پاکستانیوں نے پرائی شادی میں عبداللہ بننے کی ٹھانی ہوئی ہے خواہ وہ ترکی کے انتخابات ہوں یا فیفا ورلڈ کپ۔آخر الذکر پھر غنیمت ہے کہ یہاں عبداللہ کو صرف بھنگڑے ڈالنے کی زحمت کرنی پڑتی ہے کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا والا محاوراتی مصرع پڑھنے کی نوبت بھی ابھی نہیں آئی، مزا تو تب آتا ہے جب ترکی کے انتخابات کو حق وباطل کی جنگ بنا کر ایک ایک لمحے کی ایمان افروز رپورٹنگ ایسے کی جاتی ہے جیسے طیب اردوان گھوڑے پہ سوار بیت المقدس فتح کرنے چلے ہوں اور بہت بہت مبارک ہو وہ کامیاب بھی ہوگئے ہیں۔ مجھے اس مودت و محبت کے اس ایمانی مظاہرے پہ کوئی اعتراض نہیں۔ اس میں بہت ہاتھ خود طیب اردوان کا بھی ہے جنہوں نے امت مسلمہ بالخصوص پاکستانیوں کی اس دکھتی رگ پہ وقفے وقفے سے ہاتھ رکھا ہے لیکن ووٹ انہیں ترکی سے ہی ملتے ہیں۔انہوں نے یا اللہ بسم اللہ اللہ اکبر کو اپنا نعرہ بنا کر جذبات کو براہ راست مخاطب بھی کیا ہے اور متاثر بھی۔ ان کی بیگم مکمل حجاب میں ان کے ساتھ ہوتی ہیں لیکن ان کے حریف محرم انچے کی والدہ بھی حجاب لیتی ہیں۔ممکن ہے خود طیب اردوان اس معاملے کو اس طرح نہ لیتے ہوں لیکن پیر نہیں اڑتا مرید اڑاتے ہیں۔ ترکی کا آئین سیکولر ہے جس میںترکی میں جولائی 2016 ء میں ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے بعد تبدیلیوں کے لئے ریفرنڈم کروایا گیا لیکن اس کے سیکولر آئین ہونے کی بنیادی شق کو نہیں چھیڑا گیا۔ اس بغاوت سے پہلے اپریل 2016 ء میں ترک پارلیمنٹ کے اسپیکر اسماعیل کہرامان جن کا تعلق طیب اردوان کی اق پارٹی سے ہی تھا یہ اعلان کرکے تہلکہ مچا دیا تھا کہ ترکی کا آئین مذہبی ہونا چاہئے۔ ترکی کے نئے دستور میں ترک قوم کا تشخص و شناخت ایک اسلامی ملک کے طور پہ ہونا ضروری ہے اور ضروری ہے کہ نئے دستور کی اساس مذہب پہ ہوچونکہ طیب اردوان آئین میں ترامیم کے لئے کوشاں رہے ہیں اس لئے اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ شاید ترکی کے آئین کی اس بنیادی شق کو بھی تبدیل کردیا جائے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اسماعیل کہرامان کے اس بیان پہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جو شدید احتجاج ہوا اسے طیب ارودان کے اس وقت کے وزیر اعظم داود اوغلو نے فرو کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ ترکی کا آئین ہر حال میں سیکولر ہی رہے گا بلکہ ترکی آئین میں سیکولرازم کی زیادہ لبرل تشریح کی جائے گی تاکہ تمام مذاہب سے ریاست کا مناسب و مساوی فاصلہ برقرار رہے۔داود اوغلو کا تعلق بھی طیب اردوان کی اق پارٹی سے ہے اور یہ وہی ہیں جنہیں طیب اردوان نے پیرس میں شارلے ہیبدو میگزین کے قتل ہونے والے ایڈیٹروں کے ساتھ یکجہتی کے عالمی مظاہرے میں شرکت کر کے ترکی کی نمائندگی کی تھی۔ کیا یہ بھی یاد دلانا پڑے گا کہ شارلے ہیبدو نے شان رسالت میں بدترین گستاخی کی تھی اور یہ مظاہرہ آزادی اظہار رائے کے عالمی منشور کا عظیم الشان مظاہرہ تھا جس وقت خود ترکی کی عوام اس بدترین گستاخی پہ سڑکوں پہ نکلی ہوئی تھی تو داود اوغلو اپنے صدر طیب اردوا ن کی تاکید پہ عالمی مظاہرے میں شریک تھے جبکہ وہ خود زبانی لعن طعن میں مصروف تھے۔ ممکن ہے ترکی کو یورپی یونین میں شمولیت کی مجبوری ہو جو مراکش جیسے ملک کو نہیں تھی اور اس نے شاتمان رسول کے ساتھ مودت کے اس مظاہرے میں شرکت سے معذوری ظاہر کردی تھی۔طیب اردوان کے سیکولر اسلام کے ان مظاہر کی مثالیں جابجا ترکی میں بکھری پڑی ہیں۔جسے ہو شک وہ جائے دیکھ آئے اسے۔یوں بھی ہماری جماعت اسلامی کا ایک پاوں ترکی میں ہوتا ہے حالانکہ وہ دونوں پاوں یہیں رکھیں تو شاید قدم جمانے میں آسانی ہو۔ طیب اردوان کے ان ہی رنگا رنگ اقدامات کو وہ تدرج سے تعبیر کرتے ہیں جو ہمارے بزرگوار خورشید ندیم کا پسندیدہ موضوع ہے۔ خود طیب اردوان بارہا سیکولر ازم کو ترکی کی اساس قرار دیتے رہے کہ اسی میں ان کی بچت بھی ہے۔جب وہ اندرون ترکیہ اپنی انتخابی مہم چلاتے ہیں تو اسلام کا نام بھی نہیں لیتے۔وہاں وہ معیشت اور گرتے ہوئے ترک لیرا کی بات کرتے ہیں جو اس وقت ترکی کا اصل مسئلہ ہے۔ خود ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاکستانی مداح انہیں صلا ح الدین ایوبی بنا دیتے ہیں (جو کرد تھے) اور مخالف انہیں سلطان محمد ثانی بنا کر دنیا کو ترک خلافت سے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ خود اسلامی سعادت پارٹی ان کے خلاف نیشنل اتحاد کا حصہ تھی ۔خود ان کے انتخابی منشور میں اسلامی نظام کا کوئی ذکر نہ تھا۔ طیب اردوان نے آئینی اصلاحات کے لئے جو ریفرنڈم کروایا اور اس میں کامیابی حاصل کی، اس میںترکی کے سیکولر تشخص کو چھیڑنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ ان اصلاحات کا مقصد پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی تبدیلی اور صدر کے لئے زیادہ سے زیادہ اختیارات کا حصول تھا۔ طیب اردوان 2005 ء سے صدارتی نظام کے لئے آئینی اصلاحات لانے کی کوشش کررہے تھے اور بالآخر 2017 ء میں کامیاب ہوئے۔ آپ ان انتخابی اصلاحات کا بغور جائزہ لیں تو باآسانی علم ہوگا کہ اس میں صدر کو کتنے اختیارات حاصل ہیں۔ اس کی شق 9 تو صدر کو قانون سازی کا اختیار بھی دیتی ہے جو پارلیمنٹ منسوخ کرسکتی ہے لیکن اگر پارلیمان میں بھی صدر کی پارٹی یا اتحاد اکثریت میں ہو تو اسے کون چیلنج کرے گا۔اس کے علاوہ صدر کے پاس تمام مشیر اور نائبین مقرر کرنے کا اختیار ہوگا اور غالبا ًپولینڈ کی طرز پہ ججوں کی تعیناتی کا اختیار بھی۔اس کے علاوہ وہ جتنے چاہیں گے اپنے نائب صدر مقرر کر سکیں گے۔اگر پارلیمنٹ میں اکثریت بھی منتخب صدر کی پارٹی کو حاصل ہوئی جو کہ ان بے پناہ اختیارات کے ساتھ ہونی ہی ہے، تو اپوزیشن کی کیا حیثیت رہ جائے گی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ جس وقت یہ ریفرنڈم ہوا جس میں اکیاون فیصد ووٹوں سے طیب اردوان نے کامیابی حاصل کی ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی۔ اب جب یہ انتخابات ہوئے ہیں جن میں انہوں نے تریپن فیصد ووٹوں سے کامیابی حاصل کی ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ ایک ناکام فوجی بغاوت کے بعد مخالفین پہ قابو پانے اور اپنے حق میں آئینی اصلاحات لانے کے بعد طیب اردوان کو انتخابات کی جلدی تو ہونی تھی لہٰذہ وہ ڈیڑھ برس قبل منعقد کئے گئے اور ظاہر ہے یہ سارا اہتمام اس لئے تو نہیں کیا گیا تھا کہ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوے سیٹیں لے جائیں۔ طیب اردوان کو انتخابات کی سائنس بہت عمدہ آتی ہے۔ انہوں نے پورا اہتمام کیا کہ الیکشن ان کے ہاتھ سے نکلنے نہ پائے۔ان کے سامنے غالباً ملائشیا کے نجیب رزاق کی مثال موجود تھی جو طویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود مہاتیر محمد سے شکست کھاگئے اور اب بدعنوانی کے جائز مقدمے بھگت رہے ہیں۔ طیب اردوان جن پہ ان کے مخالف مالی بدعنوانی کے ٹھوس الزامات لگاتے ہیں ایسا کوئی رسک لینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اس کے لئے انہوں نے چھوٹی سی چھوٹی تفصیل بھی نظر انداز نہیں کی۔ایک باریک کام تو انہوں نے یہ کیا کہ بیلٹ پیپر پہ متعلقہ حکام کی مہر لازمی قرار نہ دینے کے لئے قانون سازی کی۔ یعنی اب ہر بیلٹ پیپر جس پہ ووٹر نے مہر لگائی ہو ، تسلیم کیا جائے گا چاہے اس پہ پریزائڈنگ افسر کی مہر نہ بھی لگی ہو۔یہ کام آئینی اصلاحات کے ریفرنڈم میں بالکل آخری لمحات میں کیا گیا تھا۔ایک اور کام یہ کیا گیا کہ پولنگ افسران جو پارٹیوں کے اپنے نامزد کردہ ہوتے تھے اور قرعہ اندازی کے ذریعہ مامور کئے جاتے تھے اس بار سرکاری اہلکاروں کو ڈیوٹی دے دی گئی۔ اس پکڑ دھکڑ کے ماحول میں جب عین انتخابی عمل کے دوران فرانس اور جرمنی کے معائنہ کاروں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ، کس کی شامت آئی تھی کہ انکار کرتا۔یہ دو عظیم اقدامات ناکافی ثابت ہوئے تو حلقہ بندیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ووٹروں کا اندراج ان کے حلقوں سے نکال کر دوسرے حلقوں میں کردیا گیا ۔ باقی ترکی پہ طیب اردوان کا کنٹرول کتنا ہے یہ آپ کو معلوم ہے۔ بہرحال ان کی محنت رنگ لائی اور وہ اسی جمہوری عمل کے طفیل صدر منتخب ہوگئے ہیں ۔ اس پہ ان کے حامیوں کی خوشی بجا ہے ہم اس رنگ میں بھنگ ڈالنے والے کون ہوتے ہیں البتہ مجھے اس بات کا کچھ ملال ہے کہ امت مسلمہ کی سابقہ مرکزی حکومت میں مسلمانوں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ اس کا صدر مسلمانوں کے لئے حجاب، داڑھی اور ایسی ہی دوسری فروعات کے حق میں اقدامات کرے تو ہیرو قرار پائے جبکہ اس کا ہیرو تو فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد فاتح ہوا کرتا تھا اور اس بات پہ ہنسی آتی ہے کہ اس کے مخالف بھی اسے خلافت کا تسلسل سمجھ کر اس سے خائف ہوتے ہیں حالانکہ بیت المقدس پہ قابض اسرائیل کے ساتھ آج کے سلطان کے گہرے تجارتی روابط ہیں ۔اس کی تفصیل پھر سہی۔