اسکرین پر تین بار منتخب سابق وزیرا عظم میاں نواز شریف کو ایئر ایمبولینس کی سیڑھیاں آہستہ آہستہ چڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح کی ان کی صحت کے بارے میں خبریں آرہی تھیں،اُس سے تو یہ خیال تھا کہ وہ وہیل چیئر یا اسٹریچر پہ لے جاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔لیکن یقینا میاں نواز شریف صاحب نے اسے پسند نہیں کیا ہوگاکہ وہ اتنی قابل ِ رحم حالت میں روانہ ہوں ۔اور اسی لئے انہوں نے شدید بیماری کے باوجودبغیر کسی کا ہاتھ تھامے جہاز میں روانگی پر زور دیا ہوگا۔بدقسمتی سے ،حالیہ برسوں میں وطن ِ عزیز میں بیماری کو جس طرح سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے وہ بڑا تکلیف دہ بھی ہے اور درسِ عبرت بھی ۔ ۔ ۔ یقینا گذشتہ ڈیڑھ سا ل سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف عدالتوں اور جیلوں کی جو سختیاں جھیل رہے تھے ،اور پھر اُن کی عزیز ترین متاع ،بیگم کلثوم کی جو رحلت ہوئی ،اس میں میاں صاحب کا اس طرح ٹوٹ پھوٹ جانا اور پھر مستقل بستر سے لگ جانا ،کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ میاں صاحب کو عدالت نے چار ہفتے علاج کی جو مہلت دی ہے ،اُ س میں وہ واپس بھی آئیں گے یا نہیں۔ ۔ ۔ اس حوالے سے حکومت کے بڑبولوں اور ن لیگ کے سرخیلوں کے درمیان تیز و تند بیانوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ ۔ ۔ خاص طورپر سات ارب روپے کے ضمانتی مچلکے نہ تو میاں نواز شریف نے قبول کیا اور نہ ہی ان کے بھائی میاں شہباز شریف نے۔ ۔ ۔ بلکہ وہ خود اس بات کے ضمانتی ہوگئے کہ اگر میاں نواز شریف کی واپسی نہیں ہوئی تو وہ خود کو عدالت کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیں گے۔حالیہ دنوں میں پاکستانی سیاست جس بحران سے گزری ہے اور جس طرح کی افواہوں سے اسلام آباد کے مقتدر ایوانوں میں ہل چل مچی ہوئی ہے۔ ۔۔ کیا اُسے میاں نواز شریف کی روانگی کے حوالے سے جوڑا جاسکتا ہے؟اس پر ذرا آگے چل کر با ت ہوگی۔مگر ۔ ۔ ۔ ہفتہ اور اتوار جس طرح وزیراعظم عمران خان ذاتی اور سرکاری مصروفیات چھوڑ کر ،بنی گالہ میں جا بیٹھے ۔ ۔ ۔۔ اُس پر بھی سیاسی حلقے بڑی دور دور کی کوڑیاں لا رہے ہیں۔کیونکہ ماضی میں اس قسم کی کہیں مثال نہیں ملتی کہ کوئی ملک کا سربراہ مملکت ،ملک میں ایک شدید سیاسی بحران اور اطراف میں بیرونی محاذ پر ہونے والی ہنگامہ خیزیوں سے خود کو 48گھنٹے تک الگ تھلگ رکھ لے۔پھر مولانا فضل الرحمٰن نے اپنا آزادی مارچ جس ڈرامائی انداز میں ختم کیا،اُس سے بھی بہت سارے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔اسلام آباد کے سیاسی پنڈت کہہ رہے ہیں کہ مولانا کو جس دھوم دھام اور بے پناہ وسائل سے لایا گیا تھا،اس کا انجام محض اس طرح نہ ہونا تھا۔ان ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ حضرت مولانا کے مارچ کو اسلا آباد لانے میں اسٹیبلشمنٹ کے ایک حلقے کا ضرور ہاتھ تھااور جب یہ ہاتھ ہٹ گیا،یا ہٹا دیا گیا۔ ۔ ۔ تو مولانا کو اتنا بھی موقع نہ دیا گیا کہ وہ face savingکے لئے چند مراعات اور تحفظات کے بعد کم از کم چوبیس گھنٹے تو ضرور قیام کرتے۔ ۔ ۔ اس سارے سیاسی پس منظر میں اسلام آباد سے جو کچھ خبریں آرہی ہیں۔۔ ۔ اس میں سب کچھ اچھا ہے کی خبر نہیں آرہی ۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جس طرح آئے تھے ۔ ۔ ۔ بلکہ ایک حلقے کی رائے میں جس طرح لائے گئے تھے ،اُس سے اِن سے بہت زیادہ توقعا ت باندھ لی گئی تھیں۔پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے محترم عمران خان محض اپنے ووٹوں اور اراکین اسمبلی کی طاقت پر وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔محترم جہانگیر ترین کے جہاز کو محض فسانہ تراشی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ۔ ۔ مگر اس میں قطعی شک اور دورائے نہیں کہ اختر مینگل کی نیشنل پارٹی کے دو ارکان اسمبلی ،بگٹی کی جمہوری پارٹی کے ایک رکن اسمبلی ،متحدہ قومی موومنٹ کے چار رکن قومی اسمبلی اور پھر ق لیگ اور جی ڈی اے کے تین ،تین ارکان کو لانے کے لئے جس پیمانے پر بھاگ دوڑ ہوئی اس میں قطعی طور پر نادیدہ قوتوں کی تھپکی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ۔ ۔ ٍیو ں جب 18اگست کو ہمارے کپتان وزارت ِ عظمیٰ کے عہدۂ جلیلہ پر بیٹھے تو انہیں اچھی طرح علم تھا کہ ان کی کرسی کے چاروں پائے بڑے کمزور ہیں۔ اور پھر محض مہینے بھر میں کپتان نے اپنی تحریک انصاف کے اصلی تے وڈے کھلاڑیوںکو ایک ایک کرکے رخصت کر کے معذرت کے ساتھ، لوٹوں کا بازاری لفظ استعما ل نہیں کرنا چاہتا تھا،اپنے دائیں بائیں بٹھایا، اُس سے پورے طور پر واضح تھا کہ 22سال طویل جدوجہد کے بعد اقتدار پہ بیٹھنے والے وزیر اعظم عمران خان ،وہ کپتان نہیں جو مینارِ پاکستان پر کھڑے ہو کر ،لاکھوں کے حامیوں کے سامنے کہاکرتے تھے کہ: گورنرہاؤسز کو ڈھا دوں گا،چوروں اور ڈاکوؤں کو لٹکاؤں گا،پیٹ پھاڑ کر کالا دھن واپس لاؤں گا۔ یہ ہو بھی کیسے سکتا تھا۔جب تمام مرکزی وزارتوں میں فواد چوہدری ،خسرو بختیار ،ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان،ڈاکٹر حفیظ شیخ ،حماد اظہر ،بیرسٹر فروغ نسیم بیٹھے ہوں۔ ۔ ۔ تو تبدیلی کی بات بذات ِ خود مضحکہ خیز لگتی تھی۔ سال ہونے کو آرہا ہے۔کسی بھی ایک شعبے میں، خاص طور پر معیشت کے میدان میں جس کا تعلق ایک عام آدمی سے ہوتا ہے ، اور جس نے ہمارے خان صاحب سے برسوں سے بڑی امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں۔ ۔ ۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اُسے ٹماٹر 340روپے کلو میں خریدنا پڑ رہا ہے۔نوکریوں اور گھروں کے جو خواب دکھائے گئے تھے ،اس کے بارے میں توخود اُن کے وزیر فواد چوہدری کہہ بیٹھے ہیں کہ ہم نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا۔ ۔ ۔ اس وقت ملک کا جو سیاسی منظر نامہ سامنے آرہا ہے، اُس سے واضح لگتا ہے کہ ایک بار پھر وطن ِ عزیز بے یقینی کا شکار ہے۔اگر محض سوا سال بعد ایک منتخب وزیر اعظم کے جانے کی باتیں ہونے لگیں ۔ ۔ ۔ اور ان کے لاکھوں کروڑوں حامی گھر بیٹھ جائیں تو پھر خطرے کی گھنٹی سنائی دیتی ہی ہے۔وزیر اعظم عمران خان کی مخالف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کتنی ہی بیمار اور نڈھال کیوں نہ ہو۔ ۔ ۔ اور ان کا مستقبل کتنا ہی روشن نظر نہ آئے ،مگر معذرت کیساتھ ۔ ۔ ۔ اپنے خان صاحب سے محبت اور عقیدت رکھنے کے باوجود ، اُن کا سیاسی مستقبل بھی کوئی بہت زیادہ تابناک نظر نہیں آتا۔