سچ پوچھیں تو مجھے کورونا کی ویکسین بن جانے والی خبر پڑھ کر اتنی خوشی نہیں ہوئی، جتنی یہ خبر پڑھ کر کہ میاں بیوی کے جھگڑے ختم کرنے والا سپرے تیار کرلیا گیا ہے۔ کورونا والی خبر کی زیادہ خوشی اس وجہ سے بھی نہیں ہوئی کہ ابھی تک کورونا نے میری طرف توجہ نہیں فرمائی۔ انسان خود غرض ہے۔ اسے دوسروں کی تکلیف کا اس وقت تک احساس نہیں ہوتا، جب تک وہ خود اس تکلیف میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اگر یہ سپرے پاکستان میں ملنے لگے، تو ہماری معاشرتی بلکہ معاشی زندگی میں بھی ایک انقلاب آ سکتا ہے۔ یہ خبر چند ماہ پیشتر لندن سے موصول ہوئی تھی۔ اسی وقت میں نے لندن میں مقیم اپنے ایک دوست سے کہا کہ وہ اس خبر کے بارے میں ریسرچ کرے اور مجھے اس حیران کن ایجاد یا دریافت کے بارے میں بتائے۔ مجھے یہ خیال بھی آیا تھا کہ اگر اس سپرے کوتجارتی بنیادوں پر پاکستان میں امپورٹ کر کے مارکیٹ میں لایا جائے، تو بے پناہ آمدنی ہو سکتی ہے۔ میاں بیوی کے جھگڑے ختم کرنے کے لیے نہ صرف یہ سپرے بلکہ اس کی فروخت بھی مددگار ہو سکتی ہے۔ چند روز بعد مجھے میرے دوست نے بتایا کہ یہ دوا ابھی لندن میں تجرباتی پراسس میں ہے۔ لندن کے ایک ذہین سائنس دان اپنی ٹیم کے ہمراہ اس پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بہت سے شادی شدہ جوڑوں پر اس کے تجربات کئے، جو خاصے حوصلہ افزا ہیں لیکن اس دوا کے چند سائیڈ ایفکٹ ایسے بھی سامنے آئے ہیں، جن کی موجودگی میں اس سپرے کو Safe قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً ایک میاں بیوی پر یہ سپرے کیا گیا، تو نہ صرف ان کے جھگڑے ختم ہو گئے بلکہ اسی روز ان کی تیس سالہ شادی بھی ختم ہو گئی۔ ایک اور جوڑے پر اس دوا کا سپرے کیا گیا تو سارے جھگڑے یوں ختم ہو گئے کہ دونوں کی یادداشت چلی گئی۔ اب وہ دونوں پر سکون اور قابل رشک زندگی گزار رہے ہیں۔ ہنس ہنس کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے موبائل نمبر بھی Exchange کرلیے ہیں۔ خاوند اپنی بیگم کو نئی کرایہ دار سمجھتا ہے اور بیگم بھی خوشی خوشی ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو کرایہ دے دیتی ہے۔ اگرچہ ان کی یادداشت جا چکی ہے لیکن کرایہ لینا اور دینا کبھی نہیں بھولتے۔ ایک اور جوڑے پر اس دوا کا سپرے کیا گیا ،تو دس پندرہ منٹ میں ان کے جھگڑے ختم ہو گئے لیکن ان دس پندرہ منٹ میں یہ ہوا کہ دونوں نے چھت سے کود کر اپنی زندگی ختم کرلی۔ ایک اور میاں بیوی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ سپرے کے بعد دونوں ایک دوسرے کو بھائی جان اور باجی کہنے لگے۔ اب وہ بڑی پرامن زندگی گزار رہے ہیں اور کوئی جھگڑا وغیرہ نہیں ہوتا۔ ایک اور جوڑے پر سپرے کیا گیا، تو ان کی قوت گویائی چلی گئی اور ہاتھوں کی قوت لڑائی بھی ختم ہو گئی۔ اب نہ وہ ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں اور نہ دست درازی کرتے ہیں۔ بس بیٹھے ایک دوسرے کو گھورتے رہتے ہیں۔ ایک اور میاں بیوی پر سپرے کیا گیا، تو سپرے کے فوراً بعد بیگم نے تھانے جا کر اپنے (سابقہ) شوہر کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی کہ یہ مجھے ہراساں کرتا ہے۔ جب شوہر کو پولیس نے گرفتار کیا تو اس نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کردیا کہ یہ سب اس کی بیوی کی سازش ہے ،جو اس کی سابقہ ہی نہیں بلکہ حالیہ بیوی بھی ہے۔ عدالت نے ان دونوں کو الگ الگ پاگل خانوں میں بھیج دیا ہے اور یوں ان کے جھگڑے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے ہیں۔ لندن میں ایک ایسا جوڑا بھی تھا ،جو سونے کے چند گھنٹے نکال کر ہر وقت لڑتا رہتا تھا۔ ہمسائے اس سے تنگ تھے۔ پولیس بھی ان کی روز روز کی شکایتوں سے پریشان تھی۔ ان پر سپرے کیا گیا تو وہ لڑائی وغیرہ بھول کر بڑے پیار سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ دونوں نے آرڈر پر پیزہ منگوایا اور ایک دوسرے کے منہ میں لقمے ڈال کر کھانے لگے۔ ہمسایوں نے یہ دیکھا تو اطمینان کی سانس لی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ پھر یوں ہوا کہ دو گھنٹوں بعد ان دونوں نے گھر والوں سے مطالبہ کیا کہ ان پر مزید سپرے کیا جائے ورنہ وہ دونوں مل کر گھر والوں کا ناطقہ بند کردیں گے۔ چنانچہ گھر والوں نے مزید سپرے کروایا اور پھر تو یہ ہوا کہ ہر دو گھنٹوں کے بعد انہوں نے سپرے کا مطالبہ شروع کردیا۔ یہاں تک کہ وہ سوتے میں بھی ہر دو گھنٹوں بعد اٹھ کر سپرے سپرے کرنا شروع کردیتے ہیں۔ سپرے کے اخراجات کی وجہ سے گھر والوں کے پیسے ختم ہو گئے تو وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اس جوڑے نے شہر بھر میں شوروغل مچانا شروع کردیا۔ تنگ آ کر انہیں لوگ اس سائنس دان کے پاس لے گئے۔ اس نے مجبوراً ان پر ایک اینٹی سپرے کردیا۔ اس اینٹی سپرے کے بعد وہ پھر نارمل ہو گئے اور اب پہلے کی طرح لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ اس سپرے کے اثرات سب جوڑوں پر ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ستر فیصد جوڑے اس سپرے کے بعد لڑنا جھگڑنا بھول چکے ہیں اور امن و آشتی کے ساتھ گھروں میں رہ رہے ہیں تاہم سائنس دان سب جوڑوں کا گہرا مشاہدہ کر رہے ہیں تاکہ پتہ چل سکے کہ اس سپرے کے نتائج کوسامنے رکھ کر اس کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے بہت سے گھروں میں خفیہ سی سی ٹی وی کیمرے لگا دیئے ہیں۔ سائنس دان ان کیمروں میں محفوظ مناظر کو بڑی باقاعدگی سے دیکھتے ہیں اور مختلف افراد پر اپنے ایجاد کردہ سپرے کے اثرات کا بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ اپنے ان تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں وہ اس دوا کی کارکردگی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب آپ ایک کیمرے میں محفوظ اس منظر کو ملاحظہ فرمائیں: خاوند: بیگم‘ کئی دن سے تم نے شاپنگ کے لیے پیسوں کا مطالبہ نہیں کیا خیر تو ہے۔ بیگم: مائی ڈیئر ڈیوڈ مجھے کیا ضرورت ہے شاپنگ کی۔ کپڑے میرے پاس ضرورت سے زیادہ ہیں۔ میک اپ کے سامان سے الماری بھری ہوئی ہیں۔ اتنی پرفیومیں جمع ہوگئی ہیں۔ چند ایک کو تو میں نے عرصے سے استعمال بھی نہیں کیا۔ وہ اتنی پرانی ہو گئی ہیں کہ ان سے خوشبو کی بجائے بدبو آنے لگی ہے۔ خاوند: اگلے ماہ تمہاری کزن کی شادی ہے۔ اس میں شرکت کے لیے نیا سوٹ تو بنوا لو۔ بیگم: کیوں جی؟ پرانا سوٹ پہنتے ہوئے مجھے موت پڑتی ہے۔ خاوند: عورتوں کا دستور ہے نا کہ ہر شادی پر نیا سوٹ خریدا یا سلوایا جائے۔ بیگم: یہ پاگل پن ہے۔ فضول خرچی ہے۔ پچھلے بیس برسوں سے تم ایک ہی سوٹ سے پچاس ساٹھ شادیاں بھگتا چکے ہو۔ خاوند: کئی روز سے تمہاری امی نہیں آئیں۔ انہیں فون تو کرو۔ ملنے کو جی چاہتا ہے۔ بیگم: کیا ضرورت ہے انہیں روز روز بلانے کی۔بروقت تنقید کرنا ان کی عادت ہے۔ خاوند: ایسا نہ کہو۔ وہ تمہاری ماں ہے۔ میری بھی ماں ہے۔ ان کا احترام سب پر واجب ہے۔