سندھ کی جواں سال شہزادی گل سما رندکی لاش واہی پاندھی سے ساڑھے تین کلومیٹر دورسندھ بلوچستان کی سرحدکے قریب ایک پہاڑی قبرستان میں ایک کے ساتھ ایک جڑی پرانی قبر وں سے بہت دور جب عجلت میں کھودے گئے گڑھے میں ڈالی جا رہی تو کوئی آنکھ اشک بار نہیں تھی اور نہ کسی چہرے پر کوئی ملال تھا۔کوئی ہاتھ اسے سپرد خاک کرتے ہوئے نہ کپکپایااور نہ کوئی ہاتھ اس کی مغفرت کے لئے دعا کو اٹھ سکا۔سب کے چہرے پر غیظ وغضب کے آثار اور ماتھے پر ناگواری اور نفرت سے لبریز تیوریاں تھیں۔ دفنانے والوںکے ہاتھ ایسے کھردرے اور بے رحم تھے کہ جیسے کسی سفاک قاتل کے ہوں۔ مجھے ایک اور منظر یاد آگیا ، راوی لکھتا ہے کہ سندھ کے ایک چاند چہرے کو جب راولپنڈی کی جیل میںصلیب پر لٹکایاجارہا تھا ،جلاد تارا مسیح نے اپنا انگوٹھا اس کے حلق پر رکھا تو اس کے ہاتھ ہی نہیں کپکپائے بلکہ اس کی ٹانگوں میں بھی لرزش تھی،اچانک اس کا جی چاہا کہ وہ یہ تماشا ادھورا چھوڑ کر کہیں بھاگ نکلے لیکن اس میں اتنی ہمت اور اس کی ٹانگوں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ ایک لمحے کو دماغ میں کوندنے والے اس خیال کو عملی جامہ پہنا سکے، بہ امرمجبوری اس نے اپنی خواہش پر اپنے فرض کو ترجیح دی اور اس نے ہمت کرکے پھانسی گھاٹ کا کھٹکاگرایا اور چشم زدن میں وہ چاند چہرہ پھندے پر جھول گیا۔ واہی پاندھی کے شہر خموشاں کی طرح عجلت تو یہاں راولپنڈی کی اس جیل میںبھی تھی لیکن ’’قانونی تقاضے‘‘ پورے کرنے والے اس چھوٹے سے اجتماع میں شریک اکثریت کے چہروں پرملال نہیں توملامت اور گھبراہٹ ضرور نمایاں تھی اور ان کے دل بھی تارا مسیح کی طرح اندر سے رو رہے تھے۔ گل سما رند کی کے جنازے میں شریک سب کے سب افراد مطمئن ،پرجوش اور بہت جلدی میں تھے اور وہ قبرستان کی طرف ایسے رواں دواں تھے کہ جیسے ان کے کاندھوں پر کوئی جنازہ نہیں ڈولی ہو اور وہ اپنے مخالف قبیلے کی لڑکی بیاہ کر لے جارہے ہوں۔ معصوم کلی کی تدفین میں شریک ان بے رحم ہاتھوں نے میت کو گڑھے میں دھکیلا اور جلدی سے اس پر مٹی ڈال کرپانی کا چھڑکائوکیا اور اس قبر پر علامتی طور پرپھانسی کا پھندا تصویر کیا تاکہ دیکھنے والے اس کے’’ انجام‘‘ سے عبرت پکڑ کر قبائلی بندشوں سے فرار کبھی تصور میں بھی نہ لا سکیں۔کسی میں ہمت نہیں تھی کہ سچ اگلتا،سب نے اس واقعے پراپنے گرد تحیراور خوف کی دیواریں کھڑی کر لیں۔ اگر کوئی اور سچ بولے تو واہ واہ ورنہ ہمارے لئے مصلحت کی اوڑھنی ہی کافی ہے۔قبائلی سماج میں سچ صرف وہی ہے جو طاقت ور شخص بولتا ہے چاہے وہ جھوٹ کا پلندہ ہی کیوں نہ ہو۔گل سما رند کی الم ناک موت پر بڑی کوشش کی گئی کہ حیرتوں اور اسرار کے پردے پڑے رہیں لیکن کچھ لوگوں نے آواز بلند کی توپولیس کو بھی بادل نخواستہ حرکت میں آنا پڑا ،کچھ گرفتاریاں ہوئیں اور گل سمارند کے ماں اور باپ بھی تھانے لاکر بٹھا دیئے گئے۔اب تو میڈیا بھی جاگ گیا اور بریکنگ نیوز چلنے لگیں ’’سندھ میں قیامت کا منظر ،11سالہ گل سما رند مبینہ جرگے کے کالے قانون کی بھینٹ چڑھ گئی۔‘‘پھر ایک بحث چھڑ گئی،گل سما رند کی پراسرار موت قتل ہے یا حادثہ؟خبر پہاڑوں سے نکل کر شہروں ،گلیوں اور بازاروں میں آگئی،جتنے منہ اتنی باتیں۔سندھ ہی نہیں پاکستان کے تین دوسرے صوبوں پنجاب ،خیبرپختونخوا اور بلوچستان میںجرگے کی روایت اتنی مستحکم ہے کہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے پابندی کے باوجود ریاست کے اندر ریاست کا تصور غالب نظر آتا ہے۔گل سما رند کسی جرگے کے فیصلے کے نتیجے میںسزائے موت کی مستحق ٹھہرائی گئی یا اسے کسی اور قبائلی قانون کی آڑ میں سنگسار کر دیا گیا ،اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ معاملہ عدالت میں ہے ، عدالت کے حکم پر گل سما رند کی قبر کشائی کی گئی ہے، سات رکنی طبی بورڈ کی طرف سے پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ کا انتظار ہے،ابتدائی رپورٹ میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سرپر وزنی چیز گری یا گرائی گئی۔ اندر کی بات یہ ہے کہ گل سمارند کا سارا جسم سلامت تھا لیکن سرپھٹول اور چٹخاہوا تھاجو ایک پتھر سے نہیں چٹخ سکتا۔معصوم کلی کی خدانخواستہ بے آبروئی ہوئی یا نہیں لیکن سر پر پتھر کے نشانات ضرور ہیں جن کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوگئی۔جرگہ ہوا یا نہیں اس حوالے سے بھی کوئی بات وثوق سے نہیں لکھی جا سکتی کیونکہ رند قبیلے کے سردار یار محمد رند کے صاحبزادے سردار بیبرک رندنے سختی سے اس بات کی تردید کر دی ہے۔انہوں نے گل سمارند کی موت کے بعد اپنے پہلے وضاحتی بیان میں کہا تھا کہ وہ اور ان کے والد سندھ کی حدود میں کسی ایسے جرگے میں شریک نہیں ہوئے جس میں گل سمارند کو سزائے موت سنائی گئی ہو۔ قبائلی جرگوں میں غیرت کے نام پر سزائے موت پانے والوں کو بغیر نمازجنازہ کاریوں کے لئے مخصوص قبرستان میں گڑھا کھودکر مٹی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ذرائع بتاتے ہیں کہ گل سما رندکاجنازہ اس لئے پڑھا گیا تاکہ غیرت کے نام پر سنگسار کی گئی 11سالہ بچی کی موت کااصل سبب مخفی رکھا جا سکے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسے غیرت کے نام پر سنگسار یا قتل نہیں کیا گیا تو اس کی قبر پر مٹی ڈالنے کے بعد پھندے کا نشان کیوں بنایا گیا؟ کیا پھانسی کایہ نشان گل سما رند کو نشان عبرت بنانے کے لئے بنایاگیا؟ اس سوال کا جواب کسی سردار یا گل سمارند کی موت کو حادثاتی قرار دینے والے کسی خبردار کے پاس نہیں ہے۔جوں جوں وقت گزر رہا ہے گل سمارند کی موت کے حوالے سے حقائق تک پہنچنا مشکل ہوتا جارہا ہے، قبائل، تنظیمیں اور ہر مسئلے پر ’’توکون؟ میں خوامخواہ‘ ‘گروپ بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ دراصل یہ سانحہ سندھ اور بلوچستان کے سرحدی نوگوایریا میں ہوا ہے جہاں پولیس کے بھی پر جلتے ہیں۔کراچی میںدعا منگی کے اغواکی تہہ تک پہنچنے کی کوشش میں سندھ پولیس خود کہیں گم ہو گئی تھی، گل سما رندقتل کیس میں بھی پولیس کوئی گڑھا کھودنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے جس میں یہ معاملہ خاموشی سے سپرد خاک کیا جاسکے۔معاملہ عدالت میں ہے ، پیرکے روز عدالت نے مقتولہ کے والدسمیت ملزمان کے لئے مزید دودن کا ریمانڈ دیا ہے۔ پولیس آخری اطلاعات تک سکتے میں ہے،سب کی نگاہیں گل سما رند کے پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ اور عدالت پر لگی ہیں۔