میں ایک لاہوریا ہوں۔لاہور میں پیدا ہوا،یہیں پلا بڑھا، یہیں کے تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی لیکن ہوں نرے کا نرا جاہل۔ میں صرف اپنی ذات میں ہی جاہل نہیں ہوں بلکہ اسے ثواب سمجھ کر بانٹتا پھرتا ہوں۔ جہالت سے بھری میری شخصیت میں تاثیر اتنی ہے کہ میں ان لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہوں جو لاہوریے نہیں بھی ہیں۔اب آپ کو کیا لگتا ہے ڈیرہ غازی خان، چکوال، فیصل آباد اور دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزرا ء وزیر اعظم کے دورہ لاہور کے دوران ان سے ملتے ہوئے ماسک کیوں نہیں لگائے ہوئے تھے، انہوں نے سماجی فاصلے کا خیال کیوں نہیں رکھا تھا، صاف ظاہر ہے اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ سب پڑھے لکھے اور تمیز دار نہیں ہیںبلکہ وجہ یہ تھی کہ لاہور کی فضا نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ وزیر اعلی، وزیر صحت اور دیگر افراد نے تو ماسک پہنا ہی نہیں تھا، وزیر اعظم نے تھوڑی پر لگا رکھا تھا تو اس کی وجہ بھی لاہوریوں کی جہالت تھی جو باہر سے آنے والے غیر لاہوریوں پر اثر انداز ہو گئی تھی۔ کچھ دن پہلے وزیر اعظم کراچی تشریف لے گئے تھے ، گورنر سمیت انہیں ملنے کے شوقین پارٹی لیڈرز سماجی فاصلے کے اصول کی دھجیاں اڑاتے ہوئے یوں پھنسے بیٹھے تھے کہ جہاں دو کی گنجائش تھی وہا ں چار براجمان تھے، ماسک کسی کے چہرے پر نہیں تھا کہ وزیر اعظم حاضری لگانے والے تمام لیڈرز کی شکلیں اچھی طرح یاد کر لیں۔ یہ منظر دیکھتے ہی میں نے بطور لاہوری فورا اس لاپروائی کی ذمہ داری قبول کر لی۔ صاف ظاہر ہے میں کبھی کبھی کراچی کا چکر لگا لیتا ہوں ، میرا اثر تو وہاں پہنچنا ہی تھااور کبھی کبھی کراچی کے پڑھے لکھے لیڈرز لاہور آ کر جاہلوں سے ملتے ہیں ،لازماََ جہالت کا وائرس لاہور ہی سے اپنے ساتھ لے گئے ہوں گے۔ ورنہ وزیر اعظم سے ملتے ہوئے ایسی جہالت کبھی دیکھنے میں نہ آتی۔ جہالت بھی عجیب چیز ہے، موجود ہر وقت رہتی ہے لیکن ظاہر خاص مہینے میں جا کر ہوتی ہے ۔موجود کسی بھی شہر میں ہوتی ہے ظاہر لاہور میں ہوتی ہے۔ یعنی اسلام آباد میں بیٹھ کر کوئی کہے کہ ہر شخص کے لیے ماسک لگانا ضروری نہیں، تو یہ جہالت نہیں ہے لیکن لاہور میں کوئی ماسک نہ پہنے تو یہ جہالت ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر کوئی کہے کہ یہ جان لیوا نہیں ہے تو اسے جہالت نہیں کہا جا سکتا لیکن لاہور میں اگر کوئی اسے سنجیدہ نہ لے تو یہ جہالت ہے ۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر کوئی لاک ڈائون نہ کرنا چاہے تو یہ جہالت نہیں ہے ، مگر لاہور میں کوئی اس پر عملدرآمد نہ کرے تو یہ یقینا جہالت ہے ۔جاہل لاہوریوں سے آخر توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ لاہوریوں کی جہالت کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ محض نعروں سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بار 30 اکتوبر 2011 کو بھی ہوا تھا۔ نہ جانے کیا تھا کہ سارا لاہور بیوی بچوں کو لے کر اچانک مینار پاکستا ن کی طرف نکل گیا۔ شور شرابا اور ہنگامہ دیکھا تو مجھ سے بھی رہا نہ گیا، یہ بھی جہالت ہی کی نشانی ہے کہ یہ لاہوری ایک دوسرے کی نقل میں لگ جاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ میں بھی مینار پاکستان پہنچ گیا۔ لوگوں سے پوچھا یہاں کیا ہور ہا ہے، کہنے لگے سونامی آ رہا ہے۔ پوچھا وہ کیا ہوتا ہے ، کہنے لگے تبدیلی آئے گی، پولیس کا نظام ٹھیک ہو گا،انصاف ملے گا، کرپشن ختم ہو گی، میرٹ پر فیصلے ہوں گے ، میرے اور آپ کے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔ میں ابھی تذبذب میں تھا کہ اسٹیج سے تقریرں شروع ہو گئیں ۔یہی باتیں دوہرائی گئیں ، باتوں میں بہت تاثیر تھی اور میں ٹھہرا ایک سادہ لاہوریا، باتوں سے قائل ہو گیا، اور میں کیا میرے ساتھ لاکھوں لوگ جو وہاں کھڑے تھے سب قائل ہو گئے ۔ آج لاہوریوں کو احساس ہوا ہے کہ وہ واقعی جاہل ہیں ، نرے کے نرے جاہل ۔ دوسری بار اپنی جہالت کا ثبوت میں نے اگست 2014 میں دیا تھا۔ جب اپنی نوکری کی پروا نہ کرتے ہوئے اور اپنے بیوی بچوں کو پیچھے چھوڑ کر سخت گرمی میں لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تھا۔خیال تھا کہ وہاں سے ڈگریاں لے کر آئوں گا جو میری جہالت کا علاج کریں گی، لیکن بے سود ۔ ایک سو چھبیس دن میں وہاں موجود رہا، پڑھے لکھے لوگوں میں اُٹھا بیٹھا، تہذیب یافتہ لوگوں کے ساتھ وقت گزارا ، سوچا کچھ تمیز سیکھ جائوں گا لیکن کوئی فرق نہ پڑا، لاہور واپس آیا تو ویسا ہی تھا ، نرے کا نرا جاہل ۔ میں تو اس قدر جاہل ہوں کہ مجھے ووٹ دینے کی بھی تمیز نہیں ۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلتا کسے منتخب کرنا ہے ، کسے نہیں۔ پہلے میں وزیر اعلی کو لاہور سے منتخب کرتا رہا ہوں اس بار میں نے وزیر اعظم کو لاہور سے منتخب کیا۔ وہ الگ بات کہ وزیر اعظم نے بعد میں اپنی جگہ ہمایوں اختر کو بھیج دیا میری جہالت دیکھئے کہ میں برا مان گیا اور سعد رفیق کو منتخب کر لیا۔ آج مجھے میری جہالت کے طعنے مل رہے ہیں ۔ مجھے سب سے مختلف مخلوق کہا جا رہا ہے ۔ لیکن یقین کریں صرف جاہل ہونا ہی میرا جرم نہیں ،وجوہات اور بھی ہیں۔ مجھے کورونا ٹیسٹ مثبت آ جانے کے باعث ایکسپو سینٹر میں بند کر دیا گیا ، اس کی وجہ جہالت نہیں ، غربت تھی، کیونکہ امیروں کو ان کے گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔جب وہاں رہ کر میں نے سوکھی روٹیاں کھائیں تو یہ میری جہالت نہیں تھی، مجبوری تھی۔ آج جب میں جہالت کا طعنہ سن کر خاموش بیٹھا ہوں تویہ جہالت نہیں ہے، بے شرمی ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں جاہل کہنے والوں کو سلامت رکھے، ان کی بدولت ہمیں خود شناسی کا موقع ملتا ہے۔