نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں سات سال جیل کی سزا قصہ پارینہ ، شدید بیمار میاں صاحب کی اگلی منزل لندن ہی ہے، خدا انہیں صحت یاب کرے، لڑنے اور بچنے کے سارے،، سلیقے،، خوب آزمائے اور بالآخر فتح یاب ہوئے، ویسے اس ساری ،، جدوجہد ،،میں کریڈٹ شہباز شریف کو نہ دینا بد دیانتی ہوگی، بیماری منجانب اللہ ہوتی ہے اور اسے انسانی جان کا صدقہ قرار دیا گیا ہے، بلاؤں کو ٹالتی ہے، مصائب اور مشکلات کا راستہ روکتی ہے، ہمارے بیس اکتوبر کو شائع ہونے والے کالم کا عنوان تھا،، نواز شریف رہا ہو رہے ہیں، یہ کالم اٹھارہ اکتوبر کی رات لکھا گیا تھا، اس وقت تک نواز شریف کے بدن پر جان لیوا بیماری نے دستک تک نہیں دی تھی، ہم نے نواز شریف کی رہائی کی اطلاع اپنے صحافتی اور سیاسی مشاہدے کی بنیاد پر سنائی تھی، مولا نے عزت رکھ لی۔ سچی بات یہ ہے کہ سب کچھ چھ دن کے اندر اندر ہوجائے گا اس کا ہمیں گمان تک نہ تھا ٭٭٭٭ لاہور ہائی کورٹ نے توچوہدری شوگر ملز کیس میں بوجہ علالت نواز شریف کی ضمانت منظور کر ہی لی تھی، لیکن اصل مقدمہ تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں تھا ، سات سال کی سزائے قید ختم کرنے یا اس مقدمے میں ضمانت کی درخواست پر سماعت منگل کو ہونے والی تھی، لیکن شہباز شریف کی متفرق درخواست ہفتہ کے دن داخل ہوگی ، ہفتہ کو ہی سن لی جائے گی، اور ہفتے کے دن ہی بہت کچھ ہوجائے گااس کا ہمیں قطعی اندازہ نہ تھا،ہم تو سوچ رہے تھے کم از کم سات دن کا تو،، پراسیس،، توہوگا ، نواز شریف عملی طور پر اسپتال داخل ہوتے ہی،، رہا،، ہو چکے تھے، بیماری کی جس سطح پر وہ ہیں وہاں کیا اسیری، کیا رہائی والی بات صادق آتی آ رہی تھی، تازہ ترین صورتحال میں تو نواز شریف کا پاکستان میں ہی رہنا بہتر آپشن ہے لیکن انہیں،، خاندانی دباؤ،، کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑیں گے اور اس طرح وہ ایک بار پھر غیر معینہ مدت تک لندن چلے جائیں گے، مجھے تو اسکرپٹ میں یہی لکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے، میں جس ،، خیالی اسکرپٹ،، کی بنیاد پر آگے بڑھ رہا ہوں اسے صرف میں نے ہی احساس کی نگاہ سے نہیں پڑھا،، لکھنے والوں،، نے کئی اوروں ،، کی حس کو بھی جگایا ہوگا۔ ٭٭٭٭ عمران خان نے نواز شریف کی علالت کے بعد توقعات سے بڑھ کر اپنا کردار بخوبی نبھایا، جس کے لئے وہ قابل ستائش ٹھہرائے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر مریم نواز کا کسی عدالتی اجازت کے بغیر اسپتال پہنچ جانا، اسپتال میں ان کا بھی مریض ٹھہرایا جانا اور انہیں رات گزارنے کے لئے اسپتال میں نواز شریف کے برابر والا کمرہ الاٹ کر دیا جانا اور پھر یہ سہولت نواز شریف کی مکمل صحت یابی تک دے دیے جانا۔ وزیر اعظم نے وزیروں، مشیروں اور ترجمانوں کی نواز شریف کے خلاف زبان بندی کردی۔ دس رکنی میڈیکل بورڈ میں نواز شریف کے ذاتی معالج کو شامل کیا گیا۔ شوکت خانم اسپتال کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹرفیصل سلطان کو ن لیگی قائد کے لئے وقف کردیا جانا۔ دوسری طرف عمران خان نے مولانا فضل الرحمان کے مارچ اور دھرنا کے حوالے سے حکومتی جارحانہ پالیسی بدلنے کے اشارے بھی دیے۔ مولانا کو احتجاج کی مشروط اجازت مل چکی ہے۔ ان کے انٹرویوز اور بیانات پر پابندی اٹھالی گئی ہے لیکن مولانا فرما رہے ہیں امن مارچ کی تاریخ بدلنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ شدید علالت کے باوجود نواز شریف نے مولانا کو اسپتال سے یقین دہانی کرائی ہے کہ ن لیگ ان کے شانہ بشانہ ہوگی۔ اسی سال انیس جنوری کو ساہیوال میں انسداد دہشت گردی پولیس کے اہلکاروں نے سر عام گولیاں برسا کر لاہور کی ایک فیملی کے تین ارکان اورڈرائیور کو’’دہشت گردی کے شبہ‘‘ میں خون سے نہلا دیا تھا، مرنے والوں میں ماں باپ اور ان کی تیرہ سالہ بیٹی اریبہ شامل تھی،آپریشن سے پہلے پولیس اہلکاروں نے کار میں سوار تین کمسن بچوں کو اتار کر سرکاری گاڑی میں بٹھا دیا تھا، پولیس تعاقب پر گاڑی سڑک کے انتہائی کنارے روک لی گئی تھی، لیکن ’’شیر جوانوں‘‘ نے ان بے گناہ مشکوکوں کو بھوننے سے پہلے ان سے ایک سوال تک نہ پوچھا۔ باپ مرنے سے پہلے ہاتھ جوڑے منتیں کرتا رہا ’’سب کچھ لے لو ہمیں مارنا مت‘‘ باپ کی یہ منتیں ان تین کمسن بچوں نے بھی سنیں جنہیں گاڑی سے نکال لیا گیا تھا۔ اس سانحہ کو وزیر اعظم سمیت پوری حکومتی مشینری نے’’قتل عمد‘‘ قرار دیا تھا۔ چھ ملزم اہلکار گرفتار ہوئے اور مقدمہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ قوم سے وعدہ کیا گیا کہ ’’قاتل اہلکاروں‘‘ کو عبرت ناک سزا دی جائے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے تلافی کے طور پر زندہ بچ جانے والے تین معصوموں کے لئے دو کروڑ روپے امداد اور ان کی سرکاری خرچے پر تعلیم کا بھی اعلان کیا۔ اب نو ماہ بعد لاہور کی خصوصی عدالت نے تمام چھ ملزموں کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی گواہ نے ملزموں کو شناخت نہیں کیا۔ اس فیصلے پرطرح یہ کہ مقتول خلیل کے بھائی جلیل کا ایک وڈیو بیان بھی پریس کو جاری کیا گیا جس میں وہ اپنے بھائی، بھابی اور تیرہ سالہ بھتیجی کے سرعام قتل کے فیصلے پر عوام سے کہہ رہا ’’ہم فیصلہ تسلیم کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے اداروں پر اعتماد ہے، فیصلے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے‘‘ پولیس کو ہمیشہ کی طرح پھر’’جعلی مقابلے‘‘ میں سزا سے بچا لیا گیا ہے۔ فیصلہ انصاف کا قتل ہے’’ریاست مدینہ‘‘ میں’’انصاف کی بالا دستی‘‘ کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹا ہے، لوگ کہہ رہے ہیں کہ انیس جنوری کو چار قتل ہوئے تھے اور چوبیس اکتوبر کو ان قتلوں کی تعداد پانچ ہو گئی ہے، پانچویں مقتول کا نام ہے انصاف۔ ہمارے خیال میں اس فیصلے کی رو سے اب بچ جانے والے تین کمسن بہن بھائی بھی دہشت گرد’’ثابت‘‘ ہو گئے ہیں، عمران خان کو انہیں دی گئی دو کروڑ کی امداد بھی واپس لے لینی چاہئیے۔ ان تینوں کو بھی اسکول سے نکال کر جیل میں بند کر دینا چاہئیے، ان کے خلاف بھی کسی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئیے۔ ٭٭٭٭ بے شک وزیر اعظم کو بھی اس فیصلے سے صدمہ پہنچا ہے، وفاق اور پنجاب حکومت نے اپیل میں جانے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن یہ سب اقدامات بھی خصوصی عدالت کے’’خصوصی فیصلے‘‘ کے صدمات کم نہیں کر سکیں گے ،، بقول فیض احمد فیض کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں نہ خاک پر کوئی دھبہ نہ بام پر کوئی داغ پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا