عمران خان کی نیت پر کسی کو شک ہے نہ ارادوں پر شبہ‘ نتیجہ مگر اس کی ہر مثبت کوشش کا اُلٹا ہی برآمد ہوتا ہے‘ کیا ستاروں میں خرابی ہے یا مخالفین واقعی اتنے طاقتور و بارسوخ کہ اس کے ہر اقدام کو ناکامی میں بدل دیتے ہیں؟۔میری طرح اور بھی بہت سے لوگ آج کل یہی سوچتے ہیں؟ دنیا بھر میں پٹرول کوڑیوں کے بھائو بک رہا ہے‘ آئل کمپنیوں کو خریدار نہیں مل رہے مگر پاکستان میں یہ دوگنی قیمت پر دستیاب نہیں۔کسی کو تین گنا قیمت پر مل جائے تو وہ شکرانے کے نفل پڑھ کر عمران خان کو ملاحیاںسناتا ہے کہ ماضی کے حکمران پٹرول مہنگا کرتے تھے ‘کپتان نے غائب کر دیا‘ ایک آدھ دن کی قلت اور نایابی قابل برداشت ہوتی ہے کہ لوگ سپلائی میں گڑ بڑ اور گراں فروشوں کی شرارت سے تعبیر کرتے ہیں مگر پورا ہفتہ ملک کے طول و عرض میں قلت حکومت کی غفلت اور حکومتی اداروں کی نااہلی ہے کمپنیوں نے مناسب سٹاک نہیں خریدا‘21دن کا ذخیرہ نہیں کیا یا سپلائی میں تاخیر ہوئی‘ یہ عوام کا درد سر نہیں‘اوگرا‘وزارت پٹرولیم اور دیگر اداروں سے کہاں کوتاہی ہوئی عام آدمی کو کیا غرض؟وہ صرف اتنا جانتے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل سستا ہے‘ عمران خان نے کریڈٹ لیا کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں عوام کو سستا پٹرول فراہم کیا جا رہا ہے مگر لوگ گاڑیاں ‘ موٹر سائیکل اور رکشے لے کر پٹرول پمپوں پر پہنچے تو ’’سیل بند ہے‘‘ کا بورڈ ان کا منہ چڑا رہا تھا۔ تیل تو چلو باہر سے منگوایا جاتا ہے‘ تیل کمپنیاں ایکا کر کے قلت پیدا کر سکتی ہیں عوام کو سستے تیل کی فراہمی سے اپنا منافع کم کرنا انہیں منظور نہیں‘ لیکن آٹے اور گندم کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ؟ دسمبر‘ جنوری کے مہینوں میں مہنگائی پھر بھی قابل فہم ہے کہ بجائی کے دوران گندم کا ذخیرہ کم ہوتا ہے‘ طلب بڑھ جاتی ہے اور نئی فصل آنے میں تین ماہ کا وقفہ مگر مئی جون کے مہینے میں جب نئی فصل بمشکل کھلیانوں سے گوداموں میں منتقل ہوئی‘ حکومت نے لاکھوں ٹن گندم کی خریداری کا دعویٰ کیا اور دیہی علاقوں میں ہر شہری کے گھر میں گندم وافر مقدار میں موجود‘ آٹے کی مہنگائی؟گندم کی کٹائی سے قبل وزیر اعظم نے ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں کو وارننگ دی‘ سخت قوانین متعارف کرائے گئے اور ملک کے طول و عرض میں چھاپے بھی پڑے مگر نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات‘ آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوا‘ نان‘ روٹی کے نرخ یکطرفہ طور پر بڑھ گئے اور حکومت کی بِھد اڑی۔ کہنے کو یہ بھی مافیا کی کارستانی قرار دی جا سکتی ہے جو موجودہ حکومت کو کسی نہ کسی بہانے ناکام بنانے کے درپے ہے۔ لیکن مافیا کا مقابلہ کس نے کرنا ہے؟ مرغی رمضان المبارک میں سابقہ بھائو پر بکتی رہی‘ کورونا کے باعث شادی بیاہ اور دیگر سماجی تقریبات مارچ سے معطل ہیں‘ مرغی کی کھپت کم ہو گئی ہے ۔ہر سال گرمیوں میں اس کی قیمتیں مزید کم ہوتی ہیں مگر جونہی گرمی بڑھی مرغی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا اور کئی دن تک حکومت نوٹس نہ لے سکی‘ پٹرول ‘ آٹا‘ گندم اور مرغی کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز اب تک حکومت پیش کر سکی نہ آئل کمپنیوں اور تاجروں و دکانداروں نے پیش کیا‘ یہ سارے واقعات اس وقت پیش آئے جب حکومت نے شوگر سکینڈل کے حوالے سے فرانزک رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف قانونی اور فوجداری کارروائی کا اعلان کیا‘ تحریک انصاف کے ووٹر‘ سپورٹر اور عمران خان کے مداح حیران ہیں کہ شوگر سکینڈل کا ذمہ دار تو شریف خاندان اور زرداری خاندان کے علاوہ جہانگیر ترین کو قرار دیا گیا اور کیس نیب‘ ایف آئی اے‘ سٹیٹ بنک وغیرہ کو بھیج دیے گئے لیکن پٹرول کی نایابی اور آٹے ‘گندم‘ مرغی کی مہنگائی کا ذمہ دار کون ہے اب تک ذمہ داروں کا پتہ چلا نہ کسی نے حکومتی اداروں‘ صوبائی حکومتوں سے پوچھا کہ وہ کئی دن تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے کیوں رہے اور جو کارروائیاں وفاقی کابینہ میں معاملہ زیر بحث آنے کے بعد شلجموں سے مٹی جھاڑنے کے لئے اب ہو رہی ہیں وہ روز اوّل نہ کرنے کا سبب کیا تھا؟۔ مافیا سے ملی بھگت‘ کسی فرد یا گروہ کا ذاتی مفاد‘ نالائقی و نااہلی یا عمران خان کو ناکام بنانے کی سازش میں حصہ داری؟ میاں نواز شریف کے دور میں پٹرول کا بدترین بحران پیدا ہوا‘ موجودہ بحران سے زیادہ سنگین‘ ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی‘ چند تبادلے ہوئے اور معاملہ ٹھپ۔ اب بھی کمیٹی بن گئی جس کے ارکان سرکاری خزانے سے ٹی اے ڈی وصول کریں گے ایک آدھ آدمی اِدھر اُدھر ہو گا اور پھر ویسی ہی خاموشی جیسی چند ماہ قبل گندم سکینڈل کے حوالے سے کمشن کی رپورٹ آنے کے بعد حکومتی سطح پر چھا گئی ‘عمر ایوب اور ندیم بابر بدستور وزارتوں اور عوام کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے‘ گندم کمشن نے جو سفارشات پیش کیں ان پر عمل ہوا نہ حقیقی ذمہ داروں کو سزا ملی اور جون میں عوام مہنگا آٹا خریدنے پر مجبور ہو گئے‘ سابق سیکرٹری خوراک نسیم صادق او ایس ڈی بننے کے بعد شور ہی مچاتے رہ گئے کہ یہ گندم کے کاشتکاروں ‘ آٹا صارفین اور حکومت کے خلاف سازش ہے اور فلور مل مافیا دوسرے کئی مافیاز سے زیادہ طاقتور ہے مگر کسی نے ایک نہ سنی۔آٹے کی مہنگائی ‘ نسیم صادق کی بات سچ ثابت کر دی۔ عمران خان نے اب تک مافیاز کی سرکوبی کی جو سعی و تدبیر کی وہ بے ثمر ثابت ہوئی‘ وہ اپنی ہر مخلصانہ کوشش کی ناکامی کے اسباب معلوم کرنے کے لئے ہمیشہ باہر کی طرف دیکھتے ہیں۔ دشمن کو مخالفین کی صفوں میں تلاش کرتے ہیں۔ اپنی حکومت کی کارگزاری بہتر بنانے کا ہر حربہ انہوں نے آزما لیا۔ کبھی بیورو کریسی تبدیل اور کبھی مخالفین کی سرکوبی ‘نتیجہ صفر۔ ہماری مانیں ایک بار اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اپنے وزیروں‘ مشیروں‘ صوبائی وزراء اعلیٰ اور بااعتماد بیورو کریٹس کی نیت ‘ اہلیت ‘صلاحیت ‘ارادوں‘ رابطوں اور کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لیں۔ آئوٹ کلاس خفیہ ایجنسوں کو ٹاسک دیں کہ وہ ان افراد اور اسباب کا پتہ چلائیں جو ہر عوام دوست اقدام کی ناکامی اور حکومت کے لئے ندامت کا سبب بنتے ہیں کہیں خان صاحب بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں مصداق‘اپنی خداداد توانائیاں اور صلاحیتیں بے جا صرف تو نہیں کر رہے‘ سید شبلی فراز‘ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ اور ڈاکٹر بابر اعوان میں سے کوئی خان صاحب کو سید بلھے شاہ کا دکھڑا سنا سکے تو شائد وہ دروں بینی پر آمادہ ہوں ؎ کنہوں کُوک سناواں‘نی میری بُکل دے وچ چور چوری چوری نکل گیا‘ پیا جگت وچ پے گیا شور میری بکل دے وچ چور کہیں عمران خان کو بھی اپنے بکل کے چور ناکام بنانے پر نہ تُلے ہوں کہ یہ مافیاز کا پرانا طریق واردات ہے‘ آخر کوئی تو وجہ ہے دو سال گزر چکے‘عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہے اور سیاسی صورتحال سازگار مگر حکومت کا ہر عوام دوست قدم اُلٹا پڑ رہا ہے آخر مافیاز کو شہ کہاں سے ملتی ہے اور حکومتی ادارے بے بس‘بے حس‘بے سمت نظر کیوں آتے ہیں؟ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا؟