب انہوں نے حکومت کے مقرر کردہ نرخ 75روپے فی لٹر پر تیل فروخ کرنے سے انکار کر دیا۔صرف انکار ہی نہیں کیا بلکہ جب پوری دنیا میں تیل بے قدر ہو رہا تھا پاکستان میں اس کی قیمتیں بڑھانے کا مطالبہ کر دیا گیا۔ بات پٹرولیم مصنوعات اور لاک ڈائون کے ایام سے آگے بڑھی ہے۔پچھلے چند ہفتوں میں ایل پی جی کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوئیں۔ایل پی جی کے نرخ دوگنا ہو چکے ہیں۔ سبزیوں‘دالوں‘ گھی اور دوسری کچن آئٹمز کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو گھریلو بجٹ بری طرح متاثر ہوتا ہے۔حکومت کے ذیلی ادارے ہر روز ایسی قومی و بین الاقوامی رپورٹس شائع کرتے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کی نسبت زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے معاملے میں سستا ہے۔ممکن ہے کسی حسابی کلیے سے یہ بات درست ہو لیکن اجناس‘گھی‘ چینی‘ آٹا کے معاملات کچھ اور صورتحال بتاتے ہیں۔رواں برس عیدالفطر کے موقع پر مرغی کا گوشت 550روپے فی کلو فی فروخت ہوا۔بڑا گوشت ساڑھے چھ سے سات سو روپے فی کلو میں فروخت ہوتا رہا۔ٹماٹر اور پیاز کے نرخ بھی سرکاری ہدایت کی نسبت زیادہ دیکھے گئے۔مہنگائی کی ایک وجہ اشیا کی قلت میں اضافہ ہوتا ہے۔پاکستان میں پیداوار زیادہ ہونے کے باوجود قیمتیں بڑھ رہی ہیں‘اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ جو ادارے پیداوار کا تخمینہ لگانے‘ قیمتوں کا تعین و کنٹرول رکھنے اور سپلائی کے عمل کی نگرانی پر مامور ہیں وہ اپنا کام نیک نیتی سے انجام نہیں دے رہے۔سرکاری عمال اور حکومتی مشینری اس دیہاڑی دار اور عام آدمی کی مدد کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہیں جس کے لئے وزیر اعظم درد مندی کا اظہار کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کے لئے پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کا اہتمام بلاشک ایک قابل قدر اقدام ہے۔ انتہائی نچلی سطح پر زندگی کی گاڑی کھینچنے والوں کو اس سے کچھ آسانی ملی ہے‘ کم از کم بھیک کا ڈر نہیں رہا لیکن اس سفید پوش طبقے کی امیدیں ابھی تک پوری نہیں ہو سکیں جو اپنا سماجی بھرم رکھنے کے لئے اپنے مالی اور معاشی مسائل پر بات نہیں کر سکتا۔چکن سے لے کر دالوں تک اور چینی سے لے کر پٹرولیم تک ہر چیز کے نرخ بڑھ چکے ہیں‘بجلی کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔پانی کا بل جو پہلے تین ماہ بعد آتا تھا اب ہر ماہ وصول کیا جاتا ہے۔ مہنگائی کو کم کرنے کے لئے اب تک حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں وہ موثر اور مسلسل نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے کارگر ثابت نہیں ہوئے۔پرائس کنٹرول کا کام کلی طور پر اسسٹنٹ کمشنر اور مجسٹریٹوں پر چھوڑ دیا گیا ہے جنہیں بہت سے دیگر ضروری امور نمٹانے کی ڈیوٹی بھی تفویض کی جاتی ہے۔بطور حکومتی جماعت تحریک انصاف اپنے کارکنوں سے انتظامی امور میں اس لئے مدد نہیں لے رہی کہ کرپشن کا خدشہ ہے۔معاملات میں ایک بگاڑ ہے جو طغیانی کے ایام میں نہری شگاف جیسا بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لئے تمام متعلقہ اداروں کو ایک جگہ بٹھا کر حکمت عملی ترتیب دے‘مقررہ نرخوں پر اشیا کی فروخت کے لئے چھوٹے دکانداروں پر سختی کرنے کی بجائے ہول سیلر اور مینو فیکچرر کی باز پرس کی جائے۔ جب تک سرکاری ادارے اپنی حکمت عملی کو نقائص سے پاک نہیں کرتے مہنگائی کا عفریت موجود رہے گا۔