تلخیٔ زیست کے عذاب کے ساتھ ہم کو رکھا گیا حساب کے ساتھ اختتامِ سفر کھلا ہم پر وسعتِ دست تھی سراب کے ساتھ کیا کریں موسم ہی ایسا تھا کہ ’’وہ حبس تھا کہ لو کی دعا مانگتے تھے لوگ‘‘ بھولے لوگ تبدیلی کے مژدہ کو تازہ ہوا کا جھونکا خیال کرتے تھے کس کو معلوم تھا کہ گھٹن اور بڑھ جائے گی اور باد صر صر اس کے تعاقب میں آئے گی۔ اڑھائی سال گزر گئے آنے والا وقت اور بھی زیادہ کٹھن محسوس ہو رہا ہے لوگ تو لوگ خود خاں صاحب فرماتے ہیں کہ اب کیا کریں!سب وقت کے رحم و کرم پر ہیں: واسطہ یوں رہا سرابوں سے آنکھ نکلی نہیں عذابوں سے یادش بخیر ’’کشتی کنڈھے کیہہ لگدی۔ نہیں سی موڈ ملاحواں دا‘‘ اور دوسری بات یہ کہ مکی رات عذاباں دی۔چڑھیا دن سزاواں دا۔بہرحال ہم خواب و سراب دیکھتے یہاں تک پہنچے ہیں۔ تعبیر خواب اب بھی ہاتھ نہیں آئی، جاگتی سی آنکھ سے کتنے خواب دیکھتے دشت پار کر گئے ہم سراب دیکھتے۔ لیکن اپنے سوا تو کوئی نہیں صحرا کے پار بھی۔ ایک بار پھر کہنے والوں کو کہنا پڑا کہ ان کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے یہ ہمارا المیہ رہا ہے کہ ہمیشہ جیتنے والا مشکوک رہا اور ہارنے والا آخر کار اوپر کہیں دیکھنے لگا کہ: گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی اگر آپ مجھے بات کرنے کا حق دیں تو شاید میں بھی آپ کی طرح محسوس کرتا ہوں کہ اب خان صاحب بڑے دھارے یعنی مین سٹریم میں داخل ہو گئے ہیں وہ اکیلے نہیں بلکہ ان کا لائو لشکر بھی ہے وہ تبدیلی کا عدہ کر کے آئے تھے اور ایسا کرنا بھی چاہتے تھے مگر وزارت عظمیٰ کے منصب کو عزت بخشنے کے لئے وہ خود تبدیل ہو گئے اور اسی سانچے میں ڈھل گئے جہاں سے پہلے سیاستدان ڈھل کر نکلتے تھے پہلے دو جتھے تھے باریاں لینے والے اور اب خاں صاحب زور لگا کر خود تیسرے حصے دار بن گئے اب اپوزیشن میں بھی رہے تو موج سے کہ باری آنے کا امکان رہے گا لوگ سب کچھ بھول چکے ہونگے ۔ اب کے مندرجہ ذیل شعر اور ہی معنی دینے لگا ہے: وہ آئے بزم میں اتنا تو سب نے دیکھا میر پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی میجر جنرل افتخار نے درست کہا کہ تصدیق اور شواہد کے بغیر فوج کے سیاست میں کردار پر بات کرنا کسی کو زیب نہیں دیتا قیاس آرائیوں کو بند ہونا چاہیے۔ یہ پیغام اور رویہ فوج کی عزت میں اضافہ کرے گا۔ ویسے چلتے چلتے میں یہ ضرور لکھوں گا کہ سکیورٹی پوائنٹ آف ویو سے ایک آنکھ سیاست کرنے والوں پر بھی ضروری ہے کہ آپ دشمن کو پہچان لیں اور آپ کی حب الوطنی آلودہ بھی نہ ہو۔ آپ دشمن کے سفیروں سے خصوصی خفیہ ملاقاتیں کریں تو آخر کیوں: سچ تو یہ ہے کہ اسی وقت یہ خون کھولتا ہے جب مرا اپنا بھی دشمن کی زباں بولتا ہے یہ شعر تو ابھی موزوں ہو گیا ہم کسی کا احسان خود پر نہیں رکھتے سب کچھ بے باکانہ اور کھلے دل سے کہہ دیتے ہیں۔ابھی خاں صاحب نے فرمایا کہ چھوٹا چور جیل میں ہے اور بڑا چور این آر او مانگ رہا ہے میں ہمیشہ سے شہباز شریف کا معترف رہا ہوں بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں۔ اس کا مثبت پہلو لاہور کی سرکاری تعمیرات سے ظاہر ہے اور منفی رخ سے حکومت کو پردہ اٹھانا ہے جو وہ تاحال نہیں کر سکی۔ کاش کوئی شہباز شریف آپ کے پاس بھی ہوتا مگر آپ سے پشاور کی بی آر ٹی نہیں سنبھالی گئی اور آخر اس بات کو بند کر دیا گیا تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی دوسری بات بڑے چور کی ہے تو بتائیے کہ اس کو باہر بھیجنے والے اور رپورٹیں مثبت دینے والے کیوں پکڑے نہیں گئے یہاں راوی خاموش ہے۔ میری ناقص سمجھ میں تو یہ بات بھی نہیں آتی کہ آپ کی رٹ اور رَٹ کہ آپ این آر او نہیں دیں گے کس برتے پر ہے۔ کس آئین اور قانون کے تحت ہے این آر او آپ کا اختیار ہے وہ جو این آر او دیتے تھے دکان اپنی بڑھا گئے۔ اگر ہیں بھی تو وہ آپ نہیں۔ آپ الیکشن جیت کر آئے ہیں اور جس ایوان میں آپ ہیں وہاں ایک اپوزیشن بھی ہوتی ہے جس کا کام حکومت کو راہ راست پر رکھنا ہوتا ہے مسابقت کا ایک رویہ ہوتا ہے عوام کو اس سے خبردار کرنا ہوتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے یہ چور چور‘ ڈاکو ڈاکو اور شور شرابے سے وہ نااہلی اور نالائقی کیسے چھپے گی جس نے عوام کو مہنگائی اور بے سکونی کی سولی پر چڑھا رکھا ہے لوٹی ہوئی رقم نکلوانے والے خود لوٹ مار میں شامل ہو گئے کون براڈ شیٹ سے کمیشن لینے گیا تھا!جناب خدا لگتی کہیں کہ رانا ثناء اللہ کا دس کلو ہیروئن کیس ہو یا اب لندن والا کس جس میں سہولت فراہم کی گئی۔ کیا نتائج لے کر سامنے آئے ہیں۔ خاں صاحب!کبھی ٹھنڈے دل سے اپنی کارکردگی پر غور کریں۔ جب سپریم کورٹ یہ کہہ دے کہ باقاعدہ ایک ایجنڈے کے تحت ملک کو برباد کیا جا رہاہے توباقی کیا بچتا ہے چلیے آپ ہی بتائیے کہ اپنے نااہل کو آپ سرکاری میٹنگز میں بھی ساتھ رکھتے رہے اپنے دہری شہریت رکھنے والوں کو آپ تمام قانون گرائونڈ کر کے سینٹ میں لانا چاہتے ہیں۔ آپ کو کام پر توجہ دینا چاہیے تھی ملک کو تو آپ نے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ۔ سب کچھ بے سکون ہو کر رہ گیا ہے ایک عجیب حکمت عملی بلکہ حکمت بے عملی ہے اب وکلا کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ بغیر کسی نوٹس کے یا وارننگ کے ان کے چیمبر گرا دیے گئے اور نتیجتاً وکلاء نے اسلام آباد ہائی کورٹ پر یلغار کر دی عدالت عالیہ اور کچہری تاحکم ثانی بند ہو گئی بہت سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرنا چاہیے تھا۔ خرابی بسیار کے بعد ہم مذاکرات پر آتے ہیں عجیب بے برکت دور ہے: میرے خوابوں میں چاند اتارا گیا کس محبت سے مجھ کو مارا گیا