وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارتی طیاروں کی دراندازی کا جواب مناسب وقت اور مقام پر دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کیا گیا کہ اس کے طیاروں نے آزاد کشمیر یا پاکستانی حدود میں عسکریت پسندوں کے کسی کیمپ کو تباہ کیا یا اس حملے میں ہلاکتیں ہوئیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے جس میں بھارت کی جارحیت کے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کی کوششوں پر مشاورت کی جائے گی۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر دفاع‘ وزیر خارجہ ‘ آرمی چیف اور دیگر حکومتی و عسکری حکام نے شرکت کی۔ کمیٹی نے طے کیا کہ پاکستان اس معاملے کو او آئی سی، دوست ممالک اور اقوام متحدہ میں فوری طور پر اٹھائے گا۔ پلوامہ میں خودکش حملے کے بعد بھارت نے جس طرح الزام تراشی اور اشتعال انگیزی کا سلسلہ شروع کیا اس سے لگ رہا تھا کہ مودی حکومت اس واقعہ کو سیاسی فوائد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے احتیاطی تدابیر کے طور پر سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ کو ساری صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بھارتی الزام تراشی کے مضمرات سے باخبر کیا۔ بھارت پلوامہ حملے کو پاکستان کی کارروائی قرار دے کر اپنے انتہا پسند حلقوں کے جذبات کو بھڑکا رہا ہے۔ پاکستان نے اس موقع پر ایک طرف اپنی پوزیشن واضح کی اور دوسری طرف تحریک آزادی کشمیر کے خالصتاً کشمیری ہاتھوں میں ہونے کی بات کی۔ ان کوششوں پر عالمی برادری کا نقطہ نظر پاکستان کے حوالے سے بہت مثبت رہا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے جب پلوامہ حملے کی مذمتی قرار داد سلامتی کونسل میں پیش کی اور پاکستان کو دہشت گردی کے ساتھ ملوث کرتے ہوئے اس کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی تو سلامتی کونسل نے ایساکرنے سے انکار کر دیا۔ سلامتی کونسل نے اس قرار داد میں سے ناصرف پاکستان کا نام شامل کرنے سے انکار کیا بلکہ پلوامہ حملے کو دہشت گردانہ کارروائی کی بجائے صرف خود کش حملہ لکھا۔ عالمی برادری کی جانب سے بھارتی موقف مسترد ہونے کے بعد بھارتی طیاروں کی ایل او سی اور انٹرنیشنل بارڈر پر دراندازی اور یہاں پے لوڈ گرانا بین الاقوامی قوانین اور سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ جارحانہ اقدام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بھارتی طیاروں کی آزاد کشمیر اور پاکستانی حدود میں پرواز کا دورانیہ نہائت مختصر رہا۔ بھارتی حکام دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس کارروائی کے دوران پلوامہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنیوالی تنظیم جیش محمد کا کیمپ تباہ کر دیا گیا اور اس کیمپ میں موجود عسکریت پسند بڑی تعداد میں مارے گئے۔ بھارت کی طرف سے مرنے والوں میں مولانا مسعود اظہر کا قریبی عزیز یوسف اظہر بھی بتایا جا رہا ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ نے اس کارروائی کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لئے پریس بریفنگ کی مگر جونہی صحافیوں نے ان سے کارروائی کی تفصیل جاننا چاہی وہ بریفنگ چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔ یوں بھارتی حکام یہ بتانے میں ناکام رہے کہ یہ کارروائی کس کے خلاف تھی اور اس کے نتائج کیا رہے۔ اس کارروائی کا ایک وقتی فائدہ نریندر مودی کی حکومت کو ضرور ہوا ہے کہ ان کے حامی میڈیا ادارے اسے ان کی دلیری کا مظاہرہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بھارتی کارروائی کا فوری جواب دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان لوگوں میں وہ بھی شامل ہیں جو ملک کی محبت میں ایسا کہہ رہے ہیں تاہم ان لوگوں کو الگ کر کے دیکھنے کی ضرورت ہے جو صرف اس لئے بھارت سے جنگ کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ معاشی و انتظامی بحران سے مقابلہ کرنے کی بجائے پی ٹی آئی حکومت جنگی معاملات میں الجھ کر رہ جائے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج ہر طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ پاک فوج اس صلاحیت کا مظاہرہ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سوویت یونین سے مقابلے‘ اقوام متحدہ کے امن دستوں کے ذریعے اور پاک بھارت جنگوں میں متعدد بار دکھا چکی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان دو ٹوک انداز میں پہلے ہی بھارت کو انتباہ کر چکے ہیں۔ حسد اور دشمنی کی آگ میں جلتا ہوا بھارت خود اپنے لئے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ دشمن جیسا چاہتا ہو اسی طرح کا ردعمل ظاہر کیا جائے۔ بھارت مسلسل غلطیاں کر رہا ہے۔ افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے معاملات میں بھارت نے ایسی غلطیاں کی ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو اپنی سیاسی و سفارتی تنہائی کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ آج بھارت کے متعدد دانشور اور سیاسی حلقے یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ پاکستان نے خارجہ محاذ پر گزشتہ چند ماہ کے دوران اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ دنیا یہ مان رہی ہے کہ بھارت کشمیر کی صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہو چکا ہے اور کشمیری اب بھارت کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں۔ یہ بہترین موقع ہے جب پاکستان بھارت کی جانب سے فضائی حدود کی خلاف ورزی‘ جارحیت اور پاکستانی فوجیوں پر حملوں کے واقعات عالمی برادری کے سامنے لا کر بھارت کی امن پسندی کوبے نقاب کر سکتا ہے۔بقول ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور بھارتی طیاروں کی جارحیت کا جواب یقینا دیاجائے گا اور بہادر افواج یہ جانتی ہیں کہ انہیں کس طرح اور کب دشمن کو جواب دینا ہے۔ بس ہماری پارلیمنٹ اور اداروں کو اس موقع پر متحد رہنا ہے۔ سیاست اور ذاتی الزامات کا سلسلہ پھر کسی وقت پر اٹھایا جا سکتا ہے۔ ابھی پوری قوم کو کسی نئے بحران سے دانشمندی کے ساتھ بچنے پر توجہ دینا ہو گی۔