ینگون (اے ایف پی ،این این آئی )میانمار میں فوج کی فائرنگ سے 82مظاہرین ہلاک اور کئی زخمی ہوگئے ۔کیپٹن کے ساتھی کی ہلاکت پر مارشل لا کے تحت 19مظاہرین کو سزائے مو ت سنا دی گئی ۔ینگون کے نواحی قصبے باگو میں مظاہرین پر فائرنگ اور دستی بم پھینکے گئے ،کئی اہم سیاسی رہنما روپوش ہوگئے ہیں، فوجی حکومت نے اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر کرسٹین شرانر برگنر کو ملک کا دورہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا،پولیس سٹیشن پر باغیوں نے دھاوا بول دیا ، 10 اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ، ادھر ملکی اقتدار پر قابض ملٹری قیادت کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل زائومِن تْن نے دو برسوں میں الیکشن کرانے کا وعدہ دہراتے ہوئے کہا کہ ملک میں حالات تیزی سے نارمل ہوتے جارہے ہیں اور جلد ہی تمام وزارتیں اور بینکس معمول کے مطابق کام کرنا شروع کردیں گے ،غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق میانمار کی فوج کی جانب سے پابندی پر عالمی ادارے کی خصوصی سفیر شرانر برگنر نے اس پر شدید افسوس کا اظہار کیا ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی مایوس کن بات ہے کہ میانمار فوج ان کا خیرمقدم کرنے کے لیے تیار نہیں حالانکہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والی شرانر برگنر اس وقت ایشیا کے دورے پر ہیں۔ وہ تھائی لینڈ کے بعد چین جائیں گی۔ میانمار کی ریاست شان کے ایک پولیس سٹیشن پر فوجی بغاوت کے مخالف مسلح گروپ نے حملہ کرکے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 10 اہلکار ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ، علیحدگی پسند نسلی تنظیموں اراکان آرمی، تانگ نیشنل لبریشن آرمی اور میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی نے ملک میں فوجی بغاوت کے خلاف ایک اتحاد بنالیا ہے ۔دوسری جانب فوجی بغاوت کے خلاف ملک گیر احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے ، پولیس کی مظاہرین پر فائرنگ سے فرری سے تاحال ہلاک ہونے والوں کی تعداد 550 سے زائد ہوگئی ہے ۔میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے حکمراں سیاسی جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن آپریشن کے باعث کئی رہنما یا تو روپوش ہوگئے یا پڑوسی ملک ہجرت کر گئے ۔ بھارت میں بھی 9 رہنماؤں نے پناہ لے رکھی ہے واضح رہے کہ یکم فروری میں میانمار فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے حکمراں آنگ سان سوچی کو معزول کرکے ایک سال کے لیے ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی۔