نئے چیف جسٹس جناب آصف سعید خان کھوسہ نے منصب سنبھالنے سے قبل ریاستی اداروں کے درمیان بد اعتمادی ختم کرنے، آئین و قانون کی حکمرانی قائم کرنے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے صدر مملکت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ میثاق حکمرانی کے لیے تمام اداروں کے ذمہ داروں کا اجلاس بلائیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نئے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پارلیمانی عدالتی،انتظامی اور فوجی قیادت ریاستی امور چلانے کے لیے عملی پالیسی کا فریم ورک بنائیں۔ آئین کی حکمرانی و جمہوریت کی مضبوطی کے لیے مفاہمتی لائحہ عمل طے کریں۔ عدالتی نظام کی افادیت کے ضمن میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالتی نظام کو دوبارہ ترتیب دینے کا وقت آ گیا ہے۔ سپریم کورٹ صرف قانونی نکتے پر اپیل سنے گی جبکہ سو موٹو کا اختیار بہت کم استعمال کیا جائے گا۔ محترم چیف جسٹس نے تمام خصوصی عدالتیں ختم کر کے ایک عدالتی نظام کو مستحکم بنانے کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوجی عدالتیں جاری رکھنی ہیں تو پھر ملزمان کو اپیل کا حق بھی دینا چاہیے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سربراہ کے طور پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی تقرری کا ملک بھر میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ایک اصول پسند جج کے طور پر معروف ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے جب تمام ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا حکم دیا تو اس وقت آصف سعید کھوسہ لاہور ہائیکورٹ کے جج تھے۔ انہوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔ ججز بحالی تحریک کے نتیجے میں جب اس وقت کے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ افتخار چودھری بحال کر دیئے گئے تو جناب آصف سعید کھوسہ بھی لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج اپنے فرائض کی بجا آوری پر آمادہ ہو گئے۔ اعلیٰ ملکی و غیر ملکی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیس برس تک وکالت کرنے والے آصف سعید کھوسہ اصولوں کی پابندی کی علامت ہیں۔ ایسے شاندار قانونی کیریئر اور تجربے کے مالک چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ جب صدر مملکت کو میثاق حکمرانی کی خاطر تمام ریاستی اداروں کا اجلاس بلانے کی تجویز دیتے ہیں تو اس کو ایک خاص تناظر میں اہمیت ملتی ہے۔ پاکستان ایسے دور سے گزر رہا ہے۔ جہاں مثالیت پسند سیاسی ادارے داخلی تضادات،جمہوری اصولوں سے روگردانی اور ریاستی ترجیحات کو فراموش کرنے کی وجہ سے عوام کے لیے ناپسندیدہ قرار پا رہے ہیں۔ جمہوری نظام کی شکل چونکہ سیاسی جماعتوں،سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں نے تشکیل دی ہے اس لیے جب عوام اور ریاست کو نظرانداز کر کے یہ جماعتیں مخصوص افراد اور خاندانوں کے مفادات کی محافظ بن کر رہ جائیں گی تو جمہوریت کے لیے درکار زنجیر کی کڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی نہیں رہتیں اور گورننس یا حکمرانی بکھر کر رہ جاتی ہے۔ کسی معاشرے کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ وہاں قانون کی بالادستی اور آئین کا احترام موجود رہے۔ ہر شخص اپنے سرکاری و عوامی اختیارات کے ضمن میں خود کو جوابدہ سمجھے۔ کوئی ادارہ یا شخص خود کو احتساب سے ماورا نہ سمجھے۔ گروہوں، جماعتوں اور دھڑوں کے مفادات ریاست کے مفادات کے مقابل آ کھڑے ہوں تو ریاست کے مفادات کو ہر صورت ترجیح ملنی چاہیے۔ ہر مہذب جمہوری ریاست میں ایسا ہوتا ہے۔ اسی لیے وہاں معاشرے میں کسی شخص یا ادارے کے بارے میں یہ تاثر پنپ نہیں پاتا کہ وہ قانون سے ماورا ہے۔ پاکستان میں کئی برس پہلے جنوبی افریقہ کے ’’سچائی اور مفاہمتی کمشن‘‘ کی طرز پر ایک کمیشن بنانے کی تجویز زیر بحث رہی ہے۔ اس تجویز کو پیش کرنے والوں کا خیال تھا کہ ملک میں ٹکرائو ،بدعنوانی، قانون شکنی، اختیارات سے تجاوز اور جمہوریت پر آمریت کا شب خون مارنا سیاسی، انتظامی، عدالتی و دفاعی حلقوں کی طرف سے بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی سے چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ جن شخصیات اور اداروں سے غلطیاں ہوئیں وہ اپنی غلطیاں تسلیم کریں اور پھر الزامات کا بوجھ اتار کر ایک ٹیم کے طور پر ریاست کی بہتری اور عوام کی ترقی کے لیے نئے سرے سے کام کریں۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ کئی ریاستی ادارے اپنے فرائض پوری طرح انجام نہیں دے سکے۔ اس کوتاہی کے اثرات جب منفی انداز میں ریاست پر مرتب ہوتے ہیں تو سب ایک دوسرے کو مواد الزام ٹھہرانے گئے ہیں۔ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت ہے مگر سوال کیا جاتا ہے کہ کیا یہ جمہوریت کا وہی عوام دوست چہرہ ہے جو مغربی ریاستوں میں دکھائی دیتا ہے۔ وہاں جمہوریت اور سیاسی جماعتیں عوامی بہبود اور ریاستی مفاد کے معاملے پر اس قدر حساس کیوں ہیں؟ ہمارے ہاں نیب نے معاملات کی تحقیقات مکمل کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ بہت سے طاقتور افراد کے خلاف الزامات کی تحقیق کی جا رہی ہے۔ مہذب رویہ تو یہی ہے کہ ادارے قانون کے دائرے میں رہیں اور جن لوگوں پر الزامات ہیں وہ قانونی طریقے سے الزامات کا جواب دیں لیکن یہاں جوابی الزامات کی گرد اڑانے کا چلن عام ہے۔ ان حالات میں چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ کا مشورہ قابل قدر ہے۔ صدر مملکت ریاست کے سربراہ کے طور پر تمام افراد، جماعتوں اور اداروں کے لیے قابل احترام ہیں۔ گورننس یا حکمرانی کے امور پر ابہام اور زبردستی ہمیشہ نظام کو داخلی لحاظ سے کمزور کرتی ہے۔ اس معاملے پر اتفاق رائے پیدا کر کے ریاست کو استحکام فراہم کیا جا سکتا ہے۔