کمال کی میڈیا مینجمنٹ ہے اور بے مثال سیاسی منصوبہ بندی‘ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد میڈیا کی توپوں کا رخ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی جانب تھا۔ میاں نواز شریف‘ مریم نواز‘ بلاول بھٹو کی پست ہمتی اور موقع پرستی پر خوب لے دے ہو رہی تھی‘ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کی سب سے زیادہ مٹی گزشتہ آٹھ دس روز میں پلید ہوئی اور مسلم لیگ (ن) میں دھڑے بندی کھل کر سامنے آ گئی۔ شاہد خاقان عباسی اور کئی دوسروں نے حسب روائت میاں نواز شریف اور مریم نواز کے احکامات سے سرتابی کے بجائے خواجہ آصف پر لعن طعن شروع کر دی کہ بڑے میاں صاحب کا پیغام پارلیمانی پارٹی تک پہچانے کا جرم سیالکوٹی خواجے سے سرزد ہوا‘ دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح مسلم لیگ میں بھی قیادت سے جواب طلبی ممکن ہے نہ کسی بڑے سے بڑے طرم خان کو حکم عدولی کا یارا‘ چنانچہ غیر مشروط حمائت کا پیغام پہچانے پر جس کا بس چلا اُس نے خواجہ آصف پر غصہ نکالا۔کسی نے خواجے کے گواہ سے پوچھا نہ براہ راست قیادت سے رابطے کی جسارت کی‘ نزلہ ریزد برعضو ضعیف۔ نظر یوں آ رہا تھا کہ مسلم لیگ(ن) کو اب کوئی حصوں بخروں میں تقسیم ہونے سے بچا نہیں سکتا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کے سیاسی منظر سے ہٹنے کے بعد جماعت کو متحد رکھنا آسان ہے نہ کارکنوں کی مایوسی و بے یقینی کا درماں کرنے کے لئے کوئی طاقتور لیڈر ملک میں موجود۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ اب پارلیمنٹ میں قانون سازی کا عمل تیز ہو گا کہ مایوس و دل شکستہ اپوزیشن حکومت سے تعاون پر مجبور ہے مگر اچانک سیاسی منظر نامے پر اپوزیشن بالخصوص شریف خاندان کی اسٹیبلشمنٹ سے درپردہ مفاہمت‘ عمران خان اور مقتدر قوتوں میں مغائرت اور حکومتی اتحادیوں کی ناراضگی کی دھند چھا گئی ۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے قبل جنم لینے والی قیاس آرائیاں ایک بار پھر ٹاک شوز‘ کالموں اور تجزیوں کا مرکزی موضوع بن گئیں۔ اس منصوبہ بندی اور میڈیا مینجمنٹ کے تخلیق کار قابل داد ہیں۔ میڈیا میں بحث اب یہ ہو رہی ہے کہ کون کون سا اتحادی الگ ہوا تو حکومت برقرار نہیں رہے گی اور عمران خان کی جگہ کون وزیر اعظم پاکستان ہو گا۔؟ ماضی میں ایسا کئی بار ہوا‘ لوگوں نے یقین کر لیا کہ واقعی آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دے کر اپوزیشن ‘ بالخصوص شریف خاندان نے اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان سے فاصلہ رکھنے پر آمادہ کر لیا ہے اور اگر عدم اعتماد کی کوئی تحریک آئی تو اس کا حشر وہ نہیں ہو گا جو چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا ہوا‘ خواہش بُری نہیں‘ عوام ‘ کارکنوں قابل اعتماد ارکان پارلیمنٹ اور میڈیا کے روبرو شرمندگی اٹھانے کے بعد تجربہ کار سیاستدانوں کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس غیر مشروط حمایت پر عظیم سیاسی حکمت عملی کا لیبل لگائیںداخلی انتشار و مایوسی پر قابو پائیں اور ارکان اسمبلی کو تحریک انصاف کا رخ کرنے سے روکیں جو اب سنجیدگی سے سوچنے لگے ہیں کہ کسی شریف اور زرداری کے مفادات کا ایندھن بننے سے بہتر ہے کہ اپنے سیاسی اور خاندانی مفاد کو ترجیح دیں اور حکومتی جماعت میں شامل ہو کر ترقیاتی فنڈز و دیگر مراعات سمیٹیں۔ میری اطلاع کے مطابق عمران خان کو فی الحال اپوزیشن سے کوئی خطرہ ہے نہ اتحادیوں سے بے وفائی کا اندیشہ۔ اسٹیبلشمنٹ کی فکر و نظر میں تبدیلی کے آثار ہیں نہ کوئی شخص یا ادارہ بے وفائی‘ کج فہمی اور مفاد پرستی کے قطب میناروں کی کسی یقین دہانی ‘ وعدے اور دعوے پر اعتبار کرنے کو تیار۔ نواز شریف‘ مریم نواز‘ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے لئے یہی رعائت کافی ہے کہ وہ جیلوں کے بجائے گھروں میں بیٹھے اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومتوں نے تمام تر بداعمالیوں‘ ہمالیہ جیسی غلطیوں‘ لوٹ مار‘ قانون شکنی کے باوجود اپنی مدت پوری کی۔ کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان کے اندرونی اور بیرون دشمنوں کے علاوہ مختلف مافیاز کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ملک و معاشرے کو درست خطوط پر استوار کرنے کی خواہش مند حکومت کو ڈیڑھ سال میں چلتا کر دیا جائے‘ یہ دشمنوں کے اس بیانئے کی توثیق ہو گی کہ خلائی مخلوق یہاں کسی منتخب حکومت کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیتی‘ کٹھ پتلی کا تماشہ جاری رکھتی ہے۔ عمران خان کے لئے اصل چیلنج اپوزیشن ہے نہ اتحادی جماعتوں کی بے چینی کہ یہ بلیک میلنگ کے ذریعے مفادات سمیٹنے کی عادی ہیں اور ہر حکومت کو دبائے میں رکھنے کے فن میں طاق۔ اصل چیلنج گورننس ہے ‘پنجاب میں کمزور حکمرانی کے طفیل اپوزیشن کو کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے وہ طفیلی بیورو کریسی اور تاجر برادری کے ذریعے مصنوعی مہنگائی اور بدانتظامی کو فروغ دے رہی ہے اور وسیم اکرم پلس غریب عوام کو ریلیف دینے میں ناکام۔ ورنہ گراں فروشی کو روکنا اتنا مشکل نہیں جتنا بنا دیا گیا ہے اور گالی عمران خان کو پڑ رہی ہے۔ میڈیا کے معاملات کو بھی خان صاحب نے خود بگاڑا ہے اور سوچا تک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) محض کامیاب میڈیا مینجمنٹ کے طفیل میاں نواز شریف کو سول بالادستی کی علامت اور جمہوریت کا باوا آدم باور کراتی رہی جبکہ میاں شہباز شریف کی پنجاب سپیڈکا چرچا اندرون و بیرون ملک ہوا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے مگر میڈیا کا معاشی بازو مروڑ کر اپنی کامیابی و کامرانی کا ڈھنڈورا پیٹنا چاہا جو تاریخی غلطی تھی اور ہے۔ عمران خان مطالعہ کے شوقین ہیں۔ایک دور میں انگریزی اخبارات کے لئے لکھتے بھی رہے‘ اردو میڈیم مگر وہ نہیں کہ انہوں نے سجاد حیدر یلدرم کا مضمون ’’مجھے میرے دوستوں سے بچائو‘‘ پڑھا ہو‘ اگر وزیر اعظم کا کوئی خوش ذوق اور مخلص دوست انہیں اپنے نادان دوستوں سے بچانے اور دانا دشمنوں سے میل ملاپ بڑھانے کی تدبیر کرے یا کم از کم یہ مضمون ہی پڑھا دے تو حکومت اور ملک دونوں کا بھلا ہو کہ اب تک وہ اپنا اور ملک کا نقصان فقط ان نادان دوستوں کے سبب کر چکے ہیں‘ تبدیلی کا نعرہ اور انہی گھسٹے پٹے افراد پر انحصار جو سولہ ماہ میں مخالفین کی کردار کشی اور بے مقصد نعرہ بازی کے سوا ڈھنگ کا کوئی کام نہیں کیا‘ کھلا تضاد ہے۔اپوزیشن کا کمال ہے کہ اپنے بیانئے کو دفن کرکے بھی اُس نے ایک ہفتے میں عوام اور میڈیا کو حکومت کے چل چلائو کی بحث میں الجھا دیا لوگ اب دن گنتے رہیں گے‘ حکومتی ترجمان وضاحتیں کریں گے اور تجزیہ کار من پسند موشگافیاں‘ ویسی ہی موشگافیاں جیسی مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے دوران ہوتی رہیں اور بالآخر دھرنا ناکام و نامراد اختتام پذیر ہو گیا۔ اگلے چند دنوں تک رونق لگی رہے گی پھر ہمیں پتہ چلے گا کہ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ کھیل ختم پیسہ ہضم۔