سنا ہے دارالحکومت میں روات سے لے کر گوجر خان تک، شاہراہ کے اردگرد زمینیں خریدی جا چکی ہیں۔ آبادی کا دبائو بے تحاشا بڑھ رہا ہے۔ سرکاری ادارے، نیم سرکاری تنظیمیں نجی شعبہ، سب ہائوسنگ سوسائٹیاں ڈیویلپ کرنے میں لگے ہیں۔ زراعت کے لیے مخصوص رقبے رہائشی آبادیوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ جنگل کاٹے جا رہے ہیں۔ باغوں، سیر گاہوں اور پارکوں پر پراپرٹی ڈیلروں کی عقابی نظریں مرکوز ہیں۔ جھپٹتے ہیں اور پارک ختم ہو جاتے ہیں۔ انسانوں کا جنگل ہے کہ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔ سنا ہے کہ ڈھاکہ میں پیدل چلنے والوں کا بھی ’’ٹریفک جام‘‘ ہو جاتا ہے۔ ہم بھی اُسی صورت حال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ بنگلہ دیش نے آبادی کی شرحِ اضافہ کو کنٹرول کر لیا ہے۔ یعنی تین فیصد سے کم۔ ہمارا اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف انگریزی روز نامے نے بتایا تھا کہ خیبرپختونخوا میں یہ اضافہ چار اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ تا ہم اس مخصوص اضافے کی پشت پر افغان مہاجرین بھی شامل ہیں اور قبائلی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی بھی ایک اہم عامل ہے۔ بڑھتی ہوئی ہائوسنگ سوسائٹیوں کا سبب صرف آبادی کا دبائو نہیں۔ اس میں اُس طاقت ور طبقے کی حد سے بڑھی ہوئی کاروباری لالچ بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے جسے لینڈ ڈیویلپرز کہا جاتا ہے یعنی زمین کے بڑے بڑے قطعات خرید کر انہیں رہائشی کالونیوں میں تبدیل کرنے والے! اگرچہ اس میدان میں سب سے بڑا نام تو ہم سب جانتے ہیں کس کا ہے۔ مگر اس ایک بڑے ٹائیکون کے علاوہ بھی یہ شعبہ زور آور افراد سے بھرا پڑا ہے۔ ان سب میں کچھ صفات مشترک ہیں۔ اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں۔ کچھ تو بالکل ہی نہیں! یہ قانون سے کھیلنے والے لوگ ہیں۔ بہت سوں نے نجی فورس بنا رکھی ہے۔ مسلح غنڈے اور بدمعاش جاتے ہیں اور زمینیں قبضے میں لے لیتے ہیں۔ غریب مکینوں کو اُن کے گھروں سے بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ پھر پلاٹنگ ہوتی ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ سڑکوں، سکولوں اور پارکوں کے لیے کم سے کم رقبہ مخصوص کیا جائے۔ دکانیں زیادہ بنائی جائیں۔ جمال احسانی نے کہا تھا ؎ جہاں بدلنے کا وہ بھی گمان رکھتے ہیں جو گھر کے نقشے میں پہلے دکان رکھتے ہیں بجلی گیس اور فون لگانے والے اداروں سے ان طاقت ور کاروباری حضرات کے گہرے ’’روابط‘‘ ہوتے ہیں۔ متعلقہ افسروں کو پلاٹ پیش کیے جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مجوزہ ہائوسنگ سوسائٹی میں بجلی گیس اور فون کنکشن پہنچ جاتے ہیں، غالباً ہمارے دوست اجمل نیازی تھے جنہوں نے ایک بڑے بیورو کریٹ کے بارے میں لکھا تھا کہ اس کی ملکیت میں چونسٹھ پلاٹ ہیں۔ یہ میاں نواز شریف کا پہلا یا دوسرا دورِ حکومت تھا۔ اس کے بعد ان صاحب کو بلند تر منصب مل گیا۔ نوکر شاہی کا ایک ایسا ہی رکن ملک سے بھاگ گیا تھا۔ اس کی بیٹی کی شادی اس کی غیر حاضری ہی میں انجام پائی۔ سنا ہے ایک طاقت ور اعلیٰ شخصیت اس کے وسیع و عریض عشرت کدے میں محفلِ رقص و سرور میں شرکت کیا کرتی تھی! ایک اور صاحب کو یہ کالم نگار اچھی طرح جانتا ہے۔ بنک میں افسر تھے۔ پھر ملازمت چھوڑ دی۔ زمین خریدی، نجی فورس تشکیل دی۔ پولیس اور اعلیٰ انتظامیہ سے روابط گانٹھے۔ شہر کے گراں ترین علاقے میں دفتر بنایا۔ وارے نیارے ہو گئے۔ پراڈو جیسی جہازی سائز کی گاڑیوں میں نظر آتے۔ کچھ عرصہ پہلے معلوم ہوا۔ سلاخوں کے پیچھے مقیم ہیں۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ جب بھی دولت آتی ہے، کسی نہ کسی جرم پر سوار ہو کر آتی ہے۔ ایک اصطلاح اکثر و بیشتر سننے میں آتی ہے۔ ’’غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں‘‘ ان غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں کی پشت پر سرکاری ادارے ہوتے ہیں۔ یہ ادارے مثلاً سی ڈی اے، ایل ڈی اے، کے ڈی اے اور دیگر چھوٹے بڑے شہروں کے ترقیاتی ادارے، دیکھتے رہتے ہیں کہ غیر قانونی رہائشی کالونی وجود میں آ رہی ہے۔ یہ خاموش رہتے ہیں۔ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم! متعلقہ اہلکار رشوتیں لے لے کر منہ دوسری طرف کیے رکھتے ہیں۔ یہ خبر بھی پڑھی گئی تھی کہ دارالحکومت کے نئے ایئرپورٹ کے قرب و جوار میں چار سو کے لگ بھگ غیر قانونی سوسائٹیاں قائم ہو چکی تھیں۔ پھر جب بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ مکان تعمیر ہو جاتے ہیں۔ لوگ رہ رہے ہوتے ہیں اس وقت ’’قانون‘‘ حرکت میں آتا ہے۔ پھر حکمِ امتناعی کے چکر چلتے ہیں، سالہا سال گزر جاتے ہیں۔ جرم Fait accompli یعنی امر واقعہ کی صورت اختیار کر چکا ہوتا ہے۔ عدالتیں بھی بے بس ہو جاتی ہیں۔ پھر سب کچھ قانونی(Legalise)قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایک معروف و مشہور قومی سطح کی شخصیت نے بنی گالا میں سب سے پہلا غیر قانونی محل تعمیر کیا تھا۔ آج وہاں شہر آباد ہے۔ سعدی نے کہا تھا، چشمہ رواں ہونے لگے تو اس وقت آنکھوں میں سرمہ ڈالنے والی سلائی سے بھی سوراخ بند کیا جا سکتا ہے۔ مگر جب وقت گزر جائے، پانی کا زور بڑھ جائے تو ہاتھی سے بھی بند نہ ہو گا۔ تا ہم یہ سب بدنیتی کے کرشمے ہیں۔ اس جُوع الارض میں اس Land Hungerمیں حکومتیں بھی شامل ہیں، کچھ عرصہ پہلے دارالحکومت میں واقع قومی ادارے ’’پاکستان زرعی ریسرچ کونسل‘‘ کو بے دخل کر کے وہاں ہائوسنگ سوسائٹی بنانے کی تجویز پیش کی گئی۔ اس میں ترقیاتی ادارے سے لے کر وزیر اعظم کے دفتر تک سب بڑے بڑے مگرمچھ ملوث تھے۔ مگر ادارہ ڈٹ گیا۔ متعلقہ وفاقی وزیر نے بھی اپنے ادارے کا ساتھ دیا اور بلا ٹل گئی۔ احمد ندیم قاسمی مرحوم مجلسِ ترقی ادب لاہور کے سربراہ تھے۔ ایک دن صبح دفتر پہنچے تو کچھ ’’طاقت ور‘‘ نوجوان دفتر کے رقبے کا طول و عرض ماپ رہے تھے۔ قاسمی صاحب نے پوچھا تو ایک ادائے بے نیازی سے بتایا گیا کہ کوئی تعمیراتی ’’منصوبہ‘‘ ہے۔ آپ کے ادارے کو متبادل جگہ دے دی جائے گی۔ جنرل ضیاء الحق کے ایک عزیز مرکز میں وزیر تعلیم تھے۔ قاسمی صاحب نے دوڑ دھوپ کی۔ ہاتھ پیر مارے، وزیر صاحب کے ذریعے ضیاء الحق تک بات پہنچائی اور یوں بال بال بچ گئے۔ اب تک تو یہ ساری تمہید تھی۔ اصل بات جو بیان کرنی ہے یہ ہے کہ میں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ غربت مکائو پروگرام ہے۔ سوچا ہے ایک قطعۂ زمین حاصل کیا جائے۔ آبادی سے زیادہ دور نہ کم۔ ایک نیا شہر وہاں بسایا جائے۔ اس وقت سرمایہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ گاڑی، ریفریجریٹر اور دیگر سامان فروخت کر کے بھی بیس پچیس لاکھ ہی جمع ہو سکیں گے۔ مگر یہ ابتدائی ادائیگی(ڈائون پے منٹ) کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ بقیہ رقم مجوزہ سوسائٹی کے ارکان قسطوں میں انتظامیہ کو یعنی مجھے ادا کریں گے تو زمین کے مالکوں کو دے کر پٹواری کے کاغذوں میں انتقال کرا لیا جائے گا۔ اس رہائشی کالونی میں سب سے زیادہ زور شجر کاری پر دیا جائے گا تا کہ ہر پلاٹ درختوں سے گھرا ہو اور اس پر چھائوں پڑتی رہے۔ پلاٹوں کی الاٹ منٹ پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر ہو گی۔ مکان کی تعمیر سے پہلے قسطوں کی مکمل ادائیگی ضروری ہے۔ اس ہائوسنگ سوسائٹی کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ مکین روشنی کے لیے واپڈا کے یا کسی بھی ادارے کے محتاج نہیں ہوں گے۔ یہ ذمہ داری ہر مکین کی اپنی ہو گی۔ قبر کے اندر روشنی کرنے کا سامان ابھی سے کرنا ہو گا۔ یہ انتظام، یہ بندوبست زندگی ہی میں کر لیجیے۔ ایسا نہ ہو کہ اندر اندھیرے سے پالا پڑے۔ اندھیرے میں حشرات الارض بھی بہت آتے ہیں۔