کوئی شقی القلب انسا ن ہی حیدر پورہ سرینگر میں حال ہی میں ہوئے ’’جعلی مقابلے ‘‘کے دوران ہلاک شدہ محمد الطاف بٹ اور ڈاکٹر مدثر گل کے لواحقین اور انکی کم سن بچیوں کی فریادیں سن کر خون کے آنسو نہ رویا ہوگا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وہ انصاف یا ظالموں کو سزا دینے کی مانگ کرنے کے بجائے الطا ف اور مدثر کی لاشوں کی تدفین اور نماز جنازہ ادا کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ عوامی دباوٗ کی وجہ سے بعد میں انکی لاشیں ورثاء کے سپرد تو کی گئیں ، مگر پولیس کی نگرانی میں بس چند لوگوں کی معیت میں رات کے اندھیرے میں تدفین کی اجازت دی گئی۔جموں خطے کے رام بن ضلع کا مزدر عامر ماگرے ، بھی اس مقابلے میں ہلاک ہوا۔ اسکی لاش ابھی تک ورثاء کے سپر د نہیں کی گئی ہے۔ اس کے والد کو خود بھارتی فوج نے 2004 میں حب الوطنی کی سند عطا کی تھی، کیونکہ اس نے پتھر سے ایک عسکریت پسند کو مبینہ طور پر ہلاک کردیا تھا۔گو کہ کشمیر میں اس طرح کی ہلاکتیں نئی چیز نہیں ہیں، مگر 2019کے بعدلاشوں کو ورثا ء کو سپرد کرنے کے بجائے کئی سو کلومیٹر دور نامعلوم قبروں میں دفنانے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 837افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں 172 سیکورٹی فوسز کے اہلکار تھے۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرل کے پاس ورثاء کی موجودگی اور آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے خود ہی نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔ جموں وکشمیر کے طول وعرض میں گزشتہ 30 برسوں کے دوران ایسے لاتعداد المناک واقعات رونما ہوئے ہیں جنہیں ضبط تحریر میں لانے سے خوف کی آندھیوں کا سامناکرناپڑتاہے۔دنیا کے دیگر تنازعات کو کور کرتے ہوئے اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ ان کے مقابلے ، کشمیر میں ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی پامالی بہت کم رپورٹ ہوئی ہے۔ ایسے علاقے بھی ہیں، جہاں میڈیا کی رسائی ہی نہیں ہوسکی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 90 کی دہائیوں میں ہندواڑہ کے لنگیٹ علاقے میں جنگلوں سے ایندھن کیلئے لکڑیا ں لانے والے گھوڑا گاڑی والوں کیلئے لازم ہوتا تھا لکڑیوں کا ایک حصہ راستے میں دو ملٹری کیمپوں میں جمع کرائیں۔یہ سلسلہ ایسے ہی برسوں چلتارہا۔ پھر ایک دن 1997ء میں منزپورہ کا غلام احمد وانی، جو مقامی ممبر اسمبلی عبدالاحد کار کا رشتہ دار تھا، نے کچھ کم ہی مقدار میں لکڑیاںجمع کروائیں۔ اس پر سنتری کے ساتھ توں توں میں میں ہوگئی۔ چونکہ 1996 میں اسمبلی انتخابات کے بعد فارق عبداللہ کی قیادت میں نام نہاد عوامی حکومت قائم ہوئی تھی، اسلئے وانی، ممبر اسمبلی کے ساتھ اپنی رشتہ داری کو طاقت سمجھنے کی حماقت کر بیٹھا تھا۔ چند گز دور اسکول کے بچے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے ۔بس پھر کیا تھا سنتری نے بنکر سے باہر نکل کر اپنی بندوق گاڑی بان کے سینے کی طرف موڑکر گولی چلائی اور وانی کے سینے سے گرم گرم خون کے فوارے سڑک کو لال کرگئے۔ گھوڑا فائرنگ کی آواز سن کر بھاگنے کے بجائے اپنے مالک کی لاش کے گرد محافظ کی طرح کھڑا ہوگیا۔ اس گھوڑے کی وفاداری کو آج بھی اس علاقے میں لوگ یاد کرتے ہیں۔ اسی علاقے میں شاہ نگری نامی گائوں میں حزب المجاہدین کا ایک عسکری غلام حسن کمارکا گھر تھا۔ اس کی بوڑھی ماں اوربیوی کا جینا سپاہیوںنے دوبھر کر دیا تھا۔ یہ بدنصیب ساس اور بہو شایدعلاقے سے ہجرت کر جاتیںلیکن ان کے پاس نہ کوئی وسائل تھے اور نہ ہی گھر میں کوئی مرد موجودتھا۔ غلام حسن کا دوسرا بھائی محمدیوسف کمار بھی فوج کے ہاتھوں کافی سختیاں اٹھانے کے بعد جیل میں تھا ،جبکہ غلام حسن کی دس برس کی اکلوتی بیٹی آنکھوں کی مہلک بیماری کا شکار تھی۔ غلام حسن کی بیوی جانہ بیگم کاپائوں بھاری تھا ۔ پھر ایک رات لگ بھگ نو بجے اخوانیوں(سرکاری بندوق برداروں)کی ایک ٹولی نے ان کے گھر پر دستک دی۔ جیسے ہی جانہ بیگم دروازہ سے باہر نکلی تو بندوق برداروںنے اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ جسم میں اتنی زیادہ گولیاں پیوست کی گئیں کہ اس کے بطن میں پلنے والے بچے کی ٹانگ، بازو اور جسم کے ٹکڑے ہوکر باہر بکھر گئے۔ اگلے دن جب جانہ بیگم اور اس کے بچے کا جنازہ اٹھا تو کسی کو رونے کی اجازت نہیں تھی۔ بدنصیب اندھی بیٹی نے اپنی ماں کی قبر پر ننھے معصوم ہاتھوں سے کچھ مٹی بھی ڈال دی ۔ بوڑھی ساس اور پوتی نے آخری بار قبر اور اس کے ساتھ اپنے اجڑے ہوئے گھر کی طرف دیکھا اور پھر ان دونوں کے قدم کسی نامعلوم منزل کی جانب چل دیئے۔ سارا گائوں بڑھیا اور اس کی پوتی کو الوداع کہہ رہا تھا لیکن کسی میں بھی ان کو روکنے یا ان کے ساتھ ہمدردی کرنے کی ہمت نہ تھی، کیونکہ یہ موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ اسکے آدھے گھنٹے کے بعد دیہاتیوں کو حکم ملا کہ پورا مکان گرا دیا جائے اور اسکی ساری لکڑی اپنے کاندھوں پر لاد کر د چار کلومیٹر دورقلم آباد کے ملٹری کیمپ میں جمع کرائیں۔ اسی طرح 70برس کے سیرعلاقہ کے نمبردار شمس الدین کو کیمپ میں بلا کر بتا یا گیا کہ اسکے گائوں میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور اس کی ساری ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ ابھی وہ اپنی صفائی دینے کے لئے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ میجر صاحب نے انہیںپاس ہی کیچڑ کے گڑھے میں کھڑا ہونے کو کہا۔ سپا ہیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ کیچڑ نمبردار صاحب کے چہرے اور کپڑوں پر مار دیں۔ علاقے کی اس ذی عزت شخصیت کو بتایا گیا کہ وہ بھر ے بازار سے ہوتے ہوئے ایسے ہی گھر جائے۔ اس واقعے کا ان پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ وہ بیمار پڑ گئے اور پھر کچھ عرصے کے بعد داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ بدقسمتی سے بھارت کی سیاسی پارٹیوں میں چاہے کانگریس ہو یا بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، دونوں کا رویہ کشمیریوں کے ساتھ یکساں رہا ہے۔ مسئلہ کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے وہ کشمیر کو منیج کرنے کی پالیسی پر گامزن رہی ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ بی جے پی نے مخملی گلاو ز اتار کر پھینک دیے ہیں۔ کانگریس حکومت مرنے مارنے کے بعد لفظی جمع خرچ سے مرہم لگانے کا کام کرتی تھی۔ معروف اسٹریجک جریدہ ’’فورس‘‘ میں غزالہ وہاب نے حال ہی میںکشمیر کا دورہ کرنے کے بعد تحریر کیا ہے کہ پورا خطہ بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ کشمیر ایک بڑی اوپن جیل بن چکی ہے، جہاں کے مکینوں کو لگتا ہے کہ وہ قید ہیں۔ حکومت کی پالیسی ہے کہ آوٹ ریچ کے بجائے عوام کے دلوں میں خوف و دہشت کی فضا قائم کی جائے۔ اس کی مثال حال ہی میں ٹی۔20ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت کے بعد آگرہ کے تاریخی شہر میںا نجنیئرنگ کالج کے کشمیری طلبہ پر غداری کا مقدمہ درج کرنا ور سرینگر میں میڈیکل کالج کے طلبہ پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کیس رجسٹر کرنا ہے۔ آگرہ کی بار ایسوسی ایشن نے ان طلبا کو قانونی نمائندگی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یعنی ان کا کہنا ہے کہ طلبہ کا جرم دہشت گردی سے کم نہیں ہے۔ ادھر جنوب میں کرناٹک میں کانگریس کی طلبہ تنظیم نے کشمیری طلبہ کے خلاف شکایت درج کرائی ہے۔اسی طرح اب کشمیر میں سرکاری ملازمین کو بیک جنبش قلمبرطرف کرکے بے روزگارکرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ان سے کوئی وضاحت بھی طلب نہیں کی جاتی ہے۔ بس اتنا بتایا جاتا ہے کہ و ہ ’’ملک دشمن سرگرمیوں‘‘ میں ملوث ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عملداری سے مبرا ہے۔ یہاں حکمران لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کی طرف مجبور کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ کشمیر نے پچھلی تین دہائیوں میں ایسے ہیبت ناک مظالم دیکھے ہیںجنہیں بیان کرنے کے لئے پتھر کا دل چاہئے۔ پتہ نہیں کب تک یہ بدقسمت اور مظلوم قوم تاریخ کے گرداب میں پھنسی رہے گی۔یہ بھی سچ ہے کہ ظلم و بربریت کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ بس انتظار ہے ، اس دن کا جس کا وعدہ ہے۔ جب ظلم و ستم کے کوہ گراں روئی کی طرح اڑ جائیں گے