بلاول بھٹو کی افطار پارٹی ایک غیر رسمی ’’اے پی سی‘‘ تھی، رسمی عید کے بعد ہو گی جس کا میدان تیار کیا گیا۔ ’’اینٹی سٹیٹس کو‘‘ کی سبھی جماعتیں اس میں موجود تھیں۔ دو جماعتوں کی متوقع احتجاجی تحریک میں شرکت ابھی غیر واضح ہے اگرچہ ان کی نمائندگی اس غیر رسمی اے پی سی میں تھی۔ ایک اختر مینگل کی بی این پی جس کی کچھ مجبوریاں اسے اتحاد میں فعال ہونے سے روک سکتی ہیں، دوسری جماعت اسلامی جس کا مزاج اس کے امیر سے مختلف نظر آتا ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں سراج الحق آخر تک کسی ’’ٹیلی فون‘‘ کا انتظار کریں گے۔ یہ بدظنی بھی ہو سکتی ہے۔ حالیہ برسوں میں جماعت کے کارکنوں کا مزاج پھر سے ’’اینٹی سٹیٹس کو‘‘ ہو رہا ہے۔ ٭٭٭٭٭ تجزیہ نگاروں نے اسے میثاق جمہوریت کے احیاء کی کوشش قرار دیا ہے۔ میثاق جمہوریت ہوا تھا تو بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا تھا اور نواز شریف پر بھی فائرنگ ہوئی۔ وہ بچ گئے لیکن ان کے پانچ چھ کارکن شہید ہو گئے۔ اب کی بار خیر کی توقع ہے۔ بے نظیر کو شہید کرنے کے باوجود انتخابات کا راستہ نہ روکا جا سکا۔ اس میں نواز شریف سے زیادہ آصف زرداری کو کریڈٹ جاتا ہے۔ جو ناقابل یقین حد تک پامردی کا مظاہرہ کرنے پر ڈٹ گئے۔ قانون کے تحت کسی کو ’’ہراساں‘‘ کرنا جرم ہے۔ بلاول بھٹو کی اس افطار پارٹی عرف غیر رسمی اے پی سی نے بہت سے ’’معصوموں‘‘ کو ہراساں کیا ہے۔ کیا پتہ نیب دو چار درجن ریفرنس ان لوگوں پر اسی جرم میں یعنی ’’معصوموں‘‘ کو ہراساں کرنے کے الزام میں بنا دے۔ چیئرمین نیب بھی اسی دن خم ٹھونک کر اپوزیشن کے خلاف معرکہ آرا ہوئے اور مردانہ وار اسے چیلنج کیا۔ بلاول بھٹو نے جس دن افطار کے دعوت نامے بھجوائے، اسی روز یہ خبریں بھی آئیں کہ زرداری کی گرفتاری اب یقینی ہے، ساتھ ہی بلاول کو بھی پکڑا جائے گا۔ مریم نواز کیخلاف کیس بن رہا ہے کہ انہوں نے جو کمپیوٹر بانٹے وہ ’’نتیجہ خیز‘‘ نہیں ہو سکے(مرحبا)۔ چیئر مین نیب نے اسی دوران انٹرویو دیا اور بتایا کہ اپوزیشن رہنمائوں کی گرفتاریاں یقینی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ احتساب بلا امتیاز ہے لیکن حکومتی رہنمائوں کیخلاف کارروائی اس لئے نہیں کر رہے کہ پھر حکومت گر جائے گی۔ حکومت کو گرنے سے بچانے کے لیے نیب، کو اب کمر کسنا ہو گی اور اس نے کس بھی لی ہے لیکن خدشہ ہے اور بڑی حد تک یقینی خدشہ کہ آنے والے دنوں میں نیب اپنے چیئرمین سمیت کہیں غیر متعلقہ نہ ہو جائے۔ ٭٭٭٭٭ سیاسی مدوجزر کا موسم پاکستان میں سدا بہار ہے لیکن اس بار ایک ماجرا غیر معمولی ہے اور عدیم النظر، اپنی مثال آپ۔ سیاسی حکومتیں عدم استحکام کا شکار رہتی ہیں اور ان کے اسباب گنے چنے اور ساسر معصوم ہیں۔عمران حکومت پہلی ایسی حکومت ہے جس کے خلاف مذکورہ بالامعصوم اسباب میں سے ایک بھی موجود نہیں۔ وہ پھر بھی لڑ کھڑا رہی ہے اور کچھ بھی کر نہیں پا رہی(اگرچہ راقم کا اس بارے میں ایک اختلاف نوٹ بھی ہے۔ ذرا آگے چل کر بیان ہو گا)اس حکومت کو ابھی تک کسی اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا۔ مظاہرے نہ دھرنے، نہ جلوس، حتیٰ کہ دھواں دار پریس کانفرنسیں بھی نہیں۔ نیب سمیت جملہ ادارے بھی اس کے ساتھ ایک پیج پر بلکہ عمران وشیخ کے الفاظ میں اس کی پشت پر۔ ماضی کے برعکس جب بار بار حکومتوں کو معاشی صورتحال پر خبردار کیا جانا تھا۔ اسے مشورے دیئے جاتے تھے جو اس کے عدم استحکام کا باعث بنتے تھے، اس بار مکمل سکون ہے۔ یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ادارے حکومت کی کارکردگی پر مطمئن اور فورسندہیں۔ یہ صورتحال ایسی آئیڈیل ہے کہ ماضی کی حکومتیں اس کی حسرت میں اپنے دن پورے کر لیتی تھیں۔ پھر بھی جو صورتحال ہے، سب کے سامنے ہے ٭٭٭٭٭ اختلافی نوٹ ملاحظہ ہو۔ اور یہ ملاحظہ احسن اقبال کے بیان کے حوالے سے ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اناڑی حکومت کی وجہ سے معیشت کو زخم لگ رہے ہیں۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت اناڑی ہے اور اسی پر اختلافی نوٹ ہے۔ حکومت اناڑی نہیں، اسے جس کام کے لیے لایا گیا ہے(بلکہ کاموں کے لیے) وہ کر رہی ہے۔ ڈالر کے نرخ بڑھنے پر بھی تنقیدی رخ اسی جانب ہے کہ حکومت کی رٹ ہی نہیں، حالانکہ پوری رٹ ہے۔ یہ اطلاع موجود تھی کہ ڈالر 140پر جائے گا۔ پھر 150پر اس کے بعد، جون کے وسط تک 160پر لایا جائے گا اور200روپے تک پہنچایا جائے گا۔ یہ سارا کام ٹائم ٹیبل کے تحت ہو رہا ہے اور ’’ایجنڈے‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں اناڑی پن کہاں سے آ گیا سرکار۔؟ ’’سٹیٹس کو‘‘ عمران کو اپنا Saviorبنا کر لایا(اگرچہ وہ سیوئر کے بجائے ڈسٹرائر ثابت ہو گا۔ سٹیٹس کو مڈل کلاس سے خائف ہے۔ ایجنڈے میں مڈل کلاس کا خاتمہ، آج سے نہیں، مشرف و شوکت عزیز کے دور سے ہے۔ تازہ واردات اوگرا کی دیکھئے، زیادہ گیس خرچ کرنے والوں کے بل آدھے سے بھی کم ہوں گے، کم خرچ کرنے والوں کے چار گنا تک ہوں گے۔ اوگرا کی یہ تجویز ابھی منظور نہ ہو تو بھی منظور ہو کر رہنی ہے۔ ٹائم ٹیبل کی بات ہے اور یہ ’’انوکھی‘‘ نہیں۔ عمران کے وژن اور اس کے پیچھے ’’ایجنڈے‘‘ کے عین مطابق ہی ہے۔ ایجنڈے میں ’’سی پیک‘‘ کا معاملہ شامل ہے۔ اب تو سب کو پتہ چل گیا ہے کہ اس بدقسمت منصوے کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ نریندر مودی جیت گئے(فی الحال جس کے امکانات نظر آ رہے ہیں) تو سی پیک کا معاملہ آسانی سے اور جلد نمٹا دیا جائے گا۔ میثاق جمہوریت نے سٹیٹس کو پر ابتدائی کاری ضرب لگائی۔ عمران اگلی ضرب کو روک پائیں گے؟ ایک ہزار ایک فیصد جواب نہیں میں ہے۔ اپوزیشن کچھ نہ کرے، تب بھی!