چار دہائیاں تو ہو ہی گئیں ۔اس اعتبار سے سابق جنرل ضیاء الحق کا کہا یہ جملہ ہر اعتبار سے تاریخی ہی کہلایا جائے گا کہ ایک سادہ گریجویٹ ،چہرے سے بھولے بھالے ابھرتے ہوئے بزنس مین کے بارے میں جس وقت جنرل نے یہ پیشنگوئی کی تھی اُس وقت کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ شریف خاندان کا یہ سپوت سب سے بڑے صوبے پنجاب کادوبار وزیر اعلیٰ ،تین بار وزیر اعظم کے عہدہ ٔ جلیلہ پر فائز ہوگا۔اور سونے کا چمچہ نہیںایک پوری دیگ سے عیش و آرام کی زندگی سے سیراب ہونے کے بعد جیل اور جلاوطنی کی سختیاں جھیلتا ہوا۔ ۔ ۔ عمر کے اس پہر میں پاکستانی سیاست کا محور و مرکز ہوگا۔ جولائی 2018کے الیکشن سے پہلے ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کے ساتھ ساری زندگی سیاست سے نا اہل ہونے اور پھر 7سال کی قید بامشقت کی سزا پانے کے بعد اسلام آباد کے سیاسی پنڈت یہی پیشن گوئی کررہے تھے کہ اپنی بیگم کی رحلت کے صدمے اور مسلسل ریاستی جبر اور ناروا سلوک پھر پہ در پہ دل پر ہونے والے مسلسل حملوں کے بعد میاں نواز شریف کے اندر اتنی ٹوٹ پھوٹ ہوچکی ہے کہ وہ عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیں گے۔خود میاںنواز شریف خون پسینے اور مال و منال میں پلنے اور راج کرنے والی ن لیگ بھی اس حد تک اپنے قائد سے مایوس ہوگئی تھی کہ اُس نے متبادل قیادت کے بارے میں اہم فیصلے کرنے شروع کردئیے تھے مگر بدھ کو جس والہانہ انداز میں لاہور یوں نے میاں صاحب کا استقبال کیا اس نے تحریک انصاف کی حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ کے اندازوں کو تو غلط ثابت کیا ہی مگر سڑکوں پر میاں صاحب کے نعرے لگاتے ،پرجوش بپھرتے کارکنوں اور ان ن لیگیوں نے بھی متبادل قیادت ،لانے والوں کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ میاں نواز شریف کے علاوہ کسی دوسرے کو قائد تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔میاں صاحب کے اگر چار ساڑھے چار دہائیوں پر محیط سیاسی سفر کا جائزہ لیا جائے تو ان پر یہ مصرعہ صادق آتا ہے: ادھر ڈوبے، اُدھر نکلے اِدھر نکلے، ادھر ڈوبے ایک سے کئی بار اپنے کالموں میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں کہ اسّی کی دہائی میںجب پنجاب میں بڑے سیاسی سورما اور شیر دہاڑ رہے تھے۔میاں نواز شریف کی پنجاب کی سیاست میں آمد ایک دھماکہ سے کم نہ تھی۔سطحی نقطہ نظر رکھنے والے اس کا سارا کریڈٹ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان کو دیتے ہیں۔گجرات کے چوہدریوں سمیت پنجاب میں روایتی فیوڈل اور تاجر گھرانوں کی ایک پوری جوان نسل پیپلز پارٹی کے اقتدار کے خاتمے اور بھٹو جیسے سحر انگیز پاپولر سیاستدان کے پھانسی چڑھنے کے بعد سیاسی میدان میں اترنے کیلئے بیتاب و بے قرار تھی۔مگران میں سے کوئی دوسرا میاں نواز شریف کی جگہ نہیں لے سکا۔بذات خود ایک مضمون خاص ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کو اگر ان کی سیاسی زندگی سے نکال دیا جائے تو پھر معذرت کیساتھ وہ سیاست میں صفر+صفر ہوتے۔ ۔ ۔ انگلی پکڑ نا بظاہر محاورہ ہے۔لیکن اگر یہ کسی پر پورا اترتا ہے تو وہ ہمارے محترم میاں نواز شریف ہیں۔جنہیں حقیقتاً انگلی پکڑ کر بزرگ میاں شریف ،اپنے بیٹے میاں نواز شریف کو لوہے کے کاروبار میں ہاتھ سیاہ کرنے کے بجائے اقتدار کی اس دہلیز پر براہ راست لے گئے۔کہ جسے قومی سیاست میں خاص طور پر پنجاب میں خلاء پوراکرنے کی شدید ضرورت تھی۔اس زمانے میں میاں شریف کی مہمان نوازی اور دریا دلی کے چہار جہاں میں چرچے تھے۔اسلام آباد کا کوئی بھی بڑا جب بھی جاتی امراء ملاقات کے لئے جاتا تو واپسی میں ایک پر شکوہ گاڑی کی چابی طشتری میں رکھ کر پیش کی جاتی۔ہاں جی ،ہاں جی کرتے پہلے مرحلے میں وہ پنجاب حکومت میں وزیر خزانہ بنے۔اور پھر دوسرے مرحلے میں پنجاب کے طاقت و ر وزیر اعلیٰ ۔اس دوران ان کے ارد گرد سویلین ،ملٹری ریٹائرڈ اور سروسز کے افسران کی ایک پوری کھیپ دائیں ،بائیںکھڑی ہوچکی تھی جو اس بات سے خائف تھی کہ بھٹو کی بیٹی جب دہائی اوپر کی جلا وطنی اور اسیری کی سختیوں کے بعد واپس آنے لگی تو اس کے مقابل صرف ایک ہی شخص کھڑا ہوسکتا ہے۔اربوں بلکہ کھربوں روپے کی دولت سے مالا مال most obedient۔۔۔ جس کی نظریں ’’بوٹوں ‘‘ سے اوپر نہیں جاتیں۔اگست 1988ء سے پہلے تک میاں نواز شریف بلکہ ساری شریف لیگ کو یوں بھی مکمل اقتدار و اختیارات کی ضرورت نہیں تھی کہ جنرل ضیاء الحق کی صورت میں ایک ایسا سایہ دار درخت موجود تھا۔جس نے ایک نہیں کئی بار ہاتھ اٹھا کر یہ دعا مانگی کہ ان کی عمر بھی میاں نواز شریف کو لگ جائے۔اور پھر یہ دعا جلدہی قبول بھی ہوئی کہ صرف 38سال کی عمر میں جنرل ضیاء الحق کے ایک المناک سانحہ کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے محبوب ترین جانشین بن کر آئے۔poorمحمد خان جونیجو ،جنرل ضیاء الحق کی کو ر کے بیشتر کمانڈروں کو یہ خوش فہمی تھی کہ نواز شریف جیسا سیاست کا نو آموز نوجوان کھلاڑی کہاں اتنا بڑا بوجھ اٹھاسکے گا۔صدر غلام اسحاق خان کا معاملہ دوسرا تھا۔وہ بادشاہ گر تو بن سکتے تھے اوربنے بھی۔اسلام آباد میں کے تخت پر نام نہاد ہی سہی ،پارلیمانی قائدبن کر وزارت عظمیٰ پر بیٹھا۔لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔(حوالے کے لئے خان صاحب کے آٹھ ماہ سامنے ہیں)۔ اپنی ساری ٹیم کے ٹیلنٹڈ کھلاڑیوں کو پویلین بھیج کر مانگے تانگے کے کھلاڑیوں سے کاروبار حکومت چلا رہے ہیں۔اور چلا بھی کیا رہے ہیں کہ سال ہو ا نہیں ہے کہ سیاسی پنڈتوں نے الٹی گنتی گنناشروع کردی ہے۔یہ لیجئے ، یہ خان صاحب کہاں سے آگئے ۔اپنے سیاسی مینٹور جنرل ضیاء الحق کی رخصتی کے بعد میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری ہی نہیں ضرورت بھی ہے۔محترم میاں نواز شریف کو یہ سمجھنے میں زیادہ دشوار ی نہیں ہوتی کہ بھٹو خاندان سے انتقام کی حد تک مخالفت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ان کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کے ایک ریٹائرڈ اسٹار بریگیڈیئر امتیاز عرف بلاّنے اس بات کا ایک بار برملا اس کا اعتراف کیا کہ بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں آنے سے روکنا ہمارا سب سے بڑا مشن تھا۔اس مقصد کیلئے ہم نے لاتعداد ایسے ایسے جھوٹ بولے جن کے بارے میں ہمیں اُس وقت بھی پورا یقین تھا کہ یہ سچ نہیں مگر چونکہ اس ’’عورت‘‘ سے شدید نفرت تھی اس لیے اس کے خلاف ہر قسم کی بے اصولی کو ہم جائز سمجھتے تھے۔ (جاری ہے)