پنجاب حکومت نے مزارات کی تعمیر وتوسیع اوران کی تزئین وآرائش اور بالخصوص حضر ت داتا گنج بخشؒ کے مزار مقدسہ کے بیرونی ماحول کو بہتر بنانے کے لیے، گزشتہ دنوں وزیرا علیٰ پنجاب کی زیرِ صدارت ایک خصوصی اجلاس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے،جن میں بطور خاص حضرت داتا صاحب ؒ کے۔۔دربار کے ارد گرد ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے اورپید ل آنے والے زائرین کے لیے راستے مخصوص کرنے کا اہتمام بھی قابلِ ذکر ہے،بالکل اسی طرح ،جس طرح اگر آپ قونیہ جائیں،توآپ کو مولانا رومؒ کے مزار کا پورا علاقہ ٹریفک سے پاک،اور پیدل آنے والے زائرین سے معمور نظر آتا ہے ۔اسی کے ساتھ داتاؒ دربار سے منسلک ایریا میں گرین بیلٹ اور پارک کا قیام،اور بیسمنٹ میں پارکنگ اور وہاں سے بذریعہ لفٹ زائرین کی مزارشریف پر حاضری کا اہتمام کیا جائے گا ۔ نیز جدید ٹوائیلٹس کا ایک وسیع بلاک بھی تعمیر ہوگا ۔ اس کے ساتھ دیگر مزارات،جن میں پاکپتن میں حضرت بابا صاحب ؒ اور لاہو رمیں حضرت بی بی پاکدامنؒ اور حضر ت موج دریابخاریؒ کے مزارات کی تعمیر وتزئین کے گراں قدر منصوبوں کا بھی جائز ہ لیا گیا۔ یہ اہم فیصلے ایسے مرحلے پر ہوئے،جب لاہو ر میں حضرت داتا گنج بخشؒ کے 977ویں سالانہ عرس کے موقع پر،سہ روزہ عالمی کانفرنس کا افتتاح ہونے کو تھا،جس میں دنیا بھر کے ہجویریات کے ماہرین اور نامور یونیورسٹیز کے مسند نشین موجود تھے ۔ ہر شعبہ کا ایک اپنا دائرہ کار اور زاویۂ فکر وعمل ہوتا ہے ،جس میں اس کو خاص دسترس اور اختیار میسر ہوتا ہے ، اپنی اُن توانائیوں اور وسائل کو اپنی ممدوح شخصیت کی بار گاہ میں از راہِ محبت پیش کرنا ،یہی اس وابستگی کا صحیح تقاضہ بھی ہے اور عقیدت کا اظہار بھی۔جس کے لیے پنجاب حکومت کے اقدامات یقینا لائق تحسین ہیں،اسی طرح سہ روزہ عالمی کانفرنس کے موقع پر جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے،اپنی یونیورسٹی میں’’علی ہجویری ؒ ریسرچ چیئر ‘‘کا اعلان کرتے ہوئے،اس کو ایک ماہ میں فعال بنانے کا عندیہ دیا ، مزید براں انہوں نے سہ روزہ عالمی کانفرنس کے ایک سیشن کو جی سی یونیورسٹی کے ’’بخاری آڈیٹوریم‘‘میں منعقد کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ۔یقینا یہ ایک بہت بڑی انائونسمنٹ ہے،اوربلاشبہ ایسے فیصلوں اور اقدامات کے سیاسی،سماجی،مذہبی،تہذیبی اور معاشی سطح پر بڑے دُور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں،جن کا جائزہ سرِ دست ہمارا موضوع نہیں ہے۔ لاہور اور اس کے صوفیاء سے محبت کرنے والے تاجداروں کی فہرست میں داراشکوہ کا نام بھی بڑا معروف اور معتبر ہے،دارا شکوہ،شاہجہان کا سب سے بڑا بیٹا 20مارچ1615ء کو ممتاز محل کے بطن سے پیدا ہوا ،ایک مدت تک شاہجہان کے ہاں بیٹیاں پید ا ہوتی رہیں ، اُسے اولادِ نرینہ کی بڑی خواہش تھی ،چنانچہ اس نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی در گاہِ عالیہ پر حاضر ہو کر دُعا کی اورمنت مانی ۔ دارا شکوہ کی ولادت اجمیر ہی میں ہوئی ، اس کو لاہور سے محبت اور حضر ت میاں میرؒ سے از حد عقیدت تھی ، آپ ؒکے مقبرے کے لیے خصوصی طور پر ایسی شاہراہ کی تیاری ،اس کے منصوبہ جات کا حصہ تھی ،جس پر وہ برہنہ پا ، چل کر حضرتؒ کے مقبرے پر حاضری کی سعادت کا خواہاں رہا، اسی طرح اس کی تصنیفات میں’’سفینۃ الاولیاء ‘‘اہم ہے ،جس میں اس نے بالخصوص لاہو رمیں حضرت داتا صاحب ؒ کے مزار کا محل وقوع اور بالخصوص آپؒ کی اُس مسجد کا بھی ذکر کیا ہے ،جس کے محراب پر مقامی آبادی کی طرف سے کچھ اعتراضات وارد ہوگئے،حضرت داتا صاحبؒ نے معترضین کو مسجد میں آنے کی دعوت دی، اور دورانِ نماز ،آپؒ کی برکت سے آپؒ کے مقتدیوں کے قلب ونظر سے حجاب اُٹھ گئے اور انہوںنے بالمشافہ بچشمِ ظاہر خانہ کعبہ کی زیارت کی ،اوریوں آپ ؒ نے اہالیانِ پنجاب کی زندگیوں کے رُخ سیدھے کردیئے ۔ہزار سال پہلے وقوع پذیر ہونے والے اس واقعہ کی یاد گار آج بھی داتاؒ دربا ر میں محفوظ ہے ۔ آپ ؒ کے ساتھ ،آپؒ کے درویشوں کی جماعت میںآپؒ کے معتمد ساتھی حضرت ابو سعید ہجویریؒ اور احمد حماد سرخسیؒ کی قبور ،آپؒ کے مزار اقدس کے حجرہ میں آپ ؒ کے دائیں اور بائیں موجود ہیں ۔ آپؒ نے کشف المحجوب اسی طالبِ حق ، ابو سعید ہجویریؒ کے سوالات کے جواب ہی میں تحریر فرمائی ۔کمال علمی ملکہ تھا ، کہ آپؒ نے اپنے ساتھی کے چند اشکال رفع کرنے کے لیے ، ایک ایسی وقیع اور عظیم کتاب تحریر فرما دی ،جو رہتی دنیاتک متلاشیانِ حق کے لیے راہنمائی اورراہبری کا فریضہ سرانجام دیتی رہے گی ۔ آپؒ نے اس صحیفۂ تصوّف میں متعدد جگہ ابو سعید ہجویریؒ کا ذکر کرکے اس کو بھی ہمیشہ کے لیے امر کردیا ۔ابھی چند روز قبل صحافیوں کی جب ایک ٹیم داتاؒدربار میں رپورٹنگ اورحاضری کے لیے موجود تھی ، تو ان کی ہمراہی میں’’فاروق احمد لینارڈ انگلستانی‘‘کی قبر پر بھی جانے کا موقع میسر آیا ،جو بنیادی طور پر انگریز تھے،لندن میں پُر تعیش زندگی گزار رہے تھے ،کیمبرج کے سکالر، نِکلسن نے 1911ء میں کشف المحجوب کا انگریزی ترجمہ کیا ، تو اہل مغرب کو حضرت داتا صاحبؒ کے افکار سے آگاہی میسر آئی۔ فاروق لینارڈ اورآپ کے بھائی کی کشف المحجوب کے مطالعہ سے دنیا ہی بدل گئی اور وہ جو خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ نے فرمایا تھا کہ کشف المحجوب کا مطالعہ راہنمائی اور راہبری کے حوالے سے پیر کامل کے درجے اور مقام کا حامل ہے ، کی عملی تصویر دنیا نے دیکھی ،دونوں بھائی اسلام کی دولت اورنعمت سے بہرہ مندہوئے ،اسلام قبول کرنے کے بعد ، بڑے بھائی شاہ شہید اللہ فریدی کے نام سے معروف ہوئے اور اس کے ماننے والے’’شہیدی ‘‘کی نسبت سے آج بھی خود کو آراستہ کرتے ہیں ، فاروق لینارڈ جوکہ 28فروری 1913ء کو لندن میں پیداہوئے تھے ، ستمبر 1936ء میںاسلام قبول کیا ،اور13فروری 1945ء کو دارِ فانی سے کوچ کرگئے اور حضرت داتا صاحبؒ کی درگاہ کے احاطہ میں دفن ہونے کا اعزاز پایا ، کم وبیش پچاس سال بعد ، اسّی کی دہائی میں ،جب مسجد کی توسیع کا کام جاری تھا ،آپؒ کی قبر ظاہرہوگئی ،مجھے اس وقت کے، مسجد کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا ، کہ میں کام کی نگرانی میں مصروف تھا کہ اچانک آپؒ کے جسدِ خاکی کو دیکھا ،جو پائو ں کی طرف سے مٹی پھٹ جانے کے سبب، ظاہر ہوئے تھے ، پچاس سال گزر جانے کے باوجود جسم صحیح حالت میں تھا ،چنانچہ ان کی از سر نو تدفین کا اہتمام ہوا ، جوا ب ایگزیکٹو بلاک کے ساتھ ،ایک کمرے میں موجود ہے ، جس کے ساتھ ایک اور قبر،بھی ہے جس پر آئی ۔یو۔خاں ،سابق چیئرمین وفاقی پبلک سروس کمیشن کی لوحِ مزا ر اور کتبہ کندہ ہے۔ یہ ایریا مزار شریف کی سطح سے کافی نیچا ہے ،در اصل یہ ٹیلہ اور پھر دریا کا کنارہ تھا ۔ حضرت داتا صاحبؒ کی قبرِ انور ٹیلے، یعنی بلندی پر ہے، اس ایریے کو باغیچی بھی کہتے ہیں ،جہاں انتہائی دراز قامت کھجور کے تین درخت ،اس سارے ماحول کو ممتا ز کررہے ہیں۔