میرپور اور بھمبر اور شمالی پنجاب کے ضلع جہلم میںآنے والے لرزا خیز زلزلے نے ٹھیک تیرہ برس قبل آنے والے زلزلے کی یادیں تازہ کیں۔ اگرچہ جاں بحق افرادکی تعداد 40 سے کم ہے لیکن بنیادی ڈھانچے بالخصوص نجی املاک کو پہنچنے والا نقصان ہمارے تصور سے بھی باہرہے۔ ہرا بھرا گاؤں جاتلاں جو کل تک میرپور کا ایک خوشحال علاقہ کہلاتاہے آج لگ بھگ مکمل طور پر اجڑچکا ہے۔ لوگ صدمے اور گہرے دکھ کی کیفیت میں ہیں ۔ ٹوٹے ہوئے گھر بھوت بنگلے بن چکے ہیں ۔لوگ ان کے قریب جانے سے خوفزدہ ہیں۔ برطانوی تارکین وطن کی مالی اعانت سے چلنے والی غیرسرکاری ادارے مسلم ہینڈز نے بین الاقوامی این جی اوز کا کنسورشیم قائم کیا جو 1200 سے زائد متاثرین زلزلہ کو کھانا فراہم کرتاہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن اور کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ (کورٹ) کئی دیہاتوں میں فوڈ ریلیف پیکیج تقسیم کرتی اور عوامی دسترخواں چلاتی ہیں۔ میرپورکے مخیر حضرات بے گھر افراد کو عارضی پناہ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ مقامی حکام کی مدد سے خیموں میں کھانا، ادویات اور دیگرسہولیات بھی مہیا کرتے ہیں۔زلزلے سے پیدا ہونے والے سنگین انسانی بحران کی وجہ سے، حکومت آزادکشمیر نے متاثرہ علاقے کو’’آفت زدہ علاقہ‘‘ قرار دیا ۔ سوال یہ ہے کہ بھاری انفراسٹرکچر کو کس طرح مسمار کیا جائے؟ ان مکانات اور تجارتی پلازوں کو ختم کرنے کے لئے اسٹیٹ آف دی آرٹ آلات کی ضرورت ہے۔ زلزلہ زدگان جو قیمتی جائیدادوں سے محروم ہوچکے ہیں اب اپنے گھروں اور پلازوں کا ملبہ ہٹانے کے لئے بھاری رقم مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ افسوس! حکام اور شہریوں نے 2005 ء کے زلزلے سے کوئی سبق نہیں سیکھا جس نے لگ بھگ 75000 افراد کی جانیں لیں اور مظفرآباد اور باغ کی آبادیوں کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیاتھا۔بلڈنگ کوڈ فائلوں اور الماریوں کی زینت بنادیئے گئے ہیں۔ لالچی سیاستدانوں کی حمایت یافتہ انتظامیہ کی وجہ سے بلڈنگ کوڈز پر ان کی رو کے مطابق عمل درآمد نہیں کیاگیا۔ مسلم ہینڈزمیرپور کے سربراہ راجہ ارسلان نصرت نے بتایا کہ اگر عمارتوںکی تعمیر کے لیے طے شدہ ضابطوں کی پابندی تو یقینی بنایاجاتا تو جانی اور مالی نقصانات بہت کم ہوسکتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ صرف تین منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت ہے لیکن میرپور میں سات یا آٹھ منزلہ عمارتیں کی بہتات ہے جو ریاست اور انتظامیہ کا منہ چڑھاتی ہیں۔ ایشیا کے سب سے بڑے یتیم خانے کوٹ کے بانی چودھری اختر کو سخت پریشان پایا۔گلوگیر آواز میں انہوں بتایا کہ سرما شروع ہونے کو ہے۔ متاثرہ خاندانوں کے بچے اور معمر افراد شدید سردی کی لہر کاسامنا نہیں کرسکیں گے۔ چودھری اختر بچوں اور ضعیفوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لئے جنگی بنیادوں پر 100 رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاک فضائیہ نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ بھی ایک سو پری فیبریکیٹیڈ مکانات کا عطیہ پسماندہ طبقے کے متاثرین کے لیے ان کے حوالے کرے گی۔ امدادی سرگرمیاں اگرچہ اب تمام ہوچکی ہیں لیکن بنیادی ڈھانچے کی بحالی میں وقت لگ سکتا ہے۔ مقامی افراد اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کا روزگار چھن چکا اور وہ بے گھر ہوچکے ہیں۔ قصبہ سہنگ سے تعلق رکھنے والی خدیجہ بیگم اب اپنے دو منزلہ خوبصورت مکان کے باہر خیمے میں زندگی کے شب وروز گنتی ہے۔دراڑیں ان کے گھر میں ایسی پڑھیں کہ وہ رہائش کے قابل نہ رہا۔ بتانے لگی کہ ان کے دونوں بیٹوں نے سخت محنت کرکے یہ مکان بنایا جو ان کاواحدسہارا ہے۔ اب اسے مسمار کرنے اور اس کا ملبے اٹھانے کے لئے دس لاکھ روپے درکار ہیں۔ سرکارانہیں دو لاکھ سے زائد دینے کو تیار نہیں۔ تجویز کیا جاتا ہے کہ حکومت عارضی رہائشی علاقوں کی تعمیر کرے اور لوگوں کو خیموں سے گھروں میں منتقل کرے۔ چودھری اختر کہتے ہیں کہ دو مہینوں میں پری فیبریکیٹیڈ گھر تیار ہوسکتے ہیں جن کی فی گھر لاگت سات لاکھ روپے تک ہوگی۔وہ اہل خیر کی امداد کے منتظر ہیں۔ حکام سرگرم ہیں انہیں وفاقی حکومت اور فوج کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔مقامی حکام نے بتایا کہ تباہ شدہ ڈھانچے کو ختم کرنا ، ملبہ ہٹانا، متاثرہ علاقوں کو ڈی سلٹ کرنا اور بیت الخلا تعمیر کرنا ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔دیہاتوں میں پانی کی فراہمی اور بحالی ایک مشکل چیلنج ہے کیونکہ متعدد تنگ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں ۔چنانچہ قریبی مکانات اور ٹیوب ویلوں کے داخلی راستے بند ہوگئے ۔ صنعتی علاقے میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ۔چمبر آف کامرس کے سابق صدر سہیل شجاع نے بتایا کہ ماربل کے 15 یونٹ اور آٹے کی ایک مل بری طرح تباہ ہوچکی ہے۔ فیکٹریوں کی متعدد عمارتوں کو تزئین و آرائش یا جزوی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر غلام مرتضیٰ نے بتایا کہ صنعتوں کی بحالی بڑے پیمانے پر ملنے والی سرکاری امداد کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کم از کم دوسال کے لئے میرپور پر ٹیکس لگانا بند کردے ۔ خاص طور پر انڈسٹری مالکان کو اس سال ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔ اس کے علاوہ ، مالیاتی اداروں کو آسان قسطوں پر قرض فراہم کرنے پر آماہ کیا جائے۔ پبلک سیکٹر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لئے خاص طور پر اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بڑے پیمانے پر مالی اعانت درکار ہے۔ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حبیب الرحمان نے بتایا کہ یونیورسٹی کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی تزئین و آرائش کے لئے 52 ملین روپے درکار ہیں۔ریڈیو میرپور کے ڈائریکٹر محمد شکیل خستہ حال عمارت میں بیٹھ کر ریڈیو کی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قصہ مختصر! ہر گھر دکھ اور مشکلات کی ایک کہانی لیے ہے لیکن میرپور کے لوگوں کا جذبہ ایثار اور قربانی دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ میرپور ایک بار پھر پوری شان وشوکت کے ساتھ ابھرے گا۔ ترقی اور خوشحال کا سفر وقتی طور سست ضرور ہوا ہے لیکن رکے گا نہیں۔ انشا اللہ۔
میرپور پھر ابھرے گا
پیر 07 اکتوبر 2019ء
میرپور اور بھمبر اور شمالی پنجاب کے ضلع جہلم میںآنے والے لرزا خیز زلزلے نے ٹھیک تیرہ برس قبل آنے والے زلزلے کی یادیں تازہ کیں۔ اگرچہ جاں بحق افرادکی تعداد 40 سے کم ہے لیکن بنیادی ڈھانچے بالخصوص نجی املاک کو پہنچنے والا نقصان ہمارے تصور سے بھی باہرہے۔ ہرا بھرا گاؤں جاتلاں جو کل تک میرپور کا ایک خوشحال علاقہ کہلاتاہے آج لگ بھگ مکمل طور پر اجڑچکا ہے۔ لوگ صدمے اور گہرے دکھ کی کیفیت میں ہیں ۔ ٹوٹے ہوئے گھر بھوت بنگلے بن چکے ہیں ۔لوگ ان کے قریب جانے سے خوفزدہ ہیں۔ برطانوی تارکین وطن کی مالی اعانت سے چلنے والی غیرسرکاری ادارے مسلم ہینڈز نے بین الاقوامی این جی اوز کا کنسورشیم قائم کیا جو 1200 سے زائد متاثرین زلزلہ کو کھانا فراہم کرتاہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن اور کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ (کورٹ) کئی دیہاتوں میں فوڈ ریلیف پیکیج تقسیم کرتی اور عوامی دسترخواں چلاتی ہیں۔ میرپورکے مخیر حضرات بے گھر افراد کو عارضی پناہ فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ وہ مقامی حکام کی مدد سے خیموں میں کھانا، ادویات اور دیگرسہولیات بھی مہیا کرتے ہیں۔زلزلے سے پیدا ہونے والے سنگین انسانی بحران کی وجہ سے، حکومت آزادکشمیر نے متاثرہ علاقے کو’’آفت زدہ علاقہ‘‘ قرار دیا ۔ سوال یہ ہے کہ بھاری انفراسٹرکچر کو کس طرح مسمار کیا جائے؟ ان مکانات اور تجارتی پلازوں کو ختم کرنے کے لئے اسٹیٹ آف دی آرٹ آلات کی ضرورت ہے۔ زلزلہ زدگان جو قیمتی جائیدادوں سے محروم ہوچکے ہیں اب اپنے گھروں اور پلازوں کا ملبہ ہٹانے کے لئے بھاری رقم مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ افسوس! حکام اور شہریوں نے 2005 ء کے زلزلے سے کوئی سبق نہیں سیکھا جس نے لگ بھگ 75000 افراد کی جانیں لیں اور مظفرآباد اور باغ کی آبادیوں کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیاتھا۔بلڈنگ کوڈ فائلوں اور الماریوں کی زینت بنادیئے گئے ہیں۔ لالچی سیاستدانوں کی حمایت یافتہ انتظامیہ کی وجہ سے بلڈنگ کوڈز پر ان کی رو کے مطابق عمل درآمد نہیں کیاگیا۔ مسلم ہینڈزمیرپور کے سربراہ راجہ ارسلان نصرت نے بتایا کہ اگر عمارتوںکی تعمیر کے لیے طے شدہ ضابطوں کی پابندی تو یقینی بنایاجاتا تو جانی اور مالی نقصانات بہت کم ہوسکتے تھے۔ ان کا کہناتھا کہ صرف تین منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت ہے لیکن میرپور میں سات یا آٹھ منزلہ عمارتیں کی بہتات ہے جو ریاست اور انتظامیہ کا منہ چڑھاتی ہیں۔ ایشیا کے سب سے بڑے یتیم خانے کوٹ کے بانی چودھری اختر کو سخت پریشان پایا۔گلوگیر آواز میں انہوں بتایا کہ سرما شروع ہونے کو ہے۔ متاثرہ خاندانوں کے بچے اور معمر افراد شدید سردی کی لہر کاسامنا نہیں کرسکیں گے۔ چودھری اختر بچوں اور ضعیفوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لئے جنگی بنیادوں پر 100 رہائش گاہیں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاک فضائیہ نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ بھی ایک سو پری فیبریکیٹیڈ مکانات کا عطیہ پسماندہ طبقے کے متاثرین کے لیے ان کے حوالے کرے گی۔ امدادی سرگرمیاں اگرچہ اب تمام ہوچکی ہیں لیکن بنیادی ڈھانچے کی بحالی میں وقت لگ سکتا ہے۔ مقامی افراد اس تلخ حقیقت کا سامنا کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کا روزگار چھن چکا اور وہ بے گھر ہوچکے ہیں۔ قصبہ سہنگ سے تعلق رکھنے والی خدیجہ بیگم اب اپنے دو منزلہ خوبصورت مکان کے باہر خیمے میں زندگی کے شب وروز گنتی ہے۔دراڑیں ان کے گھر میں ایسی پڑھیں کہ وہ رہائش کے قابل نہ رہا۔ بتانے لگی کہ ان کے دونوں بیٹوں نے سخت محنت کرکے یہ مکان بنایا جو ان کاواحدسہارا ہے۔ اب اسے مسمار کرنے اور اس کا ملبے اٹھانے کے لئے دس لاکھ روپے درکار ہیں۔ سرکارانہیں دو لاکھ سے زائد دینے کو تیار نہیں۔ تجویز کیا جاتا ہے کہ حکومت عارضی رہائشی علاقوں کی تعمیر کرے اور لوگوں کو خیموں سے گھروں میں منتقل کرے۔ چودھری اختر کہتے ہیں کہ دو مہینوں میں پری فیبریکیٹیڈ گھر تیار ہوسکتے ہیں جن کی فی گھر لاگت سات لاکھ روپے تک ہوگی۔وہ اہل خیر کی امداد کے منتظر ہیں۔ حکام سرگرم ہیں انہیں وفاقی حکومت اور فوج کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔مقامی حکام نے بتایا کہ تباہ شدہ ڈھانچے کو ختم کرنا ، ملبہ ہٹانا، متاثرہ علاقوں کو ڈی سلٹ کرنا اور بیت الخلا تعمیر کرنا ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔دیہاتوں میں پانی کی فراہمی اور بحالی ایک مشکل چیلنج ہے کیونکہ متعدد تنگ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں ۔چنانچہ قریبی مکانات اور ٹیوب ویلوں کے داخلی راستے بند ہوگئے ۔ صنعتی علاقے میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ۔چمبر آف کامرس کے سابق صدر سہیل شجاع نے بتایا کہ ماربل کے 15 یونٹ اور آٹے کی ایک مل بری طرح تباہ ہوچکی ہے۔ فیکٹریوں کی متعدد عمارتوں کو تزئین و آرائش یا جزوی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر غلام مرتضیٰ نے بتایا کہ صنعتوں کی بحالی بڑے پیمانے پر ملنے والی سرکاری امداد کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ حکومت کم از کم دوسال کے لئے میرپور پر ٹیکس لگانا بند کردے ۔ خاص طور پر انڈسٹری مالکان کو اس سال ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔ اس کے علاوہ ، مالیاتی اداروں کو آسان قسطوں پر قرض فراہم کرنے پر آماہ کیا جائے۔ پبلک سیکٹر کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لئے خاص طور پر اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بڑے پیمانے پر مالی اعانت درکار ہے۔ میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حبیب الرحمان نے بتایا کہ یونیورسٹی کے تباہ شدہ بنیادی ڈھانچے کی تزئین و آرائش کے لئے 52 ملین روپے درکار ہیں۔ریڈیو میرپور کے ڈائریکٹر محمد شکیل خستہ حال عمارت میں بیٹھ کر ریڈیو کی نشریات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ قصہ مختصر! ہر گھر دکھ اور مشکلات کی ایک کہانی لیے ہے لیکن میرپور کے لوگوں کا جذبہ ایثار اور قربانی دیکھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ میرپور ایک بار پھر پوری شان وشوکت کے ساتھ ابھرے گا۔ ترقی اور خوشحال کا سفر وقتی طور سست ضرور ہوا ہے لیکن رکے گا نہیں۔ انشا اللہ۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز لاہور میں پیر 07 اکتوبر 2019ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں