رُوس کے یوکرائن پر حملہ کے بعدیورپی یونین نے ماسکو کے سرکاری ٹیلی ویژن چینل’ آر ٹی‘ کی نشریات دکھانے پر اپنے رکن ممالک میں پابندی عائد کردی ہے۔ امریکہ اور یورپ کے اتحادی ممالک لیٹویا اور لیتھوینیا نے دو سال پہلے ہی اس ٹیلی ویژن کو ممنوع کردیا تھااور یوکرائن نے آٹھ برس پہلے۔یہ وہ ممالک ہیں جو دنیا میں آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی کے سب سے بڑے علمبردار ہیں لیکن یہ نہیں چاہتے کہ بحران کے دنوں میں ان کے مخالف ملک کا نقطۂ نظر عوام الناس تک پہنچے۔ امریکہ میں آرٹی ٹیلی ویژن ایک ایسے قانون کے تحت رجسٹرڈ کیا گیاہے جسے’ فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ‘ کہا جاتا ہے۔آر ٹی کو یوٹیوب اور ٹویٹر کے پلیٹ فارم میسّرہیں لیکن وہاں اسے اشتہار چلانے کی ممانعت ہے۔یہ میڈیا گروپ اپنے کروڑوں ناظرین ہونے کے باوجوداِن ڈیجیٹل پلیٹ فارمز سے اشتہاروں کے ذریعے پیسے نہیں کما سکتا۔ آر ٹی پر امریکہ میں جزوی اور یورپ میں مکمل پابندیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ترقی یافتہ اور جمہوری معاشرے اِس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کے قومی مفادات کس حد تک اظہارِ رائے کی اجازت دیتے ہیں۔ میڈیا کو بے لگام نہیں چھوڑا جاتا۔اس کے ذریعے فروغ دیے جانے والا بیانیہ ہر ملک اور ریاست کے لیے اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ میڈیا خاص طرح کانقطہ نظر پیش کرکے اور کسی بات کوخاص زاویے سے نشر کرکے عوام الناس کی رائے پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اس لیے خیال رکھاجاتا ہے کہ دوسرے ممالک ایسے بیانئے کو فروغ نہ دے سکیں جو ملک کے قومی مفادات کے خلاف ہو۔ پروپیگنڈے کی بہت سیاسی اور معاشی اہمیت ہے۔ بنگال میں پاکستان کے خلاف جذبات ابھارنے اورعوام میں مرکزی حکومت کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرنے میں بھارت نے قیام پاکستان کے فورا بعد ہی بنگالی زبان کے پریس کے ذریعے کام شروع کردیا تھا تاکہ بنگال کی آبادی میں علاقائی تعصب پیدا کرکے اسے مرکز سے بدظن کیاجائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مرکزی حکومت نے مشرقی پاکستان کی ترقی اورخوشحالی کے لیے جو مثبت اقدامات کیے وہ پس منظر میں چلے گئے اور بنگالی آبادی کی شکائتوں اور مسائل کو بڑھا چڑھا کر اس طرح پیش کیا گیا جیسے مغربی پاکستان نے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ہوں۔یوں علیحدگی کی تحریک کو پروان چڑھایا گیا۔ اب یہی کام بلوچستان میں کیا جارہا ہے۔ انڈیا جنوبی ایشیا کا چودھری بننے کا خواہاں رہا ہے۔ اس نے پاکستان میں اپنے بیانیہ اور اثر و رسوخ کو فروغ دینے کے لیے آل انڈیا ریڈیو سروس کا بھرپور استعمال کیا۔ ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سے پہلے ریڈیو ہی عوام تک پہنچنے کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اپنے کلچر کی یلغارکی خاطر انڈیا نے اُنیس سو ستر کی دہائی میں امرتسر ٹیلی ویژن کی نشریات شروع کیں تاکہ سرحدی علاقوں بشمول لاہورمیں اسکی نشریات اینٹینا کی مدد سے دیکھی جاسکیں۔ اُس وقت کیبل کا نظام نہیں تھا۔ برطانیہ نے بھی ہمیشہ پاکستان کو اپنے پراپیگنڈے کا خصوصی ہدف بنایا ہے۔ برطانیہ مغربی سامراج کا اہم کارندہ ہے۔ اسکی حکومتی نشریاتی سروس کا مقصد مغربی سامراج کے سیاسی اور تہذیبی بیانیوں کی یلغار ہے۔ایک معروف بین الاقوامی میڈیا ادارہ برطانیہ کے دفتر خارجہ کا ذیلی ادارہ ہے اور اس سے فنڈنگ لیتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی شورش برپا کرنے میں اس میڈیا تنظیم کا اہم کردار رہا ہے۔ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانیوں کے حوصلے پست کرنے کو اس نے اعلان کردیا تھا کہ بھارتی فوج لاہور میں داخل ہوگئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے احتجاجی تحریک چلائی تو اس کے ریڈیو نے عوام میں اشتعال پھیلایا۔ اسکے دلّی میں مقیم نمائندے مارک ٹیلی پاکستان آگئے اور مرچ مصالحہ لگا کر ایجی ٹیشن کی رپورٹیں دیا کرتے تھے۔مغربی میڈیا کی تنظیمیں عالمی سطح کی پھپے کٹنیاںہیں جن کا سب سے بڑا کام ترقی پذیرملکوں میں عدم استحکام پھیلانا اور مغرب کے نظام اقدار کو فروغ دینا ہے۔سامراج کو بخوبی ادراک ہے کہ میڈیا سے کیا کام لیا جاسکتا ہے اسی لیے رُوس کے حکومتی میڈیا ہاوس آر ٹی پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ ایک طرف نام نہاد جمہوری‘ ترقی یافتہ مغربی ممالک ہیں جو بحران کے دنوں میں غیر ملک کی نشریات پر پابندی لگادیتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان ہے جہاں دنیا بھر کے غیر ملکی میڈیا کو کھُل کھیلنے کی آزادی ہے۔ہمارے ہاں برطانیہ (بی بی سی)‘ جرمنی (ڈوچے ویلے) اورامریکہ (وی او اے)کے سرکاری ٹی وی ‘ ریڈیو سروس اور ویب سائٹس بلا روک ٹوک کام کررہی ہیں۔ان کی فنڈنگ بیرونی ممالک سے آتی ہے۔ ان کی رجسٹریشن کے لیے کوئی فارن ایجنٹس رجسٹریشن ایکٹ نہیں ہے۔ یہ میڈیا تنظیمیں پاکستان میں اسلامی اقدار کی بجائے مغربی تہذیب کو فروغ دینے کا کام انجام دے رہی ہیں۔ ان میں پاکستان کے ریاستی اداروں پر تنقید اور تحقیرپر مبنی مواد نشر کیا جاتا ہے۔ علیحدگی پسند تنظیموں کی کوریج کی جاتی ہے۔ یہ غیرملکی میڈیا گروپ سیاسی عدم استحکام پھیلانے کی خاطر اپوزیشن کے نقطہ نظر کو زیادہ کوریج دیتے ہیں۔ مغربی سامراج کے مسلمہ مقاصد میں شامل ہے کہ پاکستان ایسے ترقی پذیر ممالک میں سیاسی بے چینی اور افراتفری کی کیفیت رہے۔ میڈیا کے ذریعے کی جانے والی جنگ میں نیا عنصر سوشل میڈیا کا شامل ہوگیا ہے۔ یو ٹیوب پرویڈیو بلاگز میں پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں اور سیاسی جماعتوں کے بارے میں بے سر و پا پروپیگنڈہ کی بھرمار ہے۔ اہم سیاسی رہنماؤں کی نجی اور خانگی زندگی کے بارے میں ایسی غیر مصدقہ‘ شرمناک باتیں کی جارہی ہیں جنہیں سُن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ گالی گلوچ کرنا ‘ بے ہودہ الزامات لگانا‘ پگڑیاں اچھالناسماجی میڈیا پر ایک معمول بن چکا ہے۔ چند برس پہلے حکومت نے سماجی میڈیا کے ذریعے جرائم کی روک تھام کیلیے ایک قانون نافذ کیا تھا جسے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کہا جاتا ہے۔ اب حکومت نے ایک آرڈیننس کے ذریعے اس قانون میں چند ترامیم کی ہیں۔لیکن اپوزیشن جماعتیں اور میڈیا کے ادارے ان ترامیم کے خلاف متحد ہوگئے ہیں۔اسکے خاتمہ کے لیے مہم چلارہے ہیں۔ اس ترمیمی قانون کی آئینی حیثیت کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس کی ایک شق پر عمل درآمد معطل کردیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ قانون ضرورت سے زیادہ سخت ہو۔ حکومت کو سنجیدہ لوگوں سے مشاورت کرکے اس میں کچھ ترمیم کرلینی چاہیے لیکن میڈیا کی ریگولیشن کا موثر قانون ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کی عدم موجودگی ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانے کے مترادف ہوگا۔ مادر پدر آزادی معاشرہ کے کسی طبقہ کے حق میں نہیں۔