ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ پاکستان میں ایک حکمران ہوا کرتے تھے۔ نام تھا ان کا ضیاء الحق۔ انہیں کچھ فوبیاز لاحق تھے۔ افغانستان میں اسلامی حکومت ہونا چاہیے۔ اسلامی بھی ان گروپس پر مشتمل جنہیں ’’ہماری‘‘ حمایت حاصل ہو۔ ان کی اس خواہش کی قیمت پاکستان نے کہاں کہاں ادا کی؟ وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے مگر یہ کہانی پھر سہی۔ آج اس مردِ مومن مردِ حق کے ایک اور فوبیا کا ذکر کرتے ہی۔ بھٹو فوبیا … اس وقت یہ پیپلز پارٹی نہ تھی … فریال تالپور اور شرجیل میمن والی جعلی پیپلز پارٹی بلکہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو، نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو والی پیپلز پارٹی تھی۔ سندھ تو سندھ پنجاب بھی یہ محسوس کرتا تھا کہ جنرل صاحب نے بھٹو کو پھانسی کے گھاٹ اتار کر اچھا نہیں کیا۔ بڑے بڑے نامی گرامی سرکاری افسران کے گھروں میں بھٹو کا ذکر بڑے دکھ اور تاسف سے ہوتا تھا۔ ہر بیک ڈور حکمران کی طرح ضیاء صاحب کو بھی اپنی سیاسی Legtimacy کی فکر تھی۔ عوام کے دل بھٹو کے ساتھ تھے اور تخت پر ضیاء الحق تھے۔ زمین پر سیاسی قالین کیسے تبدیل ہو؟ پنجاب کے گورنر جنرل غلام جیلانی تھے۔ ان کے ایک دوست بریگیڈیئر قیوم تھے۔ مشترک برادری کے پلیٹ فارم پر میاں شریف صاحب بریگیڈیئر قیوم صاحب سے رابطے میں رہتے تھے۔ میاں شریف بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن کے ڈسے ہوئے تھے۔ اس آڑے وقت میں اگر میاں اظہر ان کی طرف مدد کا ہاتھ نہ بڑھاتے تو شاید مشکلات میں کمی نہ آتی۔ بریگیڈیئر قیوم صاحب … میاں شریف صاحب اور ان کے خوبرو نوجوان بیٹے نواز شریف سے خاصے متاثر تھے۔ بنیادی برین اور حکمت عملی بریگیڈیئر قیوم اور میاں شریف صاحب کی تھی۔ ایسے میں شریف فیملی کے ہینڈ سم بیٹے کو گورنر غلام جیلانی صاحب سے ملوایا گیا اور درخواست کی گئی کہ اس پر دست شفقت رکھیں۔ جنڈیالہ شیر کے گورنر غلام جیلانی صاحب اور شریف خاندان کے تعلق کی کہانی خاصی لمبی ہے … مختصر یہ کہ فیصلہ کیا گیا کہ بھٹو خاندان کے ڈسے ہوئے شریف خاندان کے خوبرو بیٹے نواز شریف کو حکومت کا حصہ بنادیا جائے۔ جنرل غلام جیلانی کی کابینہ میں نواز شریف بطور وزیر خزانہ داخل ہوگئے۔ کابینہ کے ایک اور رکن حامد ناصر چٹھہ کو خاصا رنج ہوا مگر میاں شریف صاحب کی حکمت عملی کا مقابلہ حامد ناصر کے بس کی بات نہ تھی۔ الیکشن 1985ء کے بعد محمد خان جونیجو کے گرو پیر آف پگاڑو نے اپنے برادرِ نسبتی صاحبزادہ حسن محمود صاحب کو وزیر اعلیٰ بنانے کی کوشش کی مگر میاں شریف … پیر آف پگاڑو سے بھی زیادہ سمارٹ نکلے اور گورنر غلام جیلانی کے ذریعے ضیاء الحق کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ پنجاب کا سہرا نواز شریف کے سر پر بندھے گا۔ اس لمبی کہانی میں غلام حیدر وائیں سے میاں اظہر تک اور چودھری پرویز الٰہی سے میاں شہباز شریف تک بے شمار کہانیاں ہیں، بہت سی سازشیں ہیں، کئی سیزر ہیں اور بروٹس بھی۔ مگر ہمیں صرف ایک ہی کردار کا ذکر کرنا ہے جس کا نا ہے میاں اظہر … سابق گورنر پنجاب۔ میاں اظہر کو گورنر پنجاب شریف خاندان نے ہی بنایا۔ شاید میاں شریف صاحب کہیں میاں اظہر کا وہ احسان چکانا چاہتے تھے جو کبھی میاں اظہر نے کیا تھا۔ تقریباً 1993ء کے قرب و جوار کی بات ہے نواز شریف کے ذرائع نے انہیں ٹپ کرنا شروع کیا کہ میاں اظہر ان قوتوں سے رابطے میں آرہے ہیں جو میاں نواز شریف کی سرپرست ہیں۔ تعلقات کے شیشے میں بال آگیا۔ میاں اظہر اپنے ذاتی حلقوں میں شریف خاندان کے متعلق جو "PUNCHING" کہانیاں بیان کرتے ہیں وہ حیرت اور آگہی کا سبب بنتی ہیں۔ میاں اظہر نے پنجاب کی گورنری چھوڑی اور تعلقات میں دراڑ آگئی۔ وقت تھوڑا سا اور آگے بڑھا اور 1999ء آگیا۔ پرویز مشرف نے بقول مشاہد حسین صاحب شریفوں کے اقتدار کا ’’کڑاکا‘‘ نکال دیا۔ جنرل ضیاء کی طرح … جنرل مشرف کو اقتدار میں آتے ہی اپنی ’’جائزیت‘‘ کے لیے ایک سیاسی پارٹی کی تلاش تھی۔ نظر انتخاب اس جماعت پر پڑی جس کا ایک نعرہ خواجہ سعد رفیق اکثر اپنے جلسے میں لگواتے ہیں ’’پاکستان بنایا تھا … پاکستان بچائیں گے‘‘۔ مسلم لیگ پاکستان کو ایک اور بحران سے بچانے کے لیے ایک قدم اور آگے بڑھ گئی۔ مشرف مسلم لیگ کو ہائی جیک کرنا چاہتے تھے بذریعہ میاں اظہر۔ سیاسی رومانس یک طرفہ نہ تھا۔ میاں اظہر بھی صد فی صد تیار تھے۔ الیکشن 2002ء ہوئے اور گجرات کے چودھریوں نے ایسا روڈ کٹ مارا کہ میاں اظہر اپنا الیکشن ہار گئے۔ چودھریوں کی جیت اور میاں اظہر کی ہار کا اپنا پس منظر اور کہانی ہے۔ اس ہار اور جیت نے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا اور چودھری آف گجرات، ان کے ایف سی کالج کے دوست طارق عزیز اور مشرف باہم شیر و شکر ہوگئے۔ اپنی اپنی ضرورتوں کے مطابق۔ اس میکائولین سیاسی شکست نے میاں اظہر کو سیاست سے آئوٹ کردیا اور وہ تنہائی میں بیٹھ کر … دوستوں سے مل کر اکثر یہ سوچتے کہ شریف زیادہ کائیاں تھے یا چودھری زیادہ کاریگر۔ شریفوں کا عہد پانامہ نے ختم کردیا … الیکشن 2018ء میں ان کے عہد کا شباب ختم ہوا … اِک عذاب ختم ہوا۔ اس الیکشن سے پہلے پارٹیاں اپنے اپنے ٹکٹ تقسیم کررہی تھیں۔ پولیٹیکل سٹاک ایکسچینج میں تحریک انصاف کی ٹکٹ کا ریٹ سب سے ہائی تھا۔ لاہور کے ایک حلقے میں مہر واجد نے خاصی سرمایہ کاری کر رکھی تھی مگر میاں اظہر اس مرتبہ کوئی غلطی کرنے کے موڈ میں نہ تھے۔ وہ نہ صرف اپنے بیٹے حماد اظہر کے لیے محفوظ حلقہ چاہتے تھے بلکہ اس کی وزارت کے بھی خواہش مند تھے۔ مہرواجد کو اس سے اگلے حلقے میں شفٹ کردیا گیا۔ حماد اظہر کو تحریک انصاف کا قومی اسمبلی کا ٹکٹ من چاہی جگہ سے مل گیا۔ مہرواجد کثیر رقم اور بے تحاشہ وقت خرچنے کے باوجود ہار گئے کہ اس حلقے میں نون کی برتری قبل از الیکشن ہی واضح تھی۔ حماد اظہر قومی اسمبلی میں پہنچ کر وزارت خزانہ کے نمبر ٹو بن گئے۔ نمبر ون پہلے اسد عمر تھے اور اب حفیظ شیخ ہیں۔ بجٹ پیش کرنے کا ہما حماد اظہر کے سر پر رکھا گیا کہ اس بجٹ کے خالق ہونے کے باوجود حفیظ شیخ عوام کے منتخب نہیں ہیں۔ قومی اسمبلی کے تمام اجلاسوں میں حماد اظہر بار بار شہباز شریف کو ہٹ کر رہے تھے۔ بلند آواز میں چور چور کی تکرار اور یلغار کر رہے تھے؟ کیوں؟ پنڈت کہتے ہیں کہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر یہ سیٹ اپ نہیں بھی چلتا تو کوئی بات نہیں۔ آئندہ بھی اگر آپ شریفوں کو کائونٹر کرنا چاہتے ہیں تو میری خدمات حاصل کریں۔ تقسیم شدہ اپوزیشن اور بٹی ہوئی مسلم لیگ (ن) کے سامنے حماد اظہر جو کررہے ہیں وہ کچھ ایسی جرأت اور دلیری بھی نہیں کہ ان کے سر پر چھتری بھی ہے اور وہ کوئی انقلابی بھی نہیں۔