یکم فروری کو مائی اَنما (جسے پہلے برما کہا جاتا تھا)کی فوج نے آنگ سان سُوچی کی نگرانی میں چلنے والی سویلین حکومت کو معزول کرکے اقتدار سنبھال لیا ہے۔اس ملک کی تاریخ میںفوج کا اہم مقام ہے۔یہ وہی فوج ہے جس کی بنیاد سوچی کے والد آنگ سان نے انیس سو چالیس کی دہائی میں جاپان کی مدد سے آزادی پسند مسلح گروہ کے طور پر رکھی تھی۔ اسی فوج نے برما کو1948 میں برطانیہ کی غلامی سے نجات دلوائی تھی۔ مائی انما کی فوج کو ملک کی سلامتی اور اتحاد کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔بنگلہ دیش اور انڈیا کے مشرق میں واقع مائی اَنما بدھ مت ماننے والوں کی اکثریت کا ملک ہے۔ اسکی آبادی ساڑھے 5 کروڑ ہے۔ اکثریت برمی زبان بولتی ہے۔ رنگون سب سے بڑا شہر ہے لیکن دارالحکومت ’نے پی ٹاؤ‘ہے۔ستّر فیصد آبادی برمی نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ تیس فیصد آبادی آٹھ دس بڑے نسلی گروہوں پر مشتمل ہے۔ برمی اور بدھ قوم پرستی بہت مضبوط ہے۔ ملک میں درجن سے زیادہ مسلح گروہ ہیں۔ فوج نے اس دن اقتدار پر قبضہ کیا جس دن مائی اَنما کی نومنتخب پارلیمان کا پہلا اجلاس منعقد ہونا تھا۔ فوج کا مطالبہ تھا کہ یہ اجلاس کچھ عرصہ کے لیے مؤخر کیا جائے کیونکہ گزشتہ نومبر میں ہونے والے جنرل الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ اسکے مطابق انتخابات میں ڈالے گئے پچیس فیصد ووٹ جعلی تھے۔ا س نے ووٹر فہرستوں کا جائزہ لیا تو ان میں ایک کروڑ سے زیادہ اغلاط تھیں۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ پندرہ لاکھ اقلیتوں کو ووٹ کے حق سے محروم کردیا گیا تھا۔تاہم مائی اَنما کے الیکشن کمیشن نے انتخابات میںفراڈکے الزامات مسترد کردیے تھے۔فوج کا مطالبہ نہیں مانا گیا تواس نے ملک کے صدر اور سٹیٹ قونصلر آنگ سان سُوچی سمیت حکمران جماعت کے بڑے رہنماؤں کو حراست میں لیکر نائب صدر کو صدر کے عہدہ پر فائز کردیا ۔نئے صدرنے سارے انتظامی اختیارات فوجی سربراہ مِن آنگ لائنگ کو سونپ دیے۔ ابھی تک مائی اَنما میں فوجی بغاوت کے خلاف کوئی عوامی احتجاج نہیں ہوا۔ البتہ فوجی حکومت نے انٹرنیٹ اور سماجی میڈیا پر جزوی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔ مائی اَنما کی فوج ملک کا بہت طاقتور اور خود مختار ادارہ ہے۔اس نے ملک کے آزاد ہونے کے بعد تقریباً نصف صدی تک بلاشرکت غیرے حکومت کی۔کان کنی‘ تیل‘ گیس کی صنعتیں مکمل طور پر اسکے ہاتھ میں ہیں۔یہ اپنے بجٹ کیلیے سویلین حکومت کی محتاج نہیں۔ آئین کے تحت دفاع اور داخلہ کی وزارتیں فوج کے پاس ہوتی ہیں۔انیس سو اٹھاسی میں بنائے گئے موجودہ آئین کے تحت بھی ملک کی پارلیمان کی ایک چوتھائی نشستیںحاضر سروس فوجی افسروں کیلیے مختص ہیں۔عوام میںپچہتر سالہ آنگ سان سُوچی بظاہر بہت مقبول ہیں لیکن فوج کو آنگ سان سوچی پر بالکل اعتماد نہیں ہے۔ وہ انہیں سخت ناپسند کرتی ہے اور کسی اہم سیاسی عہدہ پر براجمان نہیں دیکھنا چاہتی۔آنگ سان سوچی نے سٹیٹ قونصلر کا عہدہ تخلیق کرکے انتظامی اختیارات سنبھالے ہوئے تھے کیونکہ ملک کے آئین کے مطابق وہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کی اہل نہیں تھیں۔ مائی اَنماکا دستور کہتا ہے کہ کوئی شخص جوخود یا اسکے بیوی بچے کسی دوسرے ملک کے شہری ہوں صدر نہیں بن سکتا۔ صدر بننے کے لیے ضروری ہے کہ اس شخص نے ماضی میں فوج میں خدمات انجام دی ہوں۔ آنگ سان سوچی کے دو لڑکے برطانوی شہری ہیں۔ فوج کا اندازہ تھا کہ عام انتخابات میں اسکی حمایت یافتہ پارٹی ‘ یونین سالیڈیریٹی اور ڈویلپمینٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی)‘کو ڈیڑھ پونے دو سو سیٹیںمل جائیںگی تووہ پارلیمان کے رکن فوجی افسروں کو ملا کر حکومت بنا لے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہُوا۔ اسکی حمایت یافتہ جماعت کو صرف تینتیس نشستوں پر کامیابی ملی۔ یہ تاثر غلط ہے کہ مائی اَنما میں سوچی کی حکومت چین کے تعاون سے ہٹائی گئی ہے۔ انکے تو چین سے بہت قریبی تعلقات تھے۔ جب فوج نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا تو سوچی نے اس کا دفاع کرتے ہوئے اس بات کو ماننے سے ہی انکار کردیا تھاکہ فوج نے زیادتیاں کی ہیں۔ اس معاملہ پر عالمی برادری کی پابندیوں سے بچنے کی خاطر انہوں نے چین سے قربت بڑھائی۔انکے دور حکومت میںچین نے مائی اَنما میں بھاری سرمایہ کاری کی۔تاہم چین کسی ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا۔اب فوج اقتدار میں آئی ہے تو چین نے اسکی مذمت نہیں کی بلکہ اقوام متحدہ میں اس اقدام کی مذمت میں جو قرارداد پیش کی گئی چین نے اسے ویٹو کردیا۔ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے مائی اَنما میںجمہوریت کی بحالی او ر گرفتار سیاسی رہنماوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن امریکہ بھی مائی اَنما پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے سوچے گا کہ کہیںاسکے روّیہ کے باعث فوجی حکومت چین سے مزید قریب نہ ہوجائے۔ مائی اَنما کی طویل شمالی سرحد چین سے لگتی ہے۔ مائی اَنما کی حکومت سے تعلقات رکھنا امریکہ کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ انڈیا نے بھی مائی اَنما میں جمہوریت کی بحالی کے لیے آواز بلند کی ہے۔ مائی اَنما کی مغربی سرحد انڈیا سے متصل ہے۔ لیکن انڈیا بھی فوجی اقتدار کے خلاف عملی اقدام نہیں کرسکتا کیونکہ مائی اَنما کی فوج انڈیا کی فوج کی بہت مدد کرتی ہے۔ انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں میں آزادی کی جو تحریکیں چل رہی ہیں انہیں کچلنے کی خاطر انڈیا کی فوج مائی اَنما کی فوج کا سہارا لیتی ہے۔ انڈیا ایک بڑی سڑک کے منصوبہ پر کام کررہا ہے جو انڈیا کومائی اَنما اور اس کے مشرق میںواقع تھائی لینڈ سے منسلک کردے گی ۔ یہ سڑک انڈیا کوآسیان علاقائی تنظیم کے رکن ممالک سے زمینی طور پر جوڑ دے گا۔ انڈیا مائی اَنما میں گہرے پانی کی بندرگاہ پر ایک معاشی زون بنانے پر بھی کام کررہا ہے۔ فوجی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ ایک سال تک نئے عام انتخابات کرواکرا قتدار اُس منتخب پارٹی کو منتقل کردے گی جو جمہوری معیار پر پورا اترتی ہو۔ اس بیان میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ فوج یہ سمجھتی ہے کہ آنگ سوچی کی پارٹی این ایل ڈی اسکے جمہوری معیا ر پر پورا نہیں اُترتی۔اگرمائی اَنما کے عوام فوجی حکومت کے خلاف سخت احتجاج نہیں کرتے تو اس بات کا امکان نہیں ہے کہ فوج آنگ سان سوچی کی پارٹی کومستقبل قریب میں حکومت میں آنے کا موقع دے گی۔