چند دن بعد پانچ اگست کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35A کی منسوخی کے دوسال پورے ہوں گے۔یہ دن ہمیں مقبوضہ جموں وکشمیر کی تقسیم اور ریاستی درجہ کے خاتمے کی یاد دلاتاہے۔ان دوسالوں میں کشمیریوں کو غیر معمولی آئینی، سیاسی ، معاشی اور تہذیبی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ ریاست کے خدوخال بدلنے کے لیے بھارتیہ جنتاپارٹی نے ایک ایسے منصوبے پر کام شروع کیا جس کا منطقی انجام کشمیریوں کی اسلامی شناخت اور ثقافتی تشخص کا خاتمہ ہے۔ حال ہی میںبھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت نواز کشمیری لیڈروں کے ساتھ ایک نشست کرکے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ کشمیر کے حالات معمول پر ہیں اور بی جے پی کی حکومت سیاسی لیڈروں کے ساتھ کشمیر کے مستقبل کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے گفت وشنید کررہی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم مودی نے اسمبلی حلقوں کی ازسر نو حد بندی میں حکومت کی مدد کرنے کی استدعا کی۔انہوں نے گزشتہ دوبرسوں میں کشمیر میں جاری حالات پر کسی تاسف کا اظہار کیا اور نہ ہی حالات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی اقدامات کرنے کا عندیہ دیا۔ سری نگر میں مبصرین ہی نہیں بلکہ سیاسی پنڈتوں کا بھی کہناہے کہ حد بندی پر اصرار کا مقصد اسمبلی میں غیر مسلم نشستیں بڑھانا ہے تاکہ ایک ہندو وزیراعلیٰ کا انتخاب ممکن بنایاجاسکے جو کہ ایک بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا سات عشروں سے خواب ہے۔ آئینی اور انتظامی اختیارات کے ساتھ ریاستی درجے کی الیکشن سے قبل بحالی کانگریس سمیت بھارت نواز جماعتوں کا مرکزی مطالبہ ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق بی جے پی ریاست کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کے لیے تیار دکھائی ہے بشرطیکہ تمام کلیدی انتظامی امور جیسے امن و امان کو برقرار رکھنا اور مالی اختیارات نئی دہلی کے مقررگردہ طاقتور لیفٹیننٹ گورنر کے پاس ہوں نہ کہ منتخب وزیراعلیٰ کے پاس۔اس تجویز میں بھارت نواز کشمیری سیاستدانوں کے لیے کوئی کشش نہیں۔ نئی دہلی توقع کر رہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر براہ راست حکمرانی سے مقامی شہریوں کے لیے نئے معاشی اور سیاسی امکانات روشن ہوں گے۔ کشمیر پر پایا جانے والا موجودہ بیانیہ بھی دم توڑ جائے گا جو کشمیر کے تنازعہ اور کشمیریوں کی علاقائی،نسلی اور لسانی شناخت کے گرد گھومتاہے اور انہیں بھارت سے الگ اور جداگانہ حیثیت دیتاہے۔عالم یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی توقعات کے برعکس لداخ اور جموں کی کئی ایک معتبر شخصیات کشمیریوں کے مطالبات مثال کے طور پر ریاست کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ کیونکہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کی موجودگی کومقامی باشندوں کی شناخت، ملازمتوںاور زمین کے حقوق کے تحفظ کا ایک موثر ذریعہ سمجھاجاتاہے۔ گزشتہ دوبرسوں میں کشمیریوں کو بڑے پیمانے پر معاشی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔لاک ڈاؤن، انٹرنیٹ کی معطلی اور سیاسی بے چینی کے باعث گزشتہ دو سالوں کے دوران 11 ماہ تک کاروبار لگ بھگ مکمل طور پر بند رہا۔ سری نگر میں قائم ایک کاروباری ادارے کے مطابق ابھی لگ بھگ کشمیر کی معیشت کو سترہزارکروڑ روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔اگرکورونا وائرس کی متوقع چوتھی لہر آگئی تو ان نقصانات میں کئی گنااضافہ ہوجائے گا۔ کشمیریوں کی معاشی کمر ان دوسالوں کے دوران بڑی مہارت کے ساتھ توڑی گئی۔ بھارتی حکومت کو بھی آرٹیکل 370 کی منسوخی سے وہ سیاسی مفاد حاصل نہ ہوا،جس کی وہ امید کرتی تھی۔خود مودی نے کشمیری لیڈروں کے ساتھ گفتگو میں اعتراف کیاکہ دل کی دور ی اور دہلی سے بھی دور ی ہوگئی ہے۔ بی جے پی نے نہ صرف بھارت نواز اتحادیوں کو بے قار کیا بلکہ ملک کی ساکھ اور وقار کو ایک جھٹکے میں برباد کیا۔مثال کے طور پرگزشتہ ماہ کنسرنڈ سٹیزنز گروپ جو کہ معتبر بھارتی شہریوں کا گروپ ہے، نے سری نگر کے دورے کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا: ـ’’ایسا لگتا ہے کہ وادی کشمیر کے لوگ اب بھارتی عوام سے یا دہلی اور سری نگر کی حکومتوں سے کوئی توقع نہیں رکھتے ہیں۔ نوجوانوں میں شدید مایوسی پائی جاتی ہے۔ انہیں پتہ چل چکا ہے کہ ان کے لیے اس سیاسی نظام میں کوئی جگہ نہیں ۔ ان کے حقوق چھین لیے گئے ہیں اور کوئی بھی ان کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہے‘‘۔ پاکستانی حکام نے بھارت کو مذاکرات کی طرف راغب کرنے کے لیے کئی ایک مثبت اشارے دیئے۔ یہاں تک کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو ماضی کو دفن کرنے اور دوطرفہ تعلقات میں ایک نیا باب رقم کرنے کی پیشکش کی۔ نئی دہلی نے جوابی طور پر مایوس کن سردمہری کا مظاہرہ کیا۔ چنانچہ دوطرفہ تعلقات کی بہتری کا جو در کھلا تھا وہ دوبارہ بند ہوگیا۔ قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا کہ نئی دہلی نے مذاکرات کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کیے۔ انہوں نے بھارت کے ساتھ بیک چینل رابطوں کے منقطع ہونے کی بھی تصدیق کی ۔ تاہم مقام شکر ہے کہ بیک چینل رابطوں کے نتیجے میں کنٹرول لائن پر ہونے والی جنگ بندی ابھی تک قائم ہے۔ گزشتہ دو سال کا سبق یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے مسئلے کا کوئی یکطرفہ حل ممکن ہے اور نہ ہی اسٹیٹس برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ بات چیت کی بحالی اور تمام کشمیری سٹیک ہولڈرز کی مذاکراتی عمل میں شمولیت پائیدار حل تلاش کرنے کے لیے ناگیزیرہے۔ پچھلے دو سالوں کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیر کے لوگ امن کے خواہاں ہیں اور بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کی حمایت بھی کرتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر پر اپنے بنیادی موقف پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔