ایک فطرت ہے کہ بچہ ہمیشہ ہی اپنی پناہ اپنے والدین کو سمجھتا ہے اور اس کی شخصیت پر اس کے والدین کے کردار اور ان کی تربیت کے اثرات اتنے انمٹ اور گہرے ہوتے ہیں کہ زمانے کے لاکھ تاثر بچے کو اپنی جانب مائل کریں لیکن کردار میں ودیعت کی ہوئی والدین کی تربیت ہمیشہ ہی جھلکتی ہے۔ سوچ، انداز، کلام، غم و خوشی میں اظہار سب ہی تو والدین کی تربیت کا پتہ دیتے ہیں۔ ازخود ان سے وابستگی کو بچہ خود بھی چاہتے ہوئے فراموش نہیں کرسکتا۔ نظام کائنات میں انسان کا وجود اور اس وجود کا تسلسل بہرحال والدین کے تصور ہی سے برقرار رہتا ہے۔ انسانی تاریخ میں تہذیب و ثقافت کا اولین سبق بھی والدین سے وراثت میں ملنے والی عادات ہیں۔ ہر تہذیب اور ہر مذہب والدین کی معززانہ اور محسنانہ حیثیت کو تسلیم کرتا ہے اور انسانی معاشرے کی اولین اکائی کو تہذیب و ثقافت کا محور ہی شمار کرتا ہے۔ الہامی مذاہب میں تو حقیقت بیانی سے والدین کے مقام و مرتبہ کو بہت بلند کردیا گیا ہے مگر زمینی تہذیبوں سے برآمد شدہ انسانی رویوں پر قائم ہونے والے مذاہب میں بھی ماتا پتا کا بڑا مقام ہے۔ خداوند عالم کی آخری کتاب ہدایت میں تو تصور عبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے لیے قرآنی وصیت درج ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ عبادت بس رب ہی کے لیے اور والدین کے ساتھ سب سے زیادہ اور سب سے بہتر سلوک کیا جائے اور اگر تیرے ہوتے ہوئے ان دونوں میں کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کی حدود میں داخل ہو جائیں تو ایک مخاطب تجھ پر فرض دینی اور فرض اخلاقی اور قرض محبت ہے کہ تو ان کے سامنے سراپا ادب بن جا۔ ان کی خواہش پر اپنی خواہش کو قربان کر اور اگر تجھے ان کی کوئی بات اور ان کا کوئی عمل گراں گزرے اور تجھے اپنی طبیعت میں ناخوشگواری کا احساس ہو تو اپنی زبان پر ان کی شکایت نہ لا۔ بس خدائی حکم کے مطابق والدین کے حضور زبان بندی کا قاعدہ بن گیا۔ راقم السطور نے اپنے اساتذہ سے جب یہ حکم خداوندی سنا تب سے اپنے والدین کے بارے ایک احساس مروت، ایک خیال ذمہ داری اور جذبات الفت کو اندر ہی اندر پروان چڑھتے محسوس کیا اور فطرت کو اپنے جذبات، شعور اور تربیت پر غالب پایا۔ اپنے وجود، کردار اور اپنی خبر سے معمور سرگرمیوں میں اپنے والدین کی توجہات، دعائوں اور تربیت کے اثرات پوری طرح سے محسوس کرتا ہوں۔ میرے والدین میں سے میرے والد گرامی حضرت میاں جیؒ نے اپنی روحانی توجہات اور اپنی تربیتی صلاحیتوں کو میرے لیے وقف رکھا تھا۔ ایک صدی سے زیادہ وقت انہوں نے اس دنیائے فانی میں گزارا اور آج وہ دارالبقا میں ہیں۔ رحمت خداوندی کی پرسکون نعمت بھرے ہمسائیوں کی دائمی حیات کی فضائوں میں آسودہ ہیں۔ حضرت میاں جی نے اس حیات مستعار کی فضائوں میں ایسے رحمت بھرے ماحول میں آنکھ کھولی تھی جس ماحول میں قرآن کریم کی تلاوت کی نور معمود صدائیں مائوں کی گود ہی میں گونجتی تھیں یہ تو محض فضل خداوندی ہے کہ کسی بھی بچے کو ایسا ماحول میسر آ جائے کہ مائیں بچے کو رزق خدا مہیا کرتے ہوئے قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں۔ حضرت میاں جی کے اجداد میں تقریباً 5 پشتیں حفاظ کرام اور علماء دین کی موجود ہیں۔ میاں جی کا گھرانہ کسب حلال کے لیے زمین ہی سے رزق حاصل کرتا تھا۔ علم دین اور قرآن کریم سے شب و روز والہانہ وابستگی کے باوجود تہجد کی ادائیگی کے بعد ہی سے زمین کی کاشتکاری اور دیگر زرعی امور میں مشغولیت کے ساتھ تلاوت قرآن پاک کا سلسلہ ان بزرگان خداوند کا ذوق مستقل تھا۔ ہل چلاتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت، گندم کاٹتے ہوئے قرآن پاک کی تلاوت اور کسی بھی دنیاوی کام کی انجام دہی میں ان سے قرآن پاک کی تلاوت ترک نہیں ہوتی تھی۔ کسی نے میاں جی کے دادا جی سے پوچھا کہ یار تم کیسے زمیندار ہو، ایک وقت میں دو کام کرتے ہو تو میاں جی کے دادا جی جو بہت کم گو تھے نے مسکرا کر جواب دیا کہ یہ دنیا بھی اور آخرت بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے محبت کرنے اور ان کی یاد میں گزارنے کے لیے بنائی گئی ہے اور صوفیا کرام کے دستور کا ایک جملہ دہرایا: دل یایار دل ہتھ کارول کہ دل کی توجہ ہر وقت اپنے معبود حقیقی کی جانب اور ہاتھ سے کام کرنا رسول پاکؐ کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے اور اگر رزق حلال و طیب میسر نہ ہو تو کسی بھی عادت کا اجر نہیں ملتا۔ حضرت میاں جی بھی تمام عمر اسی قاعدے پر زندگی گزارتے تھے۔ خود ہل چلاتے تھے اور ساتھ ساتھ بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے۔ پھر ایک دن اپنے گائوں گجرات سے لاہور منتقل ہو گئے تو اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا لیکن بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم بلامعاوضہ دیتے رہے۔ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ وہ لوگ جو معاشرتی فلاح و بہبود کے کام سرانجام دیتے ہیں۔ ان کی توجہ اپنی اولاد کی تربیت کے سلسلے میں ذرا کم ہو جاتی ہے لیکن میاں جی ؒ دو وقت بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے۔ پھر دیگر فلاحی کاموں میں مصروف ہو جاتے، اپنے ذاتی کاروبار پر بھی توجہ دیتے تھے۔ گائوں سے آنے والے عزیزوں اور احباب کے کاموں میں بھی معاونت کرتے تھے لیکن ہم بہن بھائیوں کے تعلیمی و تربیتی امور پر بھرپور توجہ دیتے تھے۔ فقیر راقم السطور کو خود دینی تعلیم دی، علماء اور صلحاء سے ملاقات کے وقت مجھے ساتھ رکھتے تھے، ان سے ملاقات کے وقت میری طرف توجہ رکھتے تھے کہ کہیں یہ بچہ اس پاک مجلس میں بے دھیانی سے تو نہیں بیٹھ رہا ہے۔ جب ہم علماء اور صلحا سے ملاقات کے لیے جاتے تھے تو حضرت میاں جی مجھے ان کی خدمت میں حاضری کے آداب بتایا کرتے تھے اور بہت سے چھوٹے چھوٹے آداب پر بھی بہت توجہ رکھتے تھے۔ رات کو آخری پہر بیدار ہو جاتے تھے، پھر باوضو ہو کر پیدل حضرت مخدوم الامم سیدنا داتا علی ہجویریؒ کی مسجد جاتے تھے، نماز تہجد وہاں ادا فرماتے، پھر داتا گنج بخشؒ کے مزار انوار پر حاضری دیتے، قرآن کریم کی تلاوت اور مراقبے کے بعد گھر لوٹتے تھے، قریبی مسجد میں آ کر نماز فجر کی امامت کرواتے تھے پھر قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ لیکن اس سے پہلے میری والدہ گرمی اماں جی کو پرزور تاکید فرما کر جاتے کہ مسجد میںا تنے مسافر مہمان ہیں، ان کے لیے ناشتہ ضرور بھجوائیں۔ اماں جی بھی ایک سراپا مجاہدہ تھیں، وہ نماز فجر اول وقت میں ادا کرتی تھی اور پھر مہمانوں کے لیے نہایت خوشدلی سے باورچی خانے میں مصروف ہو جاتی تھیں اور پنجابی زبان میں منظوم مناجات ساتھ ساتھ پڑھتی رہتی تھیں۔ حضرت میاں جیؒ کا یہ روزمرہ کا ذوق تادم وصال جاری رہا۔ آخری عمر میں اپنے پوتوں انس غازی، اسامہ غازی اور سعد غازی کو زیرتربیت رکھا۔ مسجد میں ان کو ساتھ لے کر جاتے، نماز کے لیے اپنے ساتھ رکھتے تھے، ضعیف العمری میں نماز گھر ہی پر ادا کرتے تھے لیکن پوتوں کو ساتھ ملا کر نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے اور گھر پہ ہی تراویح چھوٹی سورتوں کے ساتھ پڑھایا کرتے تھے۔ اگر بچوں سے نماز ترک ہو جاتی بہت نرمی سے سمجھاتے تھے اور انداز یہ تھا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ اس بندے سے زیادہ محبت کرتا ہے جو اس کی بارگاہ میں بار بار حاضر ہوتے ہیں اور جو لوگ اس کی بارگاہ سے دور ہو جاتے ہیں تو اسکی محبت بھی ان سے کم ہو جاتی ہے۔ میں تو اللہ تعالیٰ کا عاجز بند ہوں، مجھے تو بس ایسے ہی لوگوں سے محبت ہوتی ہے جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا بندہ بنانے پر مصروف رکھتے ہیں۔ ذکر الٰہی میں ہر وقت مصروف رہتے تھے، ذکر کرتے کرتے نیند آ جاتی تو لب اسی طرح حرکت میں رہتے تھے۔ آج بھی ان کے شاگردوں اور اہل عقیدت کے حلقے میں ان کی یادیں اور ان کی باتیں ذوق و شوق کی بیداری کا سامان ہیں۔ وہ خود عالم برزخ میں رحمت خداوندی کے سائے تلے خوش و خروم محو استراحت ہیں اور ان کی اولاد، تلامذہ، عقیدت مند ان کے ذکر سے روحانی آسودگی حاصل کرتے ہیں اور ان کی تربیت سے حاصل شدہ رہنمائی سے اپنی زندگی پرسکون گزارتے ہیں۔