نیویارک (ندیم منظورسلہری) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی نے نیویارک میں امریکی وزیر خارجہ انتھونی جے بلنکن کیساتھ ملاقات کی ۔ دوران ملاقات دو طرفہ تعلقات اور افغانستان کی ابھرتی ہوئی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا پاکستان اور امریکہ کے درمیان قریبی رابطہ ہمیشہ دونوں ممالک کیلئے اور جنوبی ایشیائی خطے کیلئے منفعت کا باعث رہا ہے ،پاکستان امریکہ کے ساتھ تجارت ، سرمایہ کاری ، توانائی اور علاقائی روابط کی بنیاد پر استوار اور متوازن تعلقات کا خواہاں ہے ۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا۔وزیر خارجہ نے افغانستان میں ایک جامع سیاسی تصفیے کے لئے پاکستان کی جانب سے کاوشیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا، طالبان کو اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہئے ، امید ہے کہ دنیا افغانستان کو تنہا چھوڑنے کی غلطی نہیں دہرائے گی۔ بلنکن نے افغانستان سے امریکی شہریوں اور خطرات سے دوچار افغانیوں کے محفوظ انخلا میں معاونت کی فراہمی اور خطے میں قیام امن کیلئے پاکستان کی کاوشوں کو سراہا۔شاہ محمود قریشی سے ترک وزیر خارجہ میولوت چاوش اولو نے ملاقات کی۔شاہ محمود نے کہا ترک قیادت کی جانب سے عالمی سطح پر مظلوم کشمیریوں کی حمایت سے ان کے حوصلے بلند ہوئے ۔ شاہ محمود سعودی وزیرخارجہ سے بھی ملے ۔شاہ محمود قریشی نے او آئی سی رابطہ گروپ برائے جموں کشمیر کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا 5 اگست 2019 سے 80 لاکھ کشمیری بدترین محاصرے ، بلاجواز گرفتاریوں اور غیر معمولی قدغنوں کا سامنا کرتے آ رہے ہیں، ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ کی حامل بی جے پی سرکار کشمیریوں کی خصوصی حیثیت کو مٹانے کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کے درپے ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے آسٹریا کے وزیر خارجہ الیگزینڈر شیلنبرگ،سلووینیا کے وزیر خارجہ اینزے لوگار سے بھی ملاقاتیں کیں۔ شاہ محمود قریشی نے بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈ کراس کے صدر پیٹر مورر کے ساتھ ملاقات میں کہا افغانستان میں بڑھتی ہوئی بھوک، افلاس اور افراط زر کے پیش نظر افغانستان کے منجمد اثاثوں کا کھولنا انکی بروقت امداد کے مترادف ہوگا۔ شاہ محمود قریشی نے امریکی خبررساں ادارے کو انٹرویو میں تجویز دی ہے کہ بین الاقوامی برادری ایک روڈ میپ تیار کرے جو افغان طالبان کی سفارتی پہچان کا باعث بنے اور اس میں ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مراعات ہوں اور پھر آمنے سامنے بیٹھ کر گروپ کے رہنماؤں سے بات کریں۔ وزیر خارجہ نے کہا پاکستان اپنے پڑوس میں اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت سے نمٹنے کے لئے ان چیزوں پر انحصار کر رہا ہے کہ حقیقت پسند بنیں، صبر کا مظاہرہ کریں، مشغولیت اپنائیں اور سب سے بڑھ کر تنہا نہ کریں۔انہوں نے کہا طالبان قیادت سے توقعات میں ایک جامع حکومت اور انسانی حقوق کی یقین دہانی شامل ہو سکتی ہے ، بدلے میں افغان حکومت کو کئی دہائیوں کی جنگ کے بعد اب بحالی میں مدد کے لئے امداد حاصل کر کے حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے ۔انہوں نے امریکہ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر ممالک پر زور دیا جنہوں نے افغان حکومت کے فنڈز کو منجمد کر دیا ہے کہ فوری طور پر رقم جاری کی جائے ۔