سیانے کہتے ہیں کہ اُمید پر دنیا قائم ہے۔ہم بھی بہتری کی اُمید کے سہارے زندہ ہیں ۔آج جبکہ کہیں سے کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی تاہم کوئی ایک آدھ خبراچھائی کی اُمید اور آس کے سہارے مل جائے تو خوشی ہوتی ہے ۔ خوشی ہے کہ پاکستان کو انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ لاء آرگنائزیشن کا صدر منتخب کیا گیا ہے ۔ سفارتی سطح پر بھارت نے بہت کوشش کی مگر اُسے شکست ہوئی اور پاکستان کو تین سال کے لئے صدر منتخب کر لیا گیا ۔ دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے پاکستان پر دبائو ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ شاید عمران خان اسرائیل کو تسلیم کر لیں ، اس دوران عمران خان کا واضح اور دوٹوک بیان آیا ہے کہ اسرائیل کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے ۔ متحدہ عرب امارات نے تسلیم کر لیا ، حیرانگی اور پریشانی والی بات یہ ہے کہ عرب ممالک کا جھکاؤ پاکستان کی بجائے اسرائیل کی طرف ہے ۔ سعودی عرب اور عرب امارات نے کام کرنے والے پاکستانیوں کو نوٹس جاری کئے ہیں جبکہ بھارت کو نہیں ۔ یہ خوفناک صورتحال ہے ۔ اس مسئلے کو حکومت سنجیدگی سے لے کہ یہ ہماری معیشت کا بھی مسئلہ ہے ۔ ہم اگر اندرونی صورتحال کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار نے بلوچستان کے وزیر خزانہ ظہور بلیدی اور وزیر صنعت حاجی محمد خان طور کی قیادت میں آنے والے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بڑا بھائی پنجاب بلوچستان کی ترقی میں گہری دلچسپی رکھتا ہے ۔ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بلوچستان کے طلباء و طالبات کیلئے سیٹیں مختص کی کی گئی ہیں اورتربت میں ہسپتال بھی بنا رہے ہیں۔ جہاں تک پنجاب کے بڑے بھائی کا سوال ہے تو رقبے میں بلوچستان سب سے بڑا اور آبادی میں پنجاب بڑا ہے ۔ اس لحاظ سے بڑے بھائی والا جملہ درست نہیں ہے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے ،بلوچستان کو کسی بھی لحاظ سے کسی دوسرے صوبے کی مدد کی بجائے بلوچستان کے وسائل بلوچستان کو دینے اور بلوچستان کے عوام کی بہتری کیلئے خرچ کرنے کی ضرورت ہے ۔عثمان خان بزدارکا مینڈیٹ وسیب کی محرومی کا خاتمہ اور صوبے کا قیام ہے ۔ سردار عثمان خان بزدار صوبہ محاذ کے رکن تھے اور اسی نعرے پر انہوں نے کامیابی حاصل کی ۔ ان کے منصب کا تقاضا ہے کہ وہ دوسرے صوبوں کی بجائے اپنے صوبے خصوصاً محروم سرائیکی خطے کے مسائل حل کریں ۔ عثمان خان بزدار کے بارے میں لاہور میں یہ مشہور ہے کہ وہ اپنے صوبے کی بجائے دوسرے صوبے کے مسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ ان باتوں کا اظہاراس لئے ضروری ہے کہ اگر ہم نہیں تو اور کون بات کرے گا۔ دکھ اس بات کاہے کہ میری وزیر اعلیٰ سے ملاقات ہوئی میں نے وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کو کوئی ایک بھی ذاتی کام نہ کہا۔ میں نے زبانی طور پر اور تحریری طور پر الگ الگ درخواستوں کے ذریعے وسیب کے مسائل کا ذکر کیا ۔ ڈی جی خان ، بہاول پور کو سی پیک سے لنک کرنے، وسیب میں کیڈٹ کالج ،موٹرویز ، یونیورسٹیز اور صوبہ کمیشن جیسے مطالبات پیش کئے ۔عظیم سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی اور عالمی شہرت یافتہ الغو زہ نوازحاجی غلام فرید کنیرا کے علاج کے لئے تحریری درخواستیں پیش کیں۔ ابھی تک کسی ایک بھی درخواست کو شرفِ قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔اصولی طور پر دوسرے صوبے سے پہلے وزیر اعلیٰ کو اپنے گھر کی خبر لینی چاہیئے۔ وسیب کے لوگوں کو قطعی طور پراعتراض نہیں کہ کسی دیگر صوبے کے طلبہ کیلئے کوٹہ مختص ہو،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی اور صوبے نے وسیب کے مستحق اور غریب طلبہ کیلئے اپنی یو نیورسٹیوں میں کوٹہ مختص کیا ہے ؟۔ وزیر اعلیٰ عثمان خان بزدار کی خواہش پر ریڈیو ملتان سے بلوچی سروس شروع کرائی گئی ، کیا ریڈیو کوئٹہ سے سرائیکی اورپنجابی پروگرام نشر ہوتے ہیں اگر نہیں ہوتے تو کیا وزیراعلیٰ نے اس بارے میں کوئی بات کی۔ بلوچستان کے وسیع علاقوں میں صدیوں سے سرائیکی بولی جاتی ہے ۔ کوئٹہ میں دوستوں نے مجھے بتایا کہ 80کی دہائی میں کوئٹہ میں سرائیکی سنگت موجود تھی اور بڑی دھوم دھام سے ادبی ثقافتی پروگرام ہوتے تھے ۔ معروف سرائیکی دانشور اسلم رسولپوری کے بھائی اور صدارتی ایوارڈ یافتہ سرائیکی لکھاری اسماعیل احمدانْی کے داماد فاروق آتش سرائیکی سنگت کے صدر تھے ۔ سرائیکی سنگت کے پروگراموں میں سابق وزرائے اعظم میر ظفر اللہ جمالی اور سید یوسف رضا گیلانی سمیت ملک کے نامور سیاستدان شامل ہوتے رہے ۔عالمی شہرت یافتہ رائٹر امداد نظامی جن کا تعلق کوٹ مٹھن سے تھا ان پروگراموں کی سرپرستی کرتے ،سابق گورنر رحیم الدین کی زوجہ محترمہ ثاقبہ رحیم الدین جو کہ بہت بڑی ادیبہ تھیں سرائیکی سنگت کے پروگراموں میں شریک ہوتی رہیں۔مگر آج سرائیکی ناصرف یہ کہ بلوچستان میں غریب الوطن ہے بلکہ دکھ ہوتا ہے کہ گزشتہ دوعشروں کے دوران بلوچستان میں محنت مزدوری کرنے والے مزدوروں کو مختلف واقعات کے دوران ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا اور افسوس اس بات کا بھی ہے کہ بلوچستان کے سابقہ و موجودہ وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ساتھ پنجاب کے سابقہ وزرائے اعلیٰ میں آج تک کسی نے انصاف تو کیا اشک شوئی تک نہیں کی ۔ گزشتہ روز خواتین کا عالمی دن منایا گیا ۔اور مختلف تقریبات میں خواتین کے حقو ق کی بات ہوئی ۔روزنامہ’’92‘‘میں میرے گزشتہ روز کے کالم کی دوستوں نے پذیرائی کی۔خواتین کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر کی وفات کا سب کو افسوس ہے ۔کہا گیا ہے کہ آج لندن اور کل لاہور میں نماز جنازہ ہوگا ۔ کہا جاتا ہے کہ میت ایک فلائٹ کارگو کے ذریعے لائی جا رہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے اس بات کا بجا طور پر اعتراض کیا کہ میاں برادران جب برسراقتدار تھے تو معمولی کاموں کے لئے بھی خصوصی طیارے پر چلے جاتے تھے ۔ آج والدہ کی بات آئی ہے تو کارگو کا سہارا لیا گیا ہے ۔ملتان میں نوجوان صحافی آصف فروخ علی،سابق ایڈمرل فصیح بخاری، سندھ کی سابق وزیر ریلوے جام منگریو،سابق وزیر دفاع چودھری احمد مختار، نشترمیڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹرمشتاق احمد ، معروف قانون حیدر گردیزی کی وفات پرافسوس کے ساتھ دُکھ اس بات کا بھی ہے کہ اس دوران بہت سے غریب فوت ہوئے جن کا نام لیوا بھی کوئی نہیں ۔