خاندان سے معاشرے اور معاشرے سے ریاست وجود میں آتی ہے۔ روسو نے کہا تھا کہ ریاست امیر لوگوں نے اپنی جائیداد کی حفاظت کے لئے بنائی ہے۔ عدم مساوات ریاست کی سرپرستی میں پروان چڑھتی ہے ۔طاقت کا حصول کمزوروں کے وسائل پر قبضہ آج کی جدید ریاستوں کا غیر اعلانیہ منشور ہے۔ یہ طاقت کے حصول اور وسائل پر قبضہ کی خواہش ہی تھی کہ دو عظیم جنگیں لڑنے اور کروڑوں انسانوں کے قتل عام کے بعد جب 5بڑی طاقتیں مستقبل میں جنگوں کی تباہی سے بچنے کے لئے اقوام متحدہ ایسا ادارہ بنانے پر مجبور ہوئیں بھی تو اقوام عالم پر اپنی من مانیاں مسلط کرنے کے لئے ویٹو کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ ویٹو کا اختیار ہی ہے جس کی وجہ سے یو این عالمی طاقت کے مفادات کی شطرنج کی بساط بن کر رہ گیا ہے۔ گویا بقول شاعر ع میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی اقوام متحدہ کی تعمیر میں ویٹو کے اختیار کی صورت میں خرابی نہ ہوتی تو یہ ادارہ بھی بے دست و پا 5بڑوں کے مفادات کا اکھاڑا نہ بنتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ طاقت کی علامت یو این میں ہر سال جی اے کی صورت میں کمزور اقوام کو اپنی بے بسی کا رونا رونے کی اجازت ضرور دے دی جاتی ہے ۔ کہنے کو تو ہر سال جنرل اسمبلی کا اجلاس عالمی مسائل پر بحث اور خطرات سے نمٹنے کے لئے سوچ بچار کے لئے بلایا جاتا ہے مگر حقیقت میںاس اجلاس کی حقیقت اپنے اپنے کمزور دھڑوں کی نمائش اور عالمی منظر نامے میں اپنے مفادات کے لئے سودے بازی سے کچھ زیادہ نہیں ہوتی۔اسے مسلمان حکمرانوں کی بے بسی کہیے یا پھر سادگی کہ اقوام متحدہ کے 74ویں اجلاس میں بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے نظر آئے جس کے سبب بیمار ہوئے تھے۔کون نہیں جانتا کہ امریکہ کے ہاتھی کے پائوں میں ہی آج کی دنیا کے پائوں ہیں۔ امریکہ نے عالمی قوانین ،اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا مگر اردوان اسی ویٹو پاور امریکہ کے شہر نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسرائیل کے 1947ء اور 2019ء کے نقشے دکھا کر مسلمانوں کے علاقے پر امریکی سرپرستی میں اسرائیلی قبضے کا واویلا کرتے رہے تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بلا شبہ اقوام عالم کو درپیش خطرات کا درست اور بھر پور انداز میں احاطہ کیا ۔وزیر اعظم نے سچ کہا کہ دہشت گردی کی وجہ اسلام نہیں بلکہ طاقت ور اکثریت کا کمزور اقلیتوں کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔وزیر اعظم نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کشمیریوں کے خون سے غسل کی خواہش کو آشکار کیا، اچھا کیا !ان کا نریندر مودی کی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کی لائف ٹائم ممبر شپ کے متعلق دنیا کو یاد دلانا بھی ٹھیک اور عالمی رہنمائوں کو گوگل کر کے ان کی تصدیق کا چیلنج بھی اپنی جگہ حقیقت۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی بجا کہ عالمی برادری دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اسلام اور مسلمانوں سے نتھی کر کے مسلمانوں کو شدت پسندی کی طرف دھکیل رہی ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا عالمی رہنما وزیر اعظم کی اس تقریر سے پہلے اس حقیقت سے بے خبر تھے؟ کیا وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں جو سوالات اٹھائے کیا انہوں نے مسلمانوں کے خون ناحق سے چشم پوشی کی وجہ بھی خود ہی بتا کر جواب نہیں دے دیا۔ دنیا کی خاموشی کی وجہ لاعلمی نہیں جابر اور استحصالی قوتوں سے جڑے مفادات ہیں۔ جہاں تک وزیر اعظم کی دہشت گردی کو اسلام سے نتھی کرنے کی بات ہے تو اسے غلطی اس لئے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلمانوں پر جو تباہی مسلط کی گئی ہے اس کو واحد عالمی قوت کی سب سے بااختیار شخصیات خود صلیبی جنگ کا تسلسل قرار دے چکی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں موجود عالمی حکمران امریکی صدر بش کے اس دعویٰ سے بے خبر ہوں۔ یقینا وزیر اعظم نے عالمی رہنمائوں پر حقائق واضح کئے ان کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کی مگر جنرل اسمبلی میں مسلمان حکمرانوں کی تقریریں سامراج کے مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کے لئے بڑھتے قدموں کو روک سکتی ہیں نا طاقت ور ممالک کو کمزور ممالک کے وسائل پر قبضہ کے لئے انسانی خون بہانے سے روکا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان تو جنرل اسمبلی میں تقریر سے پہلے ہی یہ تسلیم کر چکے تھے کہ کشمیر کے مظالم پر عالمی خاموشی سے انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ جب وزیر خارجہ کے نزدیک کشمیر امن مشن کی کامیابی کا معیار یہ ہو گا کہ وہ اپنی قوم کو اپنے وزیر اعظم سے امریکی صدر سے دوبارہ ملاقات کی نوید سنا رہے ہوں تو اس صورت میں کمزور اقوام کے پاس اس کے سوا چارہ ہی کیا رہ جائے گا کہ جنرل اسمبلی میں اپنی بے بسی کا رونا روئیں اور اپنی آہ و بکا کو ڈپلومیسی کا نام دے کر دل بہلائیں۔ جہاں تک تقریروں سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا تعلق ہے تو مظلوموں کے جذبات کی عکاسی نعروں سے زیادہ ساحر لدھیانوی کی اس نظم سے کی جا سکتی ہے ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے ہم سربکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ کوئی قوم ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے پھلتی نہیں ہے شاخ ستم اس زمین پر تاریخ جانتی ہے زمانہ گواہ ہے کچھ کور باطنوں کی نظر تنگ ہی سہی یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو وہ خون ہے گلاب کے پھولوںکے واسطے پھوٹے گی صبح امن لہو رنگ ہی سہی تھامس ہابزنے انسان کو خود غرض اور خود پسندکہا تو روسو کا اعلان کہ عدم مساوات ریاست کی سرپرستی میں پروان چڑھتی ہے اس صورت میں ریاستوں کی ماں یو این سے انصاف، مساوات کی توقع وہ بھی مظلوموں اور بے بس ریاستوں کے لئے،دل کے بہلانے کوغالب یہ خیال اچھا ہے!!