ہمارا دور ا س قدر قحط الرجال سے گذر رہا ہے کہ ادیب ناپید ہوچکے ہیں۔ دانشور لو گ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمارامعاشرہ کس سیاسی کیفیت سے گذر رہا ہے۔ اور ادیب ہمیں سمجھاتے ہیں کہ معاشرہ کن مسائل کا شکار ہے اور ان مسائل کی وجہ سے سیاسی حالات نے کیا صورت اختیار کی ہے؟ میں ان ترقی پسند تبصرہ نگاروں کی عزت کرتا ہوں جو سمجھتے ہیں کہ سیاسی حالات معاشرتی حالات پر اثرانداز ہوتے ہیں مگر یہ بات ادھوری ہے۔ پوری بات یہ ہے کہ صرف سیاسی حالات معاشرتی حالات پر اثرانداز نہیں ہوتے بلکہ معاشرتی حالات بھی سیاسی حالات کے بننے یا بگڑنے کا باعث بنتے ہیں۔ میں اس بات کا قائل ہوچکا ہوں کہ سب سے زیادہ معاشرتی حالات ہیں جو اقتصادی اور سیاسی حالات پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ بات مجھے اس لیے زیادہ اپنی گرفت میں لے چکی ہے کہ میں گذشتہ چند دنوں سے برصغیر کی بہت بڑی ادیبہ اور ناول نگار قرۃ العین حیدر کی وہ ساری کتابیں پھر سے پڑھ رہا ہوں جن کو میں نے جوانی کے دنوں میں پڑھا تھا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آتش جوان تھا تب وہ قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں وہ الفاظ اور وہ مناظر بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا جن میں رومانس کی کیفیت زیادہ تھی۔ ہم سب وقت کے اسیر ہیں۔وقت کی حقیقت کیا ہے؟ یہ بہت پیچیدہ اور انتہائی فلسفیانہ سوال ہے۔ سادہ سی حقیقت یہ ہے کہ عمر کے ہر حصے کی کشش الگ ہوتی ہے۔ جب ہم جوانی کے عہد سے گذر رہے ہوتے ہیں تب ہم صرف جسم میں بھٹکتے ہیںمگر جب ہمارے بال سفید ہوتے ہیں تب ہم اس حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں کہ انسان صرف جسم نہیں بلکہ اس جسم کو چلانے والی ایک روح بھی ہوتی ہے۔سندھ کے بہت بڑے شاعر شیخ ایاز نے بھی شاہ عبدالطیف بھٹائی کے حوالے سے یہ اشعار لکھے تھے۔ ’’اے بھٹائی پیر مرشد اے اسیر حسن ذات بے ثبوتِ بے ثبات کائنات میں کہ ہوں محو صفات روز شب اس ہاؤ ہو میں بے سبب اور بے ادب کائنات بیکراں کو مسترد کرتا تھا میں رد و کد کرتا تھا میں اب مگر میں مانتا ہوں ایک غم بے نام بھی ہے اور با معنی و مقصد تیرا ہر پیغام بھی ہے‘‘ یہ حقیقت مجھ پر قرۃ العین حیدر کو پڑھتے ہوئے منکشف ہوئی اور میں حیران ہوا ہم نے ایام جوانی میں اردو زبان کی اس عظیم ادیبہ کو محض دل کا بہلاوا سمجھا۔حالانکہ ایاز کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ: اے تبسم فروش محبوبہ /ہر لگی دل لگی نہیں ہوتی انسان مٹی کا مادھو ہے مگر بقول شاعر پھول اس خاک داں سے آتے ہیں/رنگ ان میں کہاں سے آتے ہیں؟/باہر آتے ہیں آنکھ سے آنسو/ہاں مگر اندر کہاں سے آتے ہیں؟ انسان صرف پھول نہیں ۔ وہ کچھ رنگ بھی ہے۔ وہ کچھ خوشبو بھی ہے۔ اور خوشبو صرف جسم کی نہیں ہوتی۔ یہ معاشرہ بھی صرف معاشیات نہیں ہے۔ وہ معاشرہ صرف سیاسیات نہیں ہے۔ یہ معاشرہ وہ حالات بھی ہیں جن کو افراد پیدا کرتے اور پھر وہ افراد ان کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر کی شہرہ آفاق ناول ’’آگ کا دریا‘‘ پڑھتے ہوئے ہمیں صرف گوتم نیلمبر اور چمپا کے عشق لاحاصل پر غور نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہئیے کہ برصغیر میں وہ کون سے معاشرتی حالات پیدا ہوئے جن کی وجہ سے تقسیم ہند کا تصور حقیقت بن گیا۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے کرداروں کے معرفت ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ لوگ کس طرح تاریخی حالات کے پہاڑ سے ٹکراتے ہیں مگر ان کے انفرادی جذبات بچوں کے مانند بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ ہم جس دور میں جینے کی سزا سے گذر رہے ہیں یہ دور اچانک نمودار نہیں ہوا۔ اس دور کے چھتناور درخت کا بیج کس نے تو بویا ہوگا۔ کس نے تو اس کی آبیاری کو ہوگی۔ برصغیر کی تقسیم کوئی حادثہ نہیں تھا۔ اگر یہ حادثہ تھا بھی تو بقول شاعر: وقت کرتا ہے پرورش برسوں/حادثہ ایک دم نہیں ہوتا کرشن چندر،بیدی،منٹواور خشونت سنگھ نے الفاظ کی صورت کتنے آنسو بہائے۔ مگر اب وہ آنسو بھی اس پانی کا حصہ میں جو وقت کی پل سے گذر گیا ہے۔ اس وقت تلخ حقیقت پاکستان اور بھارت ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں پر بہت لکھا اور بولا جاتا ہے مگر بھارت میں مسلمان اقلیت پر کوئی کیوں نہیں لکھتا؟ ہمارے خوبصورت اینکر پرسن کیا بولیں؟ ان کو تاریخ کا کتنا شعور ہے؟قرت العین حیدر کو پڑھتے دوبارہ پڑھتے ہوئے مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اگر اردو کی عظیم ادیبہ زندہ ہوتی تو مودی کے دور میں کیا لکھتیں؟ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ اس دور کا مرثیہ لکھنے والا آج کوئی نہیں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ قرت العین حیدر کا وہ ناول کون لکھے جو ناول اس کا قلم تخلیق کرنے سے محروم رہا۔ یہ ایک خوبصورت ناول ہے۔ اس ناول کا نام کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ کیا اس ناول کا نام یہ نہیں ہو سکتا کہ ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ مگر یہ ناول تو آپا عینی نے کئی برس قبل لکھا تھا۔ اس ضرورت سے اس ناول کے (حصہ دوئم) کی۔ وہ ناول کون لکھے؟ اور اس عنوان کے ساتھ۔ قرۃ العین بڑی کرشماتی ادیبہ تھیں۔ انہوں نے کبھی شاعری نہیں کی۔ مگر انہوں نے اپنے ناولوں کے لیے ہمیشہ عظیم شعراء کے اشعار کا سہارا لیا۔ انہیں علامہ اقبال کی شاعری سے بڑی رغبت تھی۔ انہوں نے اکثر اپنے افسانوں اور ناولوں کے نام اقبال کی شاعری سے اخض کیے۔ ان کی افسانوں کا پہلا مجموعہ تھا ’’ستاروں سے آگے‘‘ یہ اقبال کا شعر ہے : ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں عشق ایک امتحان مسلسل ہے۔ اقبال کی شاعری اس کابیان مسلسل ہے۔ میرے اس کالم کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم کو اس ادب کی طرف لوٹنا چاہئیے جو ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی صرف دو چار بچے اور پانچ ہندسوں والی تنخواہ نہیں ہے۔ فیض صاحب نے ٹھیک کہا تھا اور بھی غم ہیں دنیا میں محبت کے سوا مگرانسان صرف ملازمت نہیں ہے۔ اس دنیا کے غم بہت آسان اور بیحد پیچیدہ ہیں۔یہ بات بھی ہمیں سمجھائی اس قرۃ العین حیدر نے جس نے اپنی سرگزشت کا نام بھی اقبال کے اس شعر سے لیا تھا: باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر