جرمن ادیب تھامس مین نے لکھا ہے کہ فاشزم کے دور میں ایسے ناجائز الفاظ پیدا ہوتے ہیں جو ہر جائز لفظ سے ان کا حقیقی مقام چھین لیتے ہیں۔ آپ سب کہ سکتے ہیں کہ موجودہ دور کو کسی بھی طرح فاشزم کا دور نہیں کہا جا سکتا۔ اگر یہ دور فاشسٹ نہیں ہے تو پھر اس دور میں ایسے نئے الفاظ کیوں جنم لے رہے ہیں جو پرانے الفاظ سے ان کی حقیقی معنی اور مقام چھیننے کی کوشش کر تے ہیں۔ ایک سندھی شاعر نے کیا خوب لکھا ہے کہ : ’’تم اگر آؤ تو ہیں رات کے راستے بہت ویسے تو ہر قدم پر موجود ہیں خطرے بہت پیار ہی اک لفظ ہے پہلا اور آخری یوں اگر سنو تو پھر ہیں الفاظ بے معنی بہت‘‘ بہت سارے الفاظ ایسے ہیں جن کی لغت میں ایک معنی ہیں مگر عملی طور پر دنیا میں ان کی معنی تبدیل ہوچکی ہیں۔ ان بہت سارے مظلوم الفاظ میں ایک لفظ ہراسمینٹ بھی ہے۔ اس لفظ پر سب سے پہلے قدغن انگریزی زبان میں لگی۔ یہ لفظ ویسے بھی انگریزی کا ہے۔ انگریز معاشرے میں اس جامع لفظ کو بہت سکیڑ اسے جنسیت تک محدود کیا گیا۔ آج اگر آپ ’’ہراسمینٹ‘‘ کا لفظ استعمال کریں گے تو سننے والا اس کو ’’جنسی‘‘ معنی میں ہی لے گا۔ حالانکہ ہراسمینٹ کی بہت ساری اقسام ہے۔ سب سے بڑی اور سب سے قابل نفرت ہراسمینٹ تو طاقت کی ہوا کرتی ہے۔ جب بھی کوئی طاقتور فرد یا طاقتور گروہ یا طاقتور قوم کسی کمزور فرد؛ کمزور گروہ یا کمزور قوم کو کسی طرح سے ڈرانے کی کوشش کرتی ہے یا اس کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ عمل صریحا ہراسمینمٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہراسمینٹ کا عمل نیا نہیں ہے۔ ہراسمینٹ کا عمل بہت پرانا ہے۔ اس لیے یہ لفظ بھی عمل کی طرح قدیم ہے مگر اس دور میں اس لفظ کو صنف نازک تک محدود کردیا گیا ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ عورت کو مضبوط نہ بنایا جائے مگر ہم صرف یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کے لیے مرد کو تختہ ستم بنانا ختم کیا جائے۔ ہم یہ بھی ماننے کے لیے تیار ہیں کہ مرد کی سانس آنکھوں میں موجود رہتی ہے مگر آپ کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ عورت کی آخری سانس اس کے زبان میں ہوا کرتی ہے۔ اس لیے یہ درست نہیں ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کو آنکھوں سے ہراساں کر سکتا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کو زبان سے بھی ہراسمینٹ کا نشانہ بنا سکتا ہے۔ہراسمنٹ سیاسی‘ سماجی‘ اقتصادی اور فوجی بھی ہوا کرتی ہے۔ جب امریکہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو کیا ہم اس حقیقت سے آشنا نہیں ہوتے کہ امریکہ عالمی سطح پر دنیا کا سب سے بڑا ہراساں کرنے والا ملک ہے۔ مگر ہراسگی کی دیگر اشکال کی پردہ پوشی کرنے کے لیے اس لفظ کو جنسی حوالے تک محدود کیا گیا ہے۔ میں عورت کی آزادی کا مخالف نہیں ہوں مگر یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اگر عورت باہر نکلے گی تو پھر اس کے ساتھ اس قسم کے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ ان واقعات سے بچنے کے لیے بہت سارے طریقے موجود ہیں مگر ان طریقوں کو کبھی بھی بحث کا موضوع نہیں بنایا جاتا۔ امریکی فوج میں موجود خواتین کی طرف سے بہت بڑی شکایت سامنے آئی تھی کہ انہیں مرد فوجی ساتھیوں اور خاص طور پر افسران سے جنسی ہراسگی کی شکایت ہے۔ اس کے بعد مغربی معاشرے میں دفاتر میں کام کرنے والی خواتین نے اپنے باسز پر ہراسمینٹ کا الزام عائد کیا۔ اس کے بعد کھیل کے شعبے میں موجود لڑکیوں نے شکایت کی کہ انہیں ان کے کوچز کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔ مغربی معاشرے میں ایسا کوئی شعبہ نہیں جہاں خواتین نے مردوں پر ہراسمینٹ کا الزام نہ لگایا ہو۔ مغرب عورت سے خاندانی تحفظ اور معاشرتی مقام لیکر اسے بدلے میں جو دیتا ہے وہ تعلیم کے بعد اعتماد ہوا کرتا ہے۔ یہ مغربی عورت کا اعتماد ہے جس اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ سمندروں کی گہرائی میں اترتی ہے۔ جس اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ خلا میں جاتی ہے۔ جس اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ دور دراز کے ممالک کا سفر کرتی ہیں اور اپنی مرضی کا کام کرتی ہیں۔ مگر ان خواتین کو بھی ہراسمینٹ کی شکایت رہتی ہے۔ اس کی مثال حالیہ دنوں میں امریکی خاتون سنتھیا رچی کی طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر ہراسمینٹ کے الزامات عائد کرنا ہیں۔ جب ایک آزاد عورت بھی ہراسمینٹ کا شکار ہو سکتی ہے تو پھر عام عورت کا تحفظ بہت بڑا سوال بن کر سامنے آجاتا ہے۔امریکہ میں شوبز کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کو بھی جنسی ہراسمینٹ کی شکایت رہی ہے۔ جب ڈونالڈ ٹرمپ امریکی صدر بننے کے لیے آخری مرحلہ طے کر رہا تھا اس وقت بہت ساری خواتین نے ان پر ہراسمینٹ کا الزام عائد کیا۔ ان الزامات کا کیا ہوا؟ ڈونالڈ ٹرمپ ان الزامات کے حوالے سے اس آزمائش سے نہیں گذرے جس آزمائش سے امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن مونیکا کیس میں گزرے تھے۔ ٹرمپ اس وقت بھی بھرپور اعتماد سے ایک بار پھر صدر بننے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وہ صدر بن پائیں گے یا نہیں؟ اس وقت کا اہم سوال یہ نہیں۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب میں اس قسم کے الزامات لگنے کے بعد بھی بندہ صدر بن جاتا ہے اور ایک بار نہیں وہ دوسری بار کی بھی کوشش کرتا ہے۔اگر یہ سب کچھ چل رہا ہے تو پھر ’’می ٹو‘‘ نامی مہم کی اہمیت کیا بچتی ہے؟پاکستان کا مڈل کلاسی معاشرہ آخر کب تک مغرب اور مغرب کے بعد بھارت کے بالی ووڈ سے مرعوب رہ کر ان مہمات کا ساتھ دے گا جو می ٹو Me Too کے نام سے چل پڑتی ہیں۔ اس قسم کی مہم کی کون سی منزل ہوتی ہے؟ جس معاشرے میں عورت محفوظ نہیں وہ معاشرہ غیر محفوظ ہے۔ مگر اس ضمن میں علامہ اقبال کا یہ اشعار بہت قابل غور ہیں جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ : ’’اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند اس راز کو عورت کی بصیر ت ہی کرے فاش مجبور ہیں‘ معذور ہیں‘ مردانِ خرد مند کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند؟‘‘ ہراسمینٹ کا مسئلہ عورت کی آزادی اوراس کے بننے سنورنے والے حق سے جڑا ہوا ہے۔ ہم اس کو الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت ہم بہت پریشان اور پشیمان ہوجاتے ہیں ہم ہمارے تعلیمی اداروں سے ہراسمینٹ کی شکایات آنے لگتی ہے۔ اگر یہ مسئلہ صرف لاہور تک محدود ہوتا تو اس کا کوئی الگ سے حل تلاش بھی کرلیتے مگر جب یہ مسئلہ کراچی سے بولان تک پیدا ہو رہا ہے تو پھر اس حل کیا ہونا چاہئے؟ تعلیمی اداروں میں بلیک میلنگ اور ہراساں کرنے کے الزامات اور ان کے نتیجے میں خودکشیوں جیسے جوواقعات پیدا ہوتے ہیں؛ اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ آخر کیا ہے؟ اس کالم کا اصل موضوع پاکستان کے معاشرے اور خاص طور پر تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے واقعات ہیں مگر اس کا عالمی پس منظر اس لیے پیش کیا گیا کہ ہم اپنے تہذیبی اوت تمدنی صورتحال میں اس مسئلے کو مختلف انداز سے دیکھیں اور اس کو روکنے کے لیے تجاویز سامنے رکھیں۔ کیوں کہ ہم کورونا وائرس کو بھلے نہ روک پائیں مگر اس چھوت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مغرب کی نقالی میں ہم کو اتنی دور نہ ںکل جانا چاہیے کہ سورج غروب ہوجائے اور ہم اپنے گھر کا راستہ بھی بھول جائیں۔ (جاری ہے)