اس بات میں کوئی شک، کوئی مبالغہ،نہیں کہ اُردو اور پنجابی دونوں میری مادری زبانیں ہیں۔ پنجابی میری پیاری ماں کی زبان ہے اور اُردو میرے بچوں کی ماں کی زبان ہے۔ یہی حال میرے دیس کے دیگر علاقوں کا ہے کہ یہ میٹھے لہجے والی اُردو، سندھی، بلوچی، پشتو، کشمیری کے ساتھ محبت اور اپنائیت کے ساتھ رہائش پذیر ہے۔ بلکہ سرحد کے دونوں جانب اگر سیاسی ایجنڈوں کو منہا کر دیں تو اسے ہندی، مراٹھی، گجراتی، ملیالم وغیرہ کے ساتھ بہناپا برقرار رکھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ سب زبانیں صدیوں سے ایک ساتھ رہ بس رہی ہیں۔ برِ صغیر میں تو اُردو آکسیجن کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ ہر اُس جگہ موجود ہوتی ہے، جہاں اسے اپنائیت و محبت کی خوشبو میسر ہو۔ رضا علی عابدی نے سیاحتِ ہند کے دوران، ہمالیہ کے اُس پار ایک چرواہے کو رواں اُردو بولتے دیکھ کے ایسے ہی نہیں کہا تھا کہ ’’: اُردو کی رسائی تو وہاں تک ہے، جہاں بادل بھی نہیں پہنچ سکتے۔‘‘ ہم نے بھی چند سال قبل اسی شیریں سخن کی خاطر کہا تھا: کہیں ریشم ، کہیں اَطلس ، کہیں خوشبو رکھ دوں یہ تمنا ہے تِری یاد کو ہر سُو رکھ دوں یہ تبسم ، یہ تکلم ، یہ نفاست ، یہ ادا جی میں آتا ہے تِرا نام مَیں اُردو رکھ دوں مجھے تو اس وقت اپنے سیالکوٹ کے دوست ملک ناصر اقبال کے گاؤں جَوڑیاں کا وہ نیم خواندہ میوزک پسند نوجوان بھی یاد آ رہا ہے، جس کے سامنے پڑھے لکھوں میں کتنی ہی دیر سے ہندوستان سے اُردو زبان کے خاتمے کے خدشات کا جھورا جھُرا جا رہا تھا۔ وہ بحث کے دوران بے اختیار بول اُٹھا: ’’پاء ناصر ! ہندوستان میں جب تک لتا منگیشکر کے پچاس ہزار گانے موجود ہیں، وہاں سے اُردو کیسے ختم ہو سکتی ہے؟‘‘ ہم خود عمر کا نصف صدی سے زائد عرصہ گزار چکنے کے بعد یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ آج تک ہمیں جس گاؤں، شہر، ادارے، محکمے، گلی، بازار ( حکیم جی کے بقول اُس بازار سے اِس بازار تک) سے ذاتی، جذباتی یا سرکاری واسطہ پڑا ہے کہیں زبانوں کا جھگڑا دکھائی نہیں دیا، سوائے سیاسی ایوانوں کے… اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں کسی کم ظرف اور نوسر باز سیاست دان کے پاس دلائل کی نقدی ختم ہونے لگتی ہے، وہ ذاتی و مالی مفاد کی خاطر بغل کی اوٹ سے مقامی و علاقائی زبان کے پتّے شو کرا کے مرکز کو بلیک میل کرنے لگتا ہے۔ یقین جانیں اب تو یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ کہاں اُردو سانس لینیکو رُکی اور بات پنجابی کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر چلنے لگی اور کہاں پنجابی سستانے بیٹھی اور گفتگو کی باربرداری اُردو نے سنبھال لی۔ کچھ یہی حال ہمارے گیتوں اور موسیقی کا ہے، ذرا محسوس نہیں ہوتا کہ شاعر یا گلوکار کب پنجابی کے شیرے میں اُردو کی جلیبیاں تلنے لگے اور کب اُردو کی شب دیگ میں پنجابی کا بگھار لگا دے۔ ہم نے تومشتاق احمد یوسفی جیسے شدید مارواڑی ( بقولِ خود جنھوں نے اُردو بھی بیگم سے باتوں باتوں میں سیکھی تھی) کو بھی تحریر و تقریر میںپنجابی الفاظ و محاورات کا سواد لیتے دیکھا اور سنا ہے۔ ایف سی یونیورسٹی کے خالص امریکن ریکٹر ڈاکٹر پیٹر آرما کوسٹ اکثر کہا کرتے: ''Urdu is a heart Language'' اسی بنا پر انھوں نے بی اے اور بی ایس آنرز لیول کے تمام طلبہ کے لیے اُردو پڑھنا لازمی قرار دیا۔ کیسی انوکھی بات کہ پاکستان کی ایک امریکن یونیورسٹی میں ایم اے، ایم ایس سی تک اُردو لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جا رہی ہے۔ ہماری مقامی زبانیں بلاشبہ مُڈھ قدیمی ہیں اور دل میں بسا کے رکھنے کے قابل ہیں لیکن اُردو بھی کوئی آج کی ایجاد نہیں۔ اس کی بابت تو ڈھائی سو سال قبل ڈاکٹر جان گل کرسٹ نے انگریز حکمرانوں کو رپورٹ دی تھی کہ: ’’جس گاؤں اور جس شہر سے میرا گزر ہوا، وہاں اس زبان کی مقبولیت کی مجھے ان گنت شہادتیں ملیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے انگریزوں کو برملا مشورہ دیا تھا کہ اِس ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے اُنھیں اُردو سیکھنا ہوگی… کلکتہ میں اٹھارہ سَو میں قائم ہونے والا فورٹ ولیم کالج اسی منصوبے کی ایک کڑی تھی۔ آج کوئی بھی ذی شعور اس بات سے انکار نہیں کرے گا کہ ہماری جدید نثر پہ سب سے زیادہ احسان نظریہ ضرورت کے تحت وجود میں آنے والے اسی کالج کا ہے۔ یہاں افسوس کا پہلو یہ ہے کہ جو بات ایک غیر زبان والوں کو معمولی سے تدبر سے ڈھائی سَو سال قبل سمجھ میں آ گئی تھی، وہ ہمارے مقامی حکمرانوں کو قائدِ اعظم کے فرمان، تہتر کے آئین اور چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے واضح عدالتی حکم کے باوجود کیوں سمجھ میں نہیں آ رہی؟ انگریزی کی عالمی مقبولیت اپنی جگہ لیکن کوئی بتائے گا کہ گزشتہ پچھتر سالوں میں ہم ذہنی غلامی کا ہر حربہ اختیار کرنے کے باوجود وطنِ عزیز کے 99.9لوگوں کو یہ زبان سکھانے میں کیوں ناکام ہیں؟ لسان العصر نے آج سے ڈیڑھ صدی پہلے اس لسانی دریوزہ گری پہ طنز کرتے ہوئے نئی نسل کے لیے لاحول ولا قوۃ کا انگریزی ترجمہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ آج بھی سوچ لیں کہ اگر ہم:’ویر میرا گھوڑی چڑھیا ، لٹھے دی چادر اُتے سلیٹی رنگ ماہیا، وارث کی ہیر، بلھے شاہ کی کافیوں، میاں محمد بخش کے ضرب المثل اشعار، غالب، اقبال کی شاعری ، لتا کے گیتوں، مہدی حسن کی غزلوں کو انگریزی کے قالب میں ڈھال کے نئی نسل کے لیے ایک چھٹانک لطف کشید کر سکتے ہیں تو لگے رہیے، وگرنہ اب بھی جان جائیے کہ اس عہد کے ہر سلطان سے زبان کے معاملے میں کچھ نہ کچھ بھول نہیں، بہت بڑا بلنڈر ہوتا آ رہا ہے۔ ہم حلفاً کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دونوں مادری زبانیں بولتے، لکھتے، سنتے، پڑھتے، ہمیشہ ماں کی محبت جیسا سرمدی ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ اُردو کے ساتھ پنجابی بھی ـ ہمارے دل کی آواز ہے، یہ اشعار اسی محبت کا اظہاریہ ہیں: ماں بولی اے/ تاں بولی اے اس دھڑکن دا / ناں بو لی اے دنیا دُھپ اے/چھاں بولی اے کسی زمانے میں اپنی ان دونوں مادری زبانوں سے محبت کے ثبوت کے طور پر ہم نے ایک زبان کو دوسری زبان میں یوں اظہارِ عقیدت پیش کیا تھا: جنوری وچ اے، جون دے وچ اے/ اُردو اپنے خون دے وچ اے/ ایس توں وَدھ ثبوت کیہ ہووے؟/ اُردو ایس قنون دے وچ اے/ نون دے وچ اے، کاف دے وچ اے/ تحریکِ انصاف دے وچ اے/ سندھ، پنجاب، بلوچ دے وچ اے/ کے پی کے دی سوچ دے وچ اے/ سوچ، مزاج، کیمسٹری وچ اے / اُردو اپنی ہسٹری وچ اے / کھیتاں وچ اے، فصلاں وچ اے/ اگلیاں پچھلیاں نسلاں وچ اے/ اُردو ساڈی چاء دے وچ اے/ اُردو ساڈے ساہ دے وچ اے/ اُردو پاکستان دے وچ اے/ اُردو کل جہان دے وچ اے/ ساڈا سارا علم وی اُردو/ گانے اُردو، فلم وی اُردو/ جینا اُردو، مرنا اُردو/ ساڈا رونا ہسنا اُردو/ پنجابی دی دھی اے اُردو/ ہور کیہ دسّاں کیہ اے اُردو/ ہر تھاں اینوں بولی جاؤ/ پیار پتاسے گھولی جاؤ/من لئو کوئی چارا نئیں جے / اُردو باہجھ گزارا نئیں جے!!